پچھلے دنوں مجھے لگ بھگ بیس دن تک پاکستان میں رہنے کا موقع ملا۔میری ملاقات وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر خارجہ سرتاج عزیز کے ساتھ تو ہوئی‘پاکستان کے کئی فوجی سربراہان‘ ماہرین سیاست‘ دانشمند لوگوں اور صحافیوں سے بھی ہوئی۔ پاکستان کے پنجابی‘سندھی‘ پٹھان اور بلوچ صوبائی نمائندوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں ۔کئی عام آدمیوں سے بھی بات کرنے کا موقع ملا۔ اس سفر کے دوران میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر بھارت سے پاکستان چاہتا کیا ہے؟بھارت ایسا کیا کرے‘ جس سے پاک بھارت تعلقات بہتر ہو جائیں؟
دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہونے سے پہلے ضروری بات تو مجھے یہ لگی کہ آج کل پاکستان کی ہوا کافی تبدیل ہے۔ پچھلے چالیس پینتالیس سال میںجب بھی پاکستانیوں سے میری بات چیت ہوتی تھی‘توکچھ نہ کچھ تلخیاں پیدا ہو جاتی تھیں۔اس بار ماحول بدلا ہوا لگا۔ کسی نے بھی وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں ایسی بات نہیں کی‘جس سے مجھے برا لگے۔ پاکستانی لیڈروں اور دانشمندوں کا کہنا تھا کہ اگر ہندوستان کے عوام نے مودی کو قبول کیا ہے ‘ تو ہم انہیں قبول کیوں نہ کریں؟انہیں یہ یقین ہے کہ مودی جیسا سربراہ سخت فیصلے کر سکتا ہے اور انہیں اپنے عوام سے منوا بھی سکتا ہے۔ اب پاکستانیوں کے دل سے یہ خوف نکل گیا ہے کہ بھارت اس کے ٹکڑے کر سکتا ہے یا بندوق کے زور پر کشمیر کوچھین سکتا ہے۔ دونوں ملک ایٹمی قوت ہیں۔اس لئے پاکستان کو نقلی طاقت کے توازن کی ضرورت نہیں ہے۔اب پاکستان ہر مدعے پر بھارت کے ساتھ خود اعتمادی کے ساتھ مذاکرات کر سکتا ہے۔
لگ بھگ ہر پاکستانی نے مجھ سے کہا کہ اب 'نریندر مودی‘ صاحب کوجلد سے جلد پاکستان آنا چاہئے۔جولائی اگست میں آجائیں۔میں نے پوچھا کہ کچھ مدعوں پر سمجھوتہ ہو جائے‘تو آنے کا اچھا بہانہ بن جائے گا۔اس پر ان کا کہنا تھا کہ اچھے تعلقات کے لئے کسی بہانے کی ضرورت نہیں ہے۔نواز شریف بھارت گئے اس سے طرفین میں اعتماد بڑھا یا نہیں؟کچھ مخصوص اپوزیشن لیڈروں نے مجھ سے کہا کہ بھارت دورہ سے میاں نوازکی شان پاکستان میں خراب ہوئی ہے‘خاص طور سے آپ کے خارجہ سیکرٹری کے ذریعہ پڑھے ہوئے بیان سے۔ اس بیان میں جن مدعوں کا ذکر کیا گیاتھا‘ ان کے بارے میں ہمارے ہندوستانی و پاکستانی لیڈروں نے مجھے بتایا کہ کوئی بحث ہی نہیں ہوئی۔تو پھر‘اس بیان کا بار بار کیوں ذکر کرنا ؟
کشمیر کے سوال کو حل کرنے کی بات بھی ہر جگہ اٹھی۔ پاکستانی کشمیر کے سب سے بڑے ضعیف لیڈر سردار قیوم اور ان کے بیٹے 'سابق وزیر اعظم‘ سردار عتیق سے بھی بات ہوئی۔ کئی سابق جنرلوں اور خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان سے بھی ملاقات ہوئی۔سب کی رائے پہلی دفعہ میں نے ایک جیسی دیکھی۔ سبھی نے کہا کشمیر مسئلے کا حل جنگ یا تشدد نہیں ہو سکتا۔ بات چیت سے ہی ہوگا۔کچھ لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ لوگ کشمیر میںعوامی اجتماع کے خلاف کیوں ہیں؟میں نے اقوام متحدہ کے کاغذوں کو ظاہر کرتے ہوئے کئی وجوہ بتائیں‘ لیکن میں نے یہ بھی پوچھا کہ کیا پاکستان کشمیریوں کو 'تیسرا آپشن‘ دینے کو تیا ر ہے ؟یعنی بھارت اور پاکستان میں ضم ہونے کے علاوہ‘کیا وہ 'آزاد ‘بھی ہو سکتا ہے؟میں نے بتایا کہ ہر پاکستانی وزیر اعظم نے کشمیرکو 'تیسر اآپشن ‘ دینے کی مخالفت کی ہے۔کشمیر کے دونوں حصوں کو ہم دونوں ملک زیادہ سے زیادہ آزادی دیں‘لیکن انہیں الگ کرنے کی بات کریں گے تو‘سب سے زیادہ نقصان کشمیر کا ہی ہوگا۔ پورے جنوب ایشیا کوہمیں متحدبنانا ہے‘نہ کہ ان کے نئے نئے ٹکڑے کھڑے کرنے ہیں۔
پاکستانی کشمیر کے لیڈروں اور دیگر لوگوں نے بھی مجھے یہ مشورے دیے کہ دونوں کشمیر کی سرحدیں کھولنے ‘ویزا عمل کو آسان بنانے‘تجارت اور آنے جانے کی کوششیں نئے سرے سے شروع کی جائیں۔'مجاہدین اول‘ سردار قیوم کی خواہش تھی کہ وہ سڑک کے راستے سے ایک بار سری نگر ضرور جائیں گے۔ کچھ کشمیری لیڈروں نے کہا کہ کشمیر کا حل ہوتا رہے گا۔پہلے آپ اوپر بتائیں کہ کام شروع کروائیں ۔
پاک بھارت تجارت بڑھنے پر ہر ایک آدمی نے زور دیا۔ میں نے جب پوچھا کہ پاکستان نے ابھی تک بھارت کو 'موسٹ فیورٹ نیشن‘ کا درجہ کیوں نہیں دیا‘تو انہوں نے کہا کہ اردو میں اس کا مطلب ہوتا ہے کہ 'سب سے پسندیدہ ملک‘ بھلا ‘آج بھارت کو یہ نام کیسے دیا جا سکتا ہے؟نام تبدیل کرنے پر تو سمجھوتہ ہو گیا ہے‘لیکن بڑے صنعتکاروں اور کسان لیڈروں نے مجھے بتایا کہ اگر ہم پاکستان کا بازار بھارتی مال کے لئے مکمل طور پہ کھول دیں گے تو ہمارے کارخانے بند ہو جائیں گے اور ہمارے کسان بھوکے مر جائیں گے۔اس پر میں نے کہا کہ ایسا ہو جائے‘یہ ہم بالکل نہیں چاہتے۔دونوں ملکوں کے ماہرین بات کریں اور درست فیصلہ کریں۔ ایک دوست نے کہا کہ بھارت کے ساتھ نہ تو تجارت کی جائے اور نہ ہی اسے پاکستان سے ہو کر وسطی ایشیا تک جانے کا راستہ دیا جائے‘کیونکہ بھارت کا سستا مال پاکستانی اقتصادیات کو چوپٹ کر دے گا اور پاکستانی زمین پر بھارتی ایجنٹ جاسوسی کریں گے ۔اس سے پاکستان کی حفاظت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔میرا کہنا تھا کہ اس کا ایک دم الٹ ہو گا۔اگر بھارت کو پاکستان سے زیادہ فائدہ ہو گا‘تو بھارت پاکستان کو سدا خوش رکھنے کی کوشش کرے گا۔ پاکستان جب چاہے گا بھارت کا حقہ پانی بند کر دے گا۔
پاکستان کے کئی لیڈروں اور دفتر خارجہ کے اعلیٰ افسروں نے کہا کہ مودی جی چاہیں تو سیاچن اور دوسرے مسائل منٹوں میں حل کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے واقعات کے سبب دونوںملکوں کے باہمی تعلقات بند نہیں ہونے چاہئیں۔ دہشتگردوں نے بھارت سے زیادہ پاکستان کو پریشان کر رکھا ہے۔ان پر کسی کا بس نہیں ہے۔ہم نے انہیں ختم کرنے کیلئے فوجی مشن چلا رکھا ہے۔اس پر میں نے کہا کہ کیا آپ نے افغان صدر حامد کرزئی کے خط پر توجہ دی ہے؟انہوں نے میاں نواز شریف کو لکھا ہے کہ آپ صرف پاکستان مخالف دہشتگردوں کو ہی ختم نہ کریں‘جو افغانستان ‘بھارت اور چین کے خلاف ہیں‘ ان کا بھی صفایا کریں۔
کچھ ماہروں نے مانا کہ افغانستان سے امریکی واپسی کے بعد لاقانونیت پھیلی ‘توجنوب ایشیا میں بھی شام اور عراق جیسے حالات ہو سکتے ہیں۔میرا مشورہ تھا کہ پاکستان بھارت میں بجائے مقابلے کے‘ تعاون کا ڈھانچہ کیوں نہیں بنا؟ اس سوال پر پاکستان کے کئی پالیسی میکر حیران رہ گئے لیکن انہوں نے مانا کہ ایسا ہو جائے‘تو جنوب ایشیا کی شکل ہی بدل جائے گی۔ کچھ دوستوں کا کہنا تھا کہ مودی صاحب آئیں اور ان سب مدعوں پر بات کریں‘تو دونوں ملکوں کے بیچ تعلقات کا نیا باب شروع ہو سکتا ہے۔
(ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک بھارت کی کونسل برائے خارجہ پالیسی کے چیئرمین ہیں)