"DVP" (space) message & send to 7575

مودی کی کھچڑی میں کیا کچھ نہیں

جواہر لعل نہرو سے لے کر اب تک جتنے بھی وزرائے اعظم ہوئے ہیں‘ان سب کے خطاب سننے کا اور نہرو جی اور شاستری جی کے علاوہ سبھی وزرائے اعظم سے قریبی تعلق کا موقعہ مجھے ملا ہے لیکن جو خواب وزیر اعظم نریندر مودی نے دکھائے ہیں‘ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی اور وزیر اعظم نے دکھائے ہوں۔ نہروجی نے سماج وادی سماج‘شاستری جی نے جے جوان جے کسان اور اندرا جی نے غریبی ہٹائو کا نعرہ دیا۔ اٹل جی نے اپنے آخری دور میں 'چمکتے بھارت‘ کا نعرہ دیا لیکن یہ سب نعرے ہی رہے۔ان نعروں کے تحت کچھ ہدف پورے بھی ہوئے لیکن کسی بھی وزیر اعظم نے ملک کے مختلف مسائل کے حل کیلئے ٹھوس تسلی نہیں دی۔ کئی مسائل کا حل انہوں نے کیا لیکن ڈھیروں مسائل نہ تو انہوں نے ایک ساتھ اٹھائے اور نہ ہی انہیں حل کرنے کا وعدہ کیا۔ ہر سیاسی پارٹی اور ہر سیاست دان انتخابات کے دوران وعدوں کے انبار لگا دیتا ہے‘کیونکہ اسے ووٹ لینے ہوتے ہیںلیکن حکومت ملنے پر ان وعدوں کو بھولنے کا طریقہ بھی شروع ہو جاتا ہے؛ تاہم خوشی کی بات ہے کہ نریندر مودی نے ان وعدوں کو وزیر اعظم بننے کے بعد تو دہرایا ہی ‘ صدرمملکت کے خطاب میں بھی انہیں شامل کروایا۔ ایوان میں انہوں نے کہا کہ اپنے وعدوں کو ہم اپنے بزرگ ساتھیوں کی درست ہدایات میں پورا کریں گے۔ انہوں نے اپنے مخالفین کے اس الزام کا بھی جواب دیا کہ ان وعدوں کو وہ کیسے پورا کریں گے ۔
لیکن ان کے جواب سے اپوزیشن لیڈر مطمئن نہیں دکھے۔جہاں تک عوام کا سوال ہے‘وہ فی الحال اسی خوشی میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ انہوں نے حاکم نسل پرستی کو اکھاڑ پھینکا۔بد عنوان سرکار کو ایسی مار لگائی‘ جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ آئیے ہم دیکھیں کہ مودی نے کیا کیا خواب دکھائے ہیں ؟ ان سب خوابوں کو اگر ہم ایک جگہ رکھ دیں تو کونساآئینی یا خیالی ڈھانچہ کھڑا ہوتا ہے ؟کیا اسے ہم پونجی وادی یا سماج وادی یا گاندھی وادی یا ہندو وادی ڈھانچہ کہہ سکتے ہیں؟ مودی کے خوابوں کی بنیاد کھوجنا ہو تو ہمیں بی جے پی کے منشورکی جانب لوٹنا ہوگا۔جو منشور میں کہا گیا ہے۔ کیا بی جے پی کا منشور مودی نے تیار کیا ہے؟نہیں ‘کوئی بھی لیڈر اکیلا اتنا قابل نہیں ہے کہ منشور لکھ سکے ۔نہرو اور نرسمہا رائو کے علاوہ کسی بھی وزیراعظم سے اس قابلیت کی امید نہیں رہی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خود مودی کو اپنے منشور کو غور سے پڑھنا ہوگااور اس کی باریکیوں کو سمجھنا ہوگا۔ تقریر کرنے اور باتوں کو دہرانے سے اب کام نہیں چلے گا۔ 
بی جے پی کے منشور اور مودی کی تقاریر کو اگر آپ غور سے پڑھیں تو ان میں سے کسی آئینی ماڈل کو ڈھونڈنا ناممکن ہے۔مودی کو سب سے کٹر ہندو مانا جاتا تھا لیکن 'ہندو،ہندی اور ہندوستان‘ کا نعرہ کہاں ہے؟مودی نے ہری دوار کی اپنی پہلی انتخابی تقریر میں ہی ' سروے بھونتو سکھنہ‘کا اعلان کر دیا تھا۔سب کا سکھ صرف ہندوؤں کا نہیں ۔کہا جا سکتا ہے کہ سچا ہندو یہی ہے۔ہندو حاکم کیلئے سب رعایا برابر ہے۔اس کیلئے نہ کوئی ہندو ہے نہ کوئی مسلمان‘نہ کوئی چھوٹا ہے نہ بڑا‘نہ کوئی اونچ ذات ہے نہ کوئی نیچ ذات۔سب کی خدمت اور تحفظ کرنا ان کا فرض ہے۔اسے ہی میں نے 2002ء میں گجرات دنگوں کے وقت حاکمانہ فرائض قرار دیا تھا۔ جسے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے بار بار دہرایا تھا۔مودی کے خطبوںمیں کہیں بھی کوتاہی یااوچھاپن دکھائی نہیں دیا۔ 2002ء کے مودی اور 2014ء کے مودی میں زمین آسمان کا فرق دکھائی دیا ۔انہوں نے اپنے ملک میں مسلمانوں کی حالت کادل دوز ذکر کیا ہے ۔انہیں روزگاراور تعلیم دینے کے مخصوص پروگرام شروع کرنے کی بات کہی ہے ۔جہاں تک دھارا 370 اور کشمیر کا سوال ہے‘شیام پرسادھ مکھرجی(جن سَنگھ کے بنانے والے)کے نعرے ہم نے مودی کی کسی مجلس میں بھی نہیں سنے۔بلکہ یہی سنا کہ برابرقانونی قلم اور کشمیر کے معاملے میں مودی سرکار متعلقہ طرفین کی رائے لیے بنا کوئی فیصلہ نہیں کرے گی یعنی مسلمانوں اور کشمیریوں کے جذبات کا پورا خیال رکھا جائے گا ۔مودی نے ایوان کے اپنے خطاب میں پُونے کے ایک مسلم نوجوان کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا ‘یہ بہت غور کرنے جیسی بات ہے ۔
جہاں تک زبان کا سوال ہے ‘مودی نے 'ہندی‘ کو بحث و مباحث سے اوپر اٹھا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی ساری تکنیک بھارتی زبانوں میں لائیں گے۔انہوں نے صرف 'ہندی‘نہیں کہاہے۔وہ بھارت کی زبانوں کے مسائل کا راز سمجھ گئے ہیں۔اس بہت بولیوں والے ملک بھارت میں وہ کسی پر ہندی تھوپنا نہیں چاہتے۔ مودی نے بیرونی مہمانوں سے ہندی میں بات کرنے اور وزارت عظمیٰ کوہندی میں کام کرنے کی ہدایات دے کر نہ صرف ملکی زبان کی شان بڑھائی ہے بلکہ گاندھی کے خواب کو حقیقی شکل دینے کی طرف ایک اور قدم بڑھایا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ غیر ملکی رشتوں کو چھوٹ دینا‘نئے شہر بسانا‘جاپان جیسی بلٹ ریل چلانا‘نئے نئے ہوائی اڈے بنانا، روزگار‘تجارت کو خاص رعایت دینا وغیرہ ایسے وعدے ہیں‘جن سے لگتا ہے کہ پونجی واد کا نیا دور شروع ہونے والا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ ہر آدمی کو روزگار‘تعلیم‘صحت اور پکا مکان دینے کا وعدہ بھی ہے ۔ہر گاؤں کو سڑکوں سے جوڑنے کا ارادہ بھی ہے۔ندیوں کی صفائی اورسیرابی کا ارادہ بھی ہے۔یہ سب کیا ہے ؟یہ سماج واد نہیں تو کیا ہے؟خواتین کو 33 فیصدریزرویشن دینا اور غریبی دور کرنے کا بھروسہ دلانا وہ اعلان ہیں کہ اگر ڈاکٹر لوہیا ہوتے تو مودی کو گلے لگاتے۔ 
............
دلی کی ٹھنڈ ہو یا گرمی ‘ ہر سال کے پانچ دس دن یہاں موت کا موسم لے آتے ہیں۔دلی میں یوں تو لگ بھگ 10لوگ روز ہی سڑکوں پر مرے پائے جاتے ہیں لیکن اس سال چھپر پھاڑ گرمی پڑی ہے۔ اس کی وجہ سے ایک دن41 لوگ سڑکوں پر مرے پائے گئے ۔موت کایہ موسم صرف دلی پر ہی غضب نہیں ڈھاتا‘پورے بھارت کے سینکڑوں دیہات اور شہروں میں پتہ نہیں کتنے لوگ ہر سال بے موت مارے جاتے ہیں۔سڑکوں پر ہونے والی یہ اموات کیا ثابت کرتی ہیں؟کیا یہ نہیں کہ ہمارے یہاں انساں کی جان کسی جانور سے بھی سستی ہے۔گرمی اور سردی سے بچنے کیلئے جانوروں کو تو کہیں نہ کہیں پناہ مل جاتی ہے لیکن آدمیوں کو کون پناہ دے؟ 
دلی کی گرمی میں مرے 41 لوگ وہ ہیں‘جن کے پاس رہنے کو کوئی گھر نہیں تھا ۔سر ڈھکنے کیلئے ان کے پاس کوئی چھپر نہیں تھا۔ دلی میں سرکار نے شیلٹر ہومز بنائے ہیںلیکن وہ کتنے ہیں؟ ٹوٹل184۔ ان میں سے 82 پکے ہیںاور 102 کچے۔ ان میں 2000 لوگ بھی نہیں رہتے۔کیوں نہیں رہتے؟ کیونکہ وہ رہنے لائق نہیں ہیں۔وہاں گرمی سے کوئی راحت نہیں ہے۔ یہ پنا ہ گاہ بھی لوگوں کو مرنے سے بچا نہیں سکتی‘کیونکہ یہ لوگ تو پہلے سے ہی ادھ مرے ہوتے ہیں۔موت کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔کسی کو ٹی بی ہوتی ہے‘ کسی کو دل کی بیماری ہوتی ہے‘ کسی کی ہڈیاں سوکھ رہی ہوتی ہیں اور کسی کو لقوہ ہوتا ہے۔ کئی سائیکل رکشہ چلاتے ہیں‘کوئی غبارے بیچتا ہے ‘کوئی ریہڑا کھینچتا ہے‘ کوئی نائی کا کام کرتاہے اورکوئی قلی ہے۔ جسے کچھ کام نہیں ملتا‘وہ سڑکوں پر خیرات مانگتا ہے۔انہی لوگوں پر جب گرمی اور سردی کی مار پڑتی ہے تو یہ دم توڑ دیتے ہیں۔ 
بھارت میں دنیا کے جانے مانے کروڑ پتیوں کی تعداد ہر سال بڑھتی جاتی ہے لیکن روٹی اور پانی کی قلت سے دم توڑنے والوں کی تعداد کم نہیں ہوتی ۔ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم دنیا کے سب سے پرانے اور سب سے بڑے مذہبی ملک ہیں لیکن مذہب ہمیں رحم دل کیوں نہیں بناتا؟ بھارت جیسے ملک میں گرمی اور سردی کی وجہ سے اگر ایک آدمی کی بھی موت ہو جائے تو وہ بڑی خبر بننی چاہئے لیکن ہر سال موت کا یہ موسم آتا ہے اور دبے پاؤں آگے نکل جاتا ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں