"DVP" (space) message & send to 7575

حلف اور کچھ دوسرے پہلو

بھارتی جمہوریت کا یہ تاریخی دن ہے، جب نریندر مودی نے وزارت عظمیٰ اور ان کے وزرا نے اپنی اپنی وزارتوں کا حلف اٹھایا۔ وزرا کی ٹیم میں لگ بھگ صحیح نمائندگی ہوئی ہے‘ پھر بھی موٹی موٹی کچھ کمیاں دکھائی دیتی ہیں۔ سب سے پہلے یہی سوال پوچھا جا رہا ہے کہ لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، شانتا کمار وغیرہ جیسے بزرگ اراکین پارلیمان کو حلف کیوں نہیں دلایا گیا؟ اندور کی بزرگ رکن پارلیمان سمترا مہاجن کو بھی کوئی جگہ نہ ملی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ قابلِ احترام سیاست دان آگے جا کر سپیکر، نائب صدر یا صدر بن جائیں۔ جو بھی ہو یہ ماننا پڑے گا کہ مودی کی وزرا ٹیم بھارت کی سب سے زیادہ جوان ٹیم ثابت ہو گی۔ ایک دو ارکان کے سوا سبھی محترم وزیر 60 یا 65 سال سے نیچے ہیں۔ امید ہے‘ یہ کیفیت نریندر مودی کو ایک دبنگ وزیراعظم بننے کا موقع عطا کرے گی۔ وزرا کی عمروں کا خیال رکھنے کے بعد اب مودی کوکوئی فیصلہ کرنے کے لیے کسی مجبوری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ خود مودی آزادی کے بعد پیدا ہونے والے پہلے بھارتی وزیر اعظم ہیں۔
وزرا کی ٹیم کو دیکھ کر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بی جے پی کا ترجمہ ہو رہا ہے۔ نئے خاندان کی شروعات ہو رہی ہے۔ یہ سلسلہ دیگر سیاسی پارٹیوں میں بھی خاندانی بدلاؤ کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ یہ بھارتی جمہوریت کو جدید کرنے کے عمل کا ثبوت ہے۔ وزرا کی ٹیم میں یوں تو نئے اور پرانے ہر طرح کے اراکینِ پارلیمان کو موقع ملا ہے لیکن سات خواتین وزیروں کا ہونا ثابت کرتا ہے کہ انہیں لگ بھگ 15 فیصد نمائندگی ملی ہے۔ یہ مزید بڑھنی چاہئے۔ جہاں تک اقلیتوں کی کم نمائندگی کا سوال ہے‘ تو اس کے لیے نریندر مودی یا بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرانا مناسب نہیں۔ بی جے پی کے ساتوں مسلم امیدوار ہار گئے‘ پھر بھی راجیہ سبھا کی ممبر نجمہ ہبت اللہ کو موقع ملا ہے۔ ابھی محکمہ وزرا کا حسب قانون اعلان نہیں ہوا لیکن کہا جا رہا ہے کہ وزیر خارجہ سشما سوراج، منسٹری آف ہوم راج ناتھ سنگھ اور وزارت خزانہ اور وزارت دفاع کی ذمہ داری ارون جیٹلی کو دی گئی ہے۔ یہ محکمہ تقسیم مناسب ہے لیکن جب یہ دائرہ بڑھایا جائے گا تو یہ شعبہ تقسیم زیادہ مفید اور کارگر نہ ہو گا۔ یوں تو صدارتی محل کے کھلے میدان میں چندر شیکھر اور اٹل بہاری واجپائی بھی حلف لے چکے ہیں‘ لیکن اس حلف برداری کو میں عوامی حلف برداری کہتا ہوں کیونکہ ایک تو اس میں ہزاروں لوگ شامل ہوئے اور دوسرے چھوٹے بڑے سبھی شامل ہوئے۔ سنت‘ فقیر بھی دکھائی دیے۔ حلف برداری کی تقریب میں مودی کا چناؤ مشن اور ملک کے گوناگوں عوام دونوں نمایاں ہو رہے تھے۔ اس جشن کی سب سے نمایاں خاصیت یہ تھی کہ پڑوسی ملکوںکے سربراہ موجود تھے۔ ماریشئس جغرافیائی لحاظ سے بھارت کا پڑوسی ملک نہیں‘ لیکن بھارتی خاندان ہونے کے ناتے پڑوسی ہے۔ اس کے سربراہ کا آنا اور اس سے بھی زیادہ میاں نواز شریف کا آنا بہت ہی اہم ہے۔ یہ عوامی سارک کے میرے خیال کو عملی جامہ پہنانے کی شروعات ہے۔ امید ہے کہ سشما سوراج وزیر خارجہ کے طور پر اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے کو ئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھیں گی۔
ایک بات اور ہوتی تو میں اسے بھی تاریخی کہتا۔ اگر نریندر مودی کے سبھی وزیر ہندی یا دوسری بھارتی زبانوں میں حلف لیتے تو یہ واقعہ بھی لاثانی ہوتا‘ لیکن آٹھ لوگوں نے انگریزی میں حلف لیا۔ یہ وہی زبانی غلامی کی بھیڑ چال ہے، جو ابھی تک چلی آ رہی ہے۔ کیا مودی اسے بدل پائیں گے؟
میں من موہن سنگھ اور اندر کمار گجرال جیسے وزرائے اعظم کی بات نہیں کر رہا، جن کی کوئی عوامی بنیاد نہ تھی۔ انہیں پروا بھی نہیں تھی کہ ان کی کرسی رہے یا چلی جائے لیکن اس ملک کے ایسے وزیر اعظم بھی عوام سے کٹ گئے 
جنہوں نے 40 سال یا 50 سال عوام کے درمیان گزارے ہیں۔ اندرا گاندھی کے سوا مجھے کسی وزیر اعظم کا علم نہیں، جس نے باقاعدہ عوامی دربار لگایا ہو یا جس نے اکثر صحافیوں سے محفل کی ہو۔ راجیو گاندھی نے اپنی والدہ کی نقل کرنے کی تھوڑی بہت کوشش کی تھی لیکن وہ جلد ہی تھک گئے۔ راجیو گاندھی کے عوامی دربار میں شروع شروع میں بھیڑ ضرور لگا کرتی تھی لیکن نہ تو ملنے والوں کو کوئی ٹھوس فائدہ ہوتا تھا اور نہ ہی وزیر اعظم کو کوئی بنیادی سجھاؤ ملتے تھے۔ اکثر لوگ وزیر اعظم سے کام کروانا چاہتے تھے، جو کسی رئیس یا وڈیرے سے کروانے چاہئیں تھے۔ دھکے بازی میں ہوئی دو تین منٹ کی ملاقات میں خیالوں کا لینا دینا بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں راجیو کو ایسے بلامقصد درباروں کا پتہ چل گیا تھا۔ نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ ہفتے میں ایک بار ایسا عوامی دربار ضرور لگائیں لیکن اس میں آنے والوں کی پہچان اور ان کے بارے میں موٹی موٹی جانکاری ضرور رکھنی چاہیے۔ جہاں تک صحافیوں کا سوال ہے، راجیو گاندھی کی صحافی مجلس کے لیے اندرونی سطح پر بہت تیاری ہوا کرتی تھی‘ اس کے باوجود وہ کیا کا کیا بول جاتے تھے۔ ان کو پٹی پڑھانے والے اپنا سر پیٹتے رہ جاتے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ حال نرسمہا راؤ اور اٹل بہاری واجپائی کا 
نہیں ہوتا تھا لیکن وہ بھی صحافیوں کے مجمعے سے گھبرا جاتے تھے۔ نریندر مودی کا گھبرانا بھی فطری ہے‘ لیکن میری رائے ہے کہ اگر وہ کامیاب وزیراعظم بننا چاہتے ہیں تو انہیں مہینے میں ایک بار صحافی حضرات کی انجمن ضرور بلانی چاہیے۔ ان میں اتنی خود اعتمادی ہے کہ وہ صحافیوں کے حملوں کو بخوبی جھیل سکتے ہیں۔
مودی اب وزیراعظم بن گئے ہیں تو ظاہر ہے کہ تاجر اور شاہی نوکر ان کے چاروں طرف گھیرا ڈالیں گے‘ لیکن ملک کے دانش مند‘ عالم اور سوشل ورکر لوگوں سے ان کا کٹ جانا ان کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ مجھے کئی وزرائے اعظم نے یہ کہا کہ دن بھر میں انہیں گھنٹہ دو گھنٹہ کا وقت بھی ملک کے لیے سوچنے کو نہیں ملتا‘ ان کا زیادہ تر وقت سیاستدانوں کی ٹکریں جھیلنے، نوکر شاہی کے دائو پیچوں کو سمجھنے اور دکھاوے کے پروگراموں میں خرچ ہو جاتا ہے۔ مودی بھی اس سے بچ نہیں سکتے لیکن اگر ان کو بہتر پالیسی کا معمار بننا ہے تو روز مطالعہ کے لیے کچھ وقت نکالنا ہو گا، جیسے وہ ورزش کے لیے وقت نکالتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف معاملات کے محققین سے صلاح مشورہ بھی نہایت ضروری ہے۔ مودی کو خود ان تک پہنچنا ہو گا۔ کسی بھی وزیر اعظم کے مقابلے میں مودی ہر روز زیادہ کام کر سکتے ہیں کیونکہ وہ بال بچے والے نہیں ہیں۔ زاہد اور نفس کش ہیں۔ ویدوں میں کہا بھی گیا ہے کہ نفس کشی کی ریاضت کرنے والا حاکم ہی سلطنت کی حفاظت اور خدمت کر سکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں