"DVP" (space) message & send to 7575

اوباما کے دعوت نامے کا مطلب!

صدر اوباما نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو رسماً (فارملٹی کے طور پر) امریکہ کے دورے کا دعوت نامہ بھجوایا ہے۔ امریکی صدر اکثر بیرونی حکمرانوں کو اس وقت سرکاری دورے کا دعوت نامہ نہیں بھیجتے جب وہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں حصہ لینے کیلئے نیو یارک جاتے ہیںلیکن اوباما نے بھارت کیلئے یہ تردید پہلے بھی کی ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔پہلے ستمبر 2008ء میں انہوں نے وزیر اعظم من موہن سنگھ کا بھی واشنگٹن میں استقبال کیا تھا ۔اس کا مطلب صاف ہے کہ امریکی نظر میں بھارت کا مقام بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
اوباما نے جو خط مودی کو لکھا ہے‘اس میں انہوں نے بھارت اور امریکہ کی باہمی پارٹنر شپ کو اکیسویں صدی کی اصلاح کرنے والا کہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکہ بھارت کو اکیسویں صدی کی بڑی قوت کی شکل میں دیکھتا ہے۔ اس کے ساتھ وہ برابری کی سطح پر تعلق بنانا چاہتا ہے۔بھارت اور امریکہ کا رشتہ‘ دادا اور پچھ لگو (پچھلے خاوند کی اولاد) کا نہیں ہو سکتا۔اس برابری کی بنیاد پر اوباما نے کئی مقام گنائے ہیں ‘جن میں دونوں ملک کافی آگے بڑھ سکتے ہیں۔مودی نے اوباما کے خط لانے والے نائب وزیر خارجہ ولیم برنس سے کہا ہے کہ وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے امریکی دورے کے ٹھوس نتیجے نکلیں۔
اگر دونوں طرف سے ایک جیسا جوش ہو تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ دنیا کے دو بڑے طاقتور جمہوری ملکوں کے باہمی تعلقات انتہائی گہرے نہ ہو جائیں۔ امریکہ کئی بار کہہ چکا ہے کہ بھارت اس کا فطری حلیف ہے۔اوباما کا وہ ابتدائی جوش ‘جو انہوں نے چین کو ایشیا کا مرکز کہہ کر ظاہر کیا تھا‘ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔اوباما کو اس بات کا اندازہ ہے کہ اگر ایشیا میں جمہوریت اور امن کو بڑھانا ہے تو بھارت سے اچھا کوئی آپشن نہیں ہے۔اسے بھارت کے ساتھ اقتصادی‘ تکنیکی‘ فوجی اور معاشرتی تعلقات تو گہرے کرنے ہی ہیں‘یہ بھی سوچنا ہے کہ مغربی ایشیا (مشرق وسطیٰ)اور افغانستان کے غیر یقینی مستقبل میں بھارت کا کیا رول ہو۔خود امریکی وزیر خارجہ جان کیری اس وقت کابل میں ہیں۔وہ ایران سے بھی بہتر تعلقات کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں جو نئی 'اسلامی ریاست‘ اٹھ کھڑی ہو ئی ہے ۔اس کے خطرات سے بھی امریکہ پریشان ہے۔ایسے میں اوباما اور مودی کا ملن بھارت اور امریکہ کے مفاد میں ہم آہنگی کے ساتھ معاشرتی تعاون کے نئے راستے بھی کھول سکتا ہے۔ 
............
نریندر مودی سرکار کا پہلا بجٹ آ گیا ۔ہر بجٹ میں ہر آدمی سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس میں میرے لئے کیا آ رہا ہے اور میرے پاس سے کیا جا رہا ہے ؟کیا آ رہا ہے اور کیا جا رہا ہے‘بجٹ کی اس پہیلی بوجھنے والے لوگ بھارت میں کتنے ہونگے؟مشکل سے دس پندرہ کروڑ لوگ ! ان دس پندرہ کروڑ لوگوں کے لئے یہ بجٹ حقیقت میں من موہک ہے۔اسے ہم من موہک اس لئے بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ من موہن بجٹوں کا ہی پھیلاؤ ہے۔اس میں کوئی کرشماتی جلوہ نہیں۔ 
جو بجٹ نے کیا ہے‘وہ یہ کہ لگ بھگ تین چار کروڑ ناداروں کے ہاتھ میں کچھ زیادہ نوٹ رکھ دیے ہیں تاکہ وہ مہنگائی کی مار برداشت کرسکیں۔ انکم ٹیکس میں چھوٹ کی حد بڑھا کر پچاس ہزار‘ ملک کے متوسط طبقہ اور جوانوں کو روزگار کی نوید سنا کر وزیر خزانہ نے خوش کردیا ہے ۔نوجوانوں کے لئے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کیلئے دس ہزار کروڑ (ایک کھرب) کا ذخیرہ (فنڈ) بھی بنایا گیا ہے۔ اس طرح پنشنوں وغیرہ کو بڑھا کر ایک ہزار روپیہ فی مہینہ کر دیا گیاہے ۔اس سے 28 لاکھ پینشن ہولڈروں کو سیدھا فائدہ ملے گا ۔
حفاظتی انتظامات‘بیمہ اور تعمیر مکان میں بیرونی سرمایہ کاروں کو49فیصدتک کی چھوٹ دینے سے اقتصادیات میں کافی اچھال آنے کا امکان ہے۔ حفاظتی انتظامات بھارتی ہاتھوں میں ہونے سے نہ صرف روزگار بڑھے گا بلکہ فوجی ساز و سامان کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا۔ فوجی سازو سامان کی خریداری میں ہونے والی رشوت خوری پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔ 
اس بجٹ کو تصویر کے کسی ایک کھانچے (سانچے) میں فٹ کرناذرا مشکل ہے۔یہ دولت مندوں کا بجٹ ہے بھی اور نہیں بھی۔ پچھلی سرکار کی طرح'تجارتیوں (صنعتکار اور کاروباری طبقے) کو ضروری رعایات دی گئی ہیں۔ہمارے کمیونسٹ بھائیوں کا کہنا ہے کہ کاروباری طبقہ کو پانچ لاکھ کروڑ سے زیادہ کی کر (ٹیکس) چھوٹ ملتی ہے لیکن کیا وہ یہ بتائیں گے کہ لاکھوں کروڑ کا خرچ جو بھارت سرکار کرتی ہے‘وہ کہاں سے آتا ہے؟وہ کسانوں ‘مزدوروں اور دکانداروں سے تو نہیں آتا۔ کسان لوگوں کا مال سڑنے سے بچے اور منڈیوں تک رسد آسانی سے ہو سکے اور اس سے سارے ملک میں بنا رکاوٹ سہولت ملے‘ ان مقاصد کو پورا کرنے کے لیے بجٹ میں پانچ کھرب روپے رکھے گئے ہیں۔ اگرچہ یہ رقم ناکافی ہے لیکن شروعات اچھی ہیں۔ شیڈول کاسٹوں (نچلی ذاتوں) کی ترقی کیلئے کافی رقم یعنی 80ہزار کروڑ‘ مختص کی گئی ہے۔ اس دولت کا استعمال اگر درست طریقے سے ہوا تو سماج کے اس محروم طبقے کو آگے بڑھنے کا اچھا موقع ملے گا۔ مودی سرکار نے اپنے بجٹ میں ٹکڑوں ٹکڑوں میں کئی طبقوں کے فوائد کو انجام دیا ہے۔ کشمیر کی بکھری پنڈت جماعت کیلئے پچاس کروڑ‘ بنارس کے ہاتھ سے کام کرنے والے مسلمانوں کے لئے پچاس کروڑ‘ مدراس کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنے کیلئے سو کروڑ‘ زیارتیوں (یاتریوں یا زائرین) کی سفری سہولیات کیلئے پانچ ارب گنگا و دیگر مذہبی ندیوں (دریائوں) کی صفائی کیلئے دو ہزار کروڑ‘مشرق وشمال میں ریلوے کیلئے ایک ہزار کروڑ‘دیہات خوشحالی کیلئے اسی ہزار ترسٹھ کروڑ روپیہ کا اعلان کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ان پیسوں کا استعمال لوگوں کو تھوک بند فائدہ پہنچانے کے لئے کیا جائے گا۔اگر یہ بجٹ مٹھی بھر آدمیوں‘ دولتمندوں کے فائدے کے لئے ہوتا تو مہاتما گاندھی دیہات روزگار سکیم بند کر دی جاتی ۔بے روزگار دیہاتی مزدوروں کو سال میں ایک سو دن کام دینے کی اس تجویز کو بیکار بڑھانے والی تجویز بھی کہا گیا ہے لیکن مودی سرکار نے اسے ختم کرنے کے بجائے اس کو 990 کروڑ روپیہ اضافی دے کر بڑھا دیا ہے۔ 
وزیر خزانہ نے کئی چیزوں کے محصول پر چھوٹ دی ہے اور کئی پر کر (ٹیکس) بڑھا دیا ہے۔ اصلی بات تو یہ ہے کہ (کانگرسی وزیر خزانہ) چدم برم کے بجٹ کی طرح اس بجٹ میں بھی سرکاری خزانہ کے نقصان کو مکمل پیداوار کا4.9 فیصد رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ دفاعی اخراجات میں ساڑھے بارہ فیصد اضافہ کیا گیا ہے‘ جو کہ تعلیم‘صحت وغیرہ کے خرچ سے دوگنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وزیر خزانہ کالے دھن پر چپ کیوں تھے؟ جو سفید (جائز) دولت کے حجم سے بھی بڑا ہے۔ بلیک منی کی اقتصادی حالت!اگر اس یکساں فرق پر قابو پایا جا سکے اور بیرون ممالک میں جمع کالا دھن واپس لایا جا سکے تو سرکاری خزانہ کا نقصان‘ صفر کیا جا سکتا ہے۔ ''کالا دھن مخالف تحریک‘‘ نے مودی کی ہوا بنانے میں اہم کردار ادا کیا‘ کیا اسے وزیر خزانہ بھول گئے؟یہ ٹھیک ہے کہ ملک میں بلٹ ٹرینوں‘ایک سو نئے سمارٹ شہروں‘وائی فائی‘انٹر نیٹ‘آئی آئی ٹی اور میڈیکل انسٹی ٹیوٹوں کی قطاریں لگ جائیں گی لیکن ان سب قطاروں میں سب سے پیچھے کھڑے عام آدمی کا کیا ہوگا؟ یہ آدمی وہی ہے‘جس کا روزانہ خرچ بتیس روپیہ اور اٹھائیس روپیہ بتایا جاتا ہے اور جس کی تازہ تعداد چھتیس کروڑ مانی جا رہی ہے۔یہ اندازہ بناوٹی ہے‘جعلی ہے‘ کاغذی ہے۔بھارت میں غریبوں کی تعداد لگ بھگ ایک ارب ہے۔یہ ایسے لوگ ہیں‘جنہیں روٹی‘ کپڑا‘ مکان‘ تعلیم ‘طبی سہولیات اور دل بہلانے (تفریح) کے اچھے ذرائع دستیاب نہیں ہیں۔میں پوچھتا ہوں‘ کیاکسی بھی بجٹ میں ان لوگوں کا درست خیال کیا جاتا ہے؟ انہیں تو ہماری سہولیات کی تھالی سے گری جھوٹن چاٹنے کیلئے مجبور ہونا پڑتا ہے ۔نہ یہ ہمارے بجٹ کو سمجھتے ہیں اور نہ ہمارا بجٹ ان کو سمجھتا ہے۔ چاہے وہ بجٹ ہمارے لئے کتنا ہی من موہک ہو! 
(ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک بھارت کی کونسل برائے خارجہ پالیسی کے چیئرمین ہیں) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں