عراق میں یر غمال کی ہوئی نرسیں آج رہا ہو جائیں گی‘یہ ہم نے کل ہی لکھ دیا تھا؟ایسا کیوں لکھ دیا؟ اس کی بنیاد کیا تھی ؟ اس کا سبب تو یہ تھا کہ ہماری وزیر خارجہ سشما سوراج اس مسئلے سے نپٹ رہی تھیں۔ وہ عراق کی پڑوسی عرب ریاستوں کے لیڈروں سے سیدھے رابطہ میں تھیں۔ ہمارا بغداد کا سفارتخانہ بھی رات دن مشقت میں جٹا ہوا تھاکہ کسی بھی طرح ہماری نرسیں رہا ہو جائیں۔ ان کی جان اور عصمت دونوں محفوظ رہیں۔سشما کی زباندانی اور جذباتی مٹھاس بھارتیوں کو ہی نہیں بلکہ غیر ملکیوں کو بھی کشش کرتی ہے۔ اس کا اثر ہوئے بنا کیسے رہے گی؟لیکن نرسوں کی اس رہائی کی بھلائی اس 'اسلامی ریاست‘ کے باغی فوجیوں کو بھی دی جانی چاہئے‘جنہوں نے تکریت شہر پر قبضہ کیا اور ہماری نرسوں کو یرغمال بنایا لیکن انہیں موصل لے جا کر آزاد کر دیا ۔وہ چاہتے تو ان کا قتل کر دیتے۔ان سے زیادتی کرتے ۔ان پر ظلم کرتے۔لیکن ایسا نہ کر کے انہوں نے اسلام کی اور اپنی 'اسلامی سلطنت‘ کی عزت بڑھائی ۔اگر نرسوں کے ساتھ کچھ بھی ناپسندیدہ واقعہ ہوتا تو ساری دنیا میں ان کی بدنامی ہوتی۔ انہوں نے نرسوں کو تکریت کے ہسپتال سے اس لئے ہٹایا کہ وہ اس ہسپتال پر بمباری کرنے والے تھے۔جب وہ نرسوں کو موصل لے گئے تو انہوں نے انہیں بس میں چائے ‘بسکٹ اور ناشتہ وغیرہ بھی دیا۔ اس کے دو معنی نکلے۔ایک تو ایسا کرکے انہوں نے ساری دنیا میں اپنی شان بڑھائی اور دوسرا انہوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ بھارت مخالف نہیں ہیں‘حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ بھارت سرکار کے تعلقات ان کے دشمن نوری الملکی سے ہیں۔نرسوں کی رہائی کے لئے کیرل کے لوگ ہی نہیں‘سارے بھارتی ان اسلامی فوجیوں کے احسانمند ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ہمارے چالیس مزدوروں کو انہوں نے ابھی تک رہا نہیں کیا ہے ؟ہمارے دفتر خارجہ کا دبائو نرسوں کے معاملے میں کام کر گیا‘ مزدوروں کے معاملے میں اس کا کوئی اثر کیوں نہیں دکھائی پڑ رہا ہے ؟کیا نرسوں کو انہوں نے اس لئے چھوڑ دیا کہ نہیں چھوڑتے تو ان کی بدنامی ذرا زیادہ ہوتی؟اگر وہ چاہتے ہیں کہ بھارت ان کے ساتھ انصاف پسندی کا رویہ رکھے تو انہیں چاہئے کہ وہ بھارتی مزدوروں کو بھی رہا کر دیں ‘جیسے کہ انہوں نے ترکی کے مزدوروں کو چھوڑ اہے۔ابھی اس علاقے میں لگ بھگ دس ہزار بھارتی رہ رہے ہیں۔سرکار کو ان کی حفاظت کا بھی خیال رکھنا ہے۔اس لئے اسے کچھ وقت تک جنگ میں مصروف طرفین کی جانب غیرجانبدارانہ اور نیک خو بنائے رکھنے کی مجبوری میں جانا پڑے گا۔
واہ‘کمار سوامی!
کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ' جنتادل ‘کے لیڈر ایچ ۔ڈی کمار سوامی کی یوں تو سب شکایت کریں گے کیونکہ انہوں نے ایک ایم ایل اے کے امیدوار سے چالیس کروڑ روپے مانگے تھے۔اخبار والے اور ٹی وی والے اس کنڑ لیڈر کے پیچھے پڑ گئے ہیں لیکن اپنے خلاف ہو رہے پرچار سے کمار سوامی ذرا بھی نہیں گھبرائے۔انہوں نے بات چیت کی ریکارڈنگ کو ثبوت بتایا اور کہا کہ فون پر ہوئی بات چیت میں‘ میں نے بیجا پور کے وجے گوڑا پاٹل سے چالیس کروڑ روپیہ کی مانگ کی تھی ۔اگر وہ مجھے چالیس کروڑ روپیہ دے دیتے تو میں انہیں کرناٹک کے نشست سے ایم۔ایل۔ اے کے لئے نامزد کر دیتا۔کمار سوامی نے کہا کہ اس میں چھپانے لائق کیا ہے؟میرے چالیس ایم ایل اے ہیں۔انتخابات میں ان کا بہت خرچ ہوا ہے۔وہ سب مجھ سے ایک ایک کروڑ روپیہ مانگ رہے ہیں۔ میںانہیں کہاں سے دوں ؟ جس کے پاس ہوگا وہی دے گا۔ پاٹل کے پاس ہیں لیکن اس نے دیئے نہیں۔وہ صرف دس کروڑ دے رہا تھا۔میں نے اسے ایم ایل اے نہیں بنایا تو اس نے ناامید ہوکر ہماری' ریکارڈ‘ کی ہوئی بات چیت کو میڈیا میں اچھال دیا۔
کیا بات ہے؟کمال کیا‘ کمار سوامی آپ نے! سب سے پہلے تو میں آپ کی ہمت کی داد دوں گا۔ آپ نے جھوٹ نہیں بولا۔اِدھر اُدھر کی بہانے بازی نہیں کی‘ عام لیڈروں کی طرح سارے معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش نہیں کی ۔دوسری خوشی کی بات یہ ہے کہ آپ نے ہندوستانی سیاست کی پول کھول دی۔روز کروڑوںاربوں روپیہ کی ہیرا پھیری کئے بنا سیاست کرنا ناممکن ہے ۔یہ سب جانتے ہیں لیکن عام عوام کو معلوم نہیں کہ یہ ہیرا پھیری ہوتی کیسے ہے۔ آپ نے سب کو بتا دیا ۔
لیکن کمار !آپ نے جو راز کھولا ہے‘وہ ایک پہاڑ کے سامنے کنکر کے برابر بھی نہیں ہے ۔سیاست میں پیسوں کی ضرورت اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کے مترادف بن گئے ہیں۔سیاست میں پیسے بنائو اور پیسوں سے سیاست بنائو۔ہمارے سیاستدان سیٹھوں کی غلامی کرتے ہیں۔اور سیٹھ پھر سیاستدانوں کی غلامی کرتے ہیںدونوں بڑے شاطر ہیں۔دونوں ایک دوسرے کو ٹھگتے ہیں۔اس میں سب سے زیادہ نقصان کس کا ہوتا ہے؟ عام
عوام کا ہوتا ہے۔کیونکہ لیڈر اور نوکر شاہ جب پالیسیاں بناتے ہیں تو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ خیال ان سیٹھوں کا رکھتے ہیں‘جن کے پیسوں سے انہوں نے چناو لڑا ہے۔ووٹ دینے والے عوام سے سامنا تو پانچ سال بعد ہوگا۔جب ہوگا‘تب دیکھا جائے گا۔ابھی تو مال اکٹھا کرنا ہے۔کمار سوامی ابھی اپوزیشن میں ہیں‘اس لئے انہیں مانگنا پڑ رہا ہے۔اگر وہ حکومت میں ہوتے تو چالیس کروڑ کیا‘چار سو کروڑ بھی معمولی بات ہوتی۔پیسے نے ہمارے لیڈروں کو بونا کر دیا ہے ۔وہ سیاست دان نہیں دلال بن گئے ہیں ۔
سائیں بابا:اندھے اعتماد کے فائدے
شنکر آچاریہ سوامی سوروپ آنند کی اس رائے کوغور کیا ہوا ہی مانا جائے گا کہ شرڑی والے سائیں بابا کو بھگوان مان کر ان کی عبادت کرناغلط ہے۔ان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ ہندوؤں کی دینی کتابوں میں سائیں بابا کا کہیں نام و نشان تک نہیں ہے لیکن ان کا یہ کہنا قابل مباحثہ ہے کہ سائیں بابا مسلمان تھے‘اس لئے ہندوئوں کو ان کی عبادت نہیں کرنی چاہئے۔وہ مسلمان تھے‘یا نہیں‘اس پرپُریقین رائے کسی کی نہیں ہے۔ ہاں‘ وہ مہاراشٹر کے شرڑی نام والی جگہ پہ رہتے تھے‘ایک ٹوٹی مسجد میں ۔وہ کہا کرتے تھے‘'اللہ سب کا مالک ہے‘ ان کی داڑھی اور پہناوا بھی صوفی سنتوں کی طرح تھا لیکن اگر وہ حقیقت میں مسلمان تھے تو ان کی عبادت نہ تو مسلمانوں کو جائز ہے اور نہ ہی ہندوئوں کو۔ اسلام میں تو کہا گیا ہے کہ اللہ تو ایک ہی ہے۔کوئی دوسرا نہیں ۔اگر کوئی دوسرا خود کو اللہ کہے تو یہ شیطانیت ہے۔
جہاں تک ہندوئوں کا سوال ہے‘شرڑی والے سائیں کے لاکھوں عقیدت مند ہیں۔وہ بھارت اور بھارت سے باہر بھی ہیں۔ انہیں شنکرآچاریہ کے بیان سے کافی چوٹ پہنچی ہے اور وہ شنکرآچاریہ کے مریدوں پر ٹوٹ پڑے ہیں۔اسے ہی کہتی ہیں‘ اندھا اعتماد۔اگر شنکرآچاریہ نے ویسا بیان دے دیا تو دے دیا‘اس پر اُبلے بنا بھی آپ سائیں بابا کی جانب اپنی عقیدت بنائے رکھ سکتے ہیںلیکن ہمارے ملک میں مردم پرستی چوٹی کے پائدان پر ہے‘مذہبی اور سیاسی‘ دونوں شعبوں میں! حالانکہ بھارتی دینی کتابوں‘ خاص کرویدوں اور درشن کتابوں میں کہیںبھی مردم پرستی اور بے جان کی عبادت کی کوئی منظوری نہیں ہے۔مردم پرستی دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ہے لیکن بھارت دنیا کا واحد ملک ہے ‘جہاں بت پرستی ہوتی ہے۔یہاں کروڑوں لوگ پتھر کو بھگوان (خدا) مان کر عبادت کرتے ہیں۔ایسے ملک میں سائیں بابا جیسے لوگوں کو بھگوان مان لیا گیا تو حیرانی کیا ہے؟ اسی اندھے اعتماد کے سبب سائیں کے عقیدت مند ہر سال کروڑوں روپیہ سائیں نذرانہ میں جمع کرواتے ہیں۔دوسرے فرقہ کے فقیروں کا اس سے حاسد ہونا فطری عمل ہے۔ آج کل پوجا پاٹھ اپنے آپ میں بہت بڑا کمائی کا ذریعہ بن گیا ہے ۔اس لئے بڑے بڑے سادھو‘ سنتوں اور پیروں فقیروں میں مقابلہ ہوتا رہتا ہے۔اس دھندے میں اندھا یقین ہی سب سے بڑا اعتمادہوتا ہے۔
یہ کورا اندھا یقین ہے۔ اس میں ذرا بھی شک نہیں ہے‘ سائنسدان مانتے ہیں کہ گہری عقیدت یا اندھااعتماد کئی بیماریوں کو ٹھیک کر دیتا ہے‘ کئی اندھیروں میں سے راستے نکال دیتا ہے‘مشکل وقت میںطاقت عطا کرتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اندھا یقین انسان اور معاشرے کو کاہل بنا دیتا ہے‘ اس کے عقل کوختم کر دیتا ہے اور آدمی کو اپنے کام کے بجائے محتاج ہوکر کسی کی مہربانی کے سہارے جینے پر مجبور کر دیتا ہے ۔
(ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک بھارت کی کونسل برائے خارجہ پالیسی کے چیئرمین ہیں)