ملک میں انتخابات کا ماحول گرمانے لگا ہے۔ چاروں اور یہی سوال پوچھا جا رہا ہے کہ ملک کا وزیر اعظم کون بنے گا ؟ نریندر مودی یا راہول گاندھی یا اروند کجریوال ؟ یا ملائم سنگھ یا جے للتا یا کوئی اور صوبائی رہنما ؟ کیوں پوچھا جا رہا ہے یہ سوال ؟ کیا بھارت کے وزیراعظم کا انتخاب بھارت کے عوام کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں! بھارت میں امریکہ کی طرح صدر منتخب کرنے کا طریقۂ کار نہیں ہے۔ وہاں کے عوام اپنے ملک کے صدر کا براہ راست انتخاب کرتے اوروہاں وزیر اعظم نہیں ہوتا۔بھارت کے وزیر اعظم کو عوام براہ راست منتخب نہیں کرتے بلکہ پارلیمانی انتخابات کے ذریعہ پارٹیوں کے ممبران کو منتخب کیا جاتا ہے اور پھر سب سے زیادہ سیٹیں جیتنے والی اکثریت پارلیمانی پارٹی اپنا لیڈر منتخب کرتی ہے، وہی وزیراعظم بنتا ہے۔
تو پھر یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ ملک کا وزیر اعظم کون بنے گا ؟ یہ کیوں نہیں پوچھا جا رہا ہے کہ کون سی پارٹی جیتے گی ؟ یہ صحیح سوال کیوں نہیں پوچھا جا رہا ہے اور غلط سوال ہواؤں میں کیوں گونج رہا ہے ؟ کیا اس طرح کے رجحانات بھارت کی جمہوریت کے لیے خطرناک ثابت نہیں ہو سکتے ؟ اسی رجحان کا ہی نتیجہ ہے کہ ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں 'پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں‘ کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔زیادہ تر پارٹیاں لیڈروں پر منحصر ہو گئی ہیں۔ کوئی ماںبیٹا پارٹی ہے‘ توکوئی شوہربیوی پارٹی ہے۔کوئی باپ بیٹا پارٹی ہے تو کوئی سالہ بہنوئی پارٹی ہے۔جن پارٹیوں میں کنبہ پروری نہیں ہے ، اب وہ پارٹیاں بھی ایک لیڈر پر ہی توجہ مرکوز کر رہی ہیں۔اس کا مطلب کیا ہوا ؟ پارٹی کا اپنا نظریہ مسخ ہوگیاہے!تنظیمی ڈھانچہ ختم ہو چکا ہے ! پالیسیاں ختم ہوگئی ہیں !ان سب کے ختم ہو جانے سے سب سے بڑا خطرہ جو سر پر منڈلاتاہے‘ وہ ہے پارٹیوں میں داخلی جمہوریت کا ختم ہو جانا۔کیا آج کسی بھی پارٹی میں کسی بھی مسئلے پر کھل کر صلاح و مشورہ ہوتا ہے ؟ لیڈر کے ڈر کے مارے انتہائی سینئر لوگ بھی بیٹھے بیٹھے گردن ہلا تے رہتے ہیں۔ساری سیاست لیڈرپر مرکوز ہو گئی ہے۔مختلف جماعتوں کے لیڈر ایک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں۔انہیں اپنے عہدے اور عزت کا خیال بھی نہیں رہتا۔ایک لیڈر دوسرے لیڈر کا مذاق اڑاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ساری سیاست ہی مذاق بن جاتی ہے۔جن سوالوں کو لے کرپورا ملک پریشان ہے ، ان پر سرے سے بحث ہی نہیں ہوتی۔ڈر یہی لگتا ہے کہ اس طرح کی سیاست سے پیدا ہونے والا وزیر اعظم ملک کا بھلا کیسے کرے گا ؟ وزیر اعظم کوئی بھی بنے ، کسی بھی پارٹی کا بنے۔اگر وہ اسی طریقہ سے بنے گا تو اس کا غرور کتنا بھاری بھرکم ہو جائے گا ؟ ایک پلڑے میں انا اور دوسرے میں جہالت ہو تو یہ کیسا میزان ہو گا؟
ملک کے سامنے مسائل تو بہت ہیں ، لیکن آج جو مسئلہ سب سے زیادہ گردش کررہا ہے ، وہ ہے ، بدعنوانی کامسئلہ! کیا وزیراعظم کے منصب کا کوئی امیدوار ہمیں یہ یقین دہانی کرا رہا ہے کہ بدعنوانی کے خاتمہ کے لیے وہ کیا ٹھوس قدم اٹھائے گا ۔ وہ عوام کو سب سے پہلے اپنے بارے میں یقین دلاتا ہے کہ وہ بدعنوانی نہیں کرے گا ؟ حکمرانوں پر وہ اصول نافذ نہیں ہوتے ، رعایا پر ہوتے ہیں ، کیا یہ روایتی سوچ کو بدلنے کے لیے کوئی امید وار تیار ہے ؟ کیوں کوئی امیدوار یہ نہیں کہتا کہ وہ کسی بھی مجرمانہ شبیہ والے یا بدعنوان لیڈر کو اپنی پارٹی کا ٹکٹ نہیں دے گا ؟ ہر وزیر اعظم بننے والا امیدوار اسی فکر میںرہتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو ٹکٹ دے ، جو انتخاب جیت سکیں۔یہی لیاقت سب سے اہم ہے۔بد عنوان ہونا آج بھی نااہلی نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج'عام آدمی پارٹی‘نے ہوا میں لٹھ گھماتے گھماتے دونوں قومی جماعتوں کے سر توڑ دیے۔دہلی میں تو توڑ ہی دیئے۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ کانگریس کی سیڑھی لگا کر اقتدار تک پہنچی ہے اور اس نے بجلی پانی کے فوری مسائل حل کیے ہیں ، لیکن اس نے رشوت خوروں کے خلاف جو مہم چھیڑی ہے ، اس کی تعریف پورے ملک میں ہو رہی ہے۔دہلی چھوٹا سی ریاست ہے اور دیگر ریاستوں کی طرح مکمل ریاست نہیں ہے ، لیکن یہ ملک کا دل ہے۔ پورا ملک اس کی دھڑکنیں سن رہا ہے اور پھڑک رہا ہے۔ 'عام آدمی پارٹی‘ کے پاس نہ تو بڑا تنظیمی ڈھانچہ ہے اور نہ ہی پیسہ۔ اس کے پاس نہ تو تجربہ ہے اور نہ ہی پشتینی اثاثہ ہے۔لیکن اس کی ایک دُھن ہے ، جو لوگوں کے دلوں کو چھو رہی ہے۔کوئی تعجب نہیں کہ ملک کے لوگ ایک جوا کھیلنے کو تیار ہو جائیں ، جیسے کہ وہ 1977 ء یا1989 ء میں ہوئے تھے۔
ایمرجنسی اور بوفورس کے بعد مرار جی ڈیسائی اور وشوا ناتھ پرتاپ سنگھ کی جو قیادت سامنے آئی تھی ، ملک کے لوگوں نے اسے پہلے سے جانا پر کھا تھا لیکن عام آدمی پارٹی ایک کورے کاغذ کی طرح ہے ، بغیر چکھے ہوئے گھی کی طرح ہے،بغیر سونگھے ہوئے پھول کی طرح ہے۔پتہ نہیں وہ آگے جا کر کیسی نکلے ؟ جیسی بھی نکلے۔آج لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے اور اس گھٹن سے بچنے کے لیے انہیں ایک کھڑکی دکھائی دینے لگی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ کھڑکی ، دریچہ ہی رہے گی یا دروازہ بن جائے گی ؟ اگر دہلی میں 'عاپ‘ کی حکومت آئندہ چارپانچ ماہ تک چلتی رہی اور اس نے بدعنوانی پر قابو پالیا تو کوئی تعجب نہیں کہ ایک دھکے میں ہی یہ بڑی پارٹی بن جائے ۔
بدعنوانی کی مخالف ہونے کی وجہ سے لوگ اس پارٹی کی طرف متوجہ تو ہوں گے ، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ بھارت کے عوام اسے حکومت بنانے کا موقع دیں گے۔اس پارٹی کے پاس بجلی ، پانی ، رین بسیرا جیسے فوری مسائل ہیں۔یہ مسائل حکومت سے زیادہ گورننس (انتظام و انصرام) سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا تعلق حکومتوں سے زیادہ بلدیاتی اداروں سے ہے۔ کیا بھارت کے عوام اتنے نا سمجھ ہیں کہ وہ میونسپل کے صدر کو بھارت جیسے وسیع ملک کا وزیر اعظم بنانے کو تیار ہو جائیںگے ؟ اس کے علاوہ دہلی کا ہر گھر رام لیلا میدان سے متاثر ہوا تھا اور دہلی میں ذات اور مذہب کے مہرے بھی اتنے موثر نہیں ہوتے ، جتنے کہ ریاستوں میں ہوتے ہیں۔ایسی صورت میں 'عاپ‘ اگر بھارت کی اہم مخالف پارٹی کی طرح ابھر سکے تو ہندوستانی سیاست کے لیے اسے تازہ ہوا کا جھونکا تصورکیا جائے گا۔ جہاں تک کانگریس کا سوال ہے ، وہ اپنے وزیر اعظم کے امیدوار کی تصویر چمکانے کے لیے پانچ ارب روپے پانی میں بہانے کو تیار ہے۔ یعنی آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کی تصویر کتنی زیادہ مسخ ہو چکی ہے۔پھر بھی وزیر اعظم کے عہدے کا خواب دیکھنے والے ہر پارٹی اور امیدوار سے یہ امید تو کی ہی جا سکتی ہے کہ وہ ملک کے سامنے متبادل نقشہ پیش کرے۔وہ یہ بتائے کہ وہ وزیر اعظم بنے گا تو وہ اس ملک کو کیسا بنائے گا ؟ اس کے سپنوں کا ملک کیسا ہوگا ؟ وہ غربت دور کس طرح کرے گا ؟ غریب وامیر کی کھائی کیسے پاٹے گا؟ اپنی زبان میں اپنا راج کاج کب چلے گا؟ تحفظ اور خارجہ پالیسی کیسی ہوگی؟ سماجی منافرت کیسے گھٹے گی ؟ ذات پات کا خاتمہ کیسے ہوگا ؟ وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار اگر ان گہرے اور سلگتے مسائل پر بحث نہیں کریںگے اور صرف اپنی پیٹھ ہی ٹھوکتے رہیں گے تو وہ دن دور نہیں جب ملک اپنا ماتھا ٹھوکنے لگے گا۔