"DVP" (space) message & send to 7575

حیدرآباد کی بیٹی ثانیہ مرزا

ابھی مہاراشٹر ایوان کے ملازم ارشد زبیر کا معاملہ پوری طرح ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ ثانیہ مرزا کا معاملہ گرم ہو گیا۔ ثانیہ مرزاکو تلنگانہ صوبہ کی سرکارنے اپنا برانڈ ایمبیسڈر(سفیر) مقرر کرنے کا اعلان کیا اوروزیر اعلیٰ چندر شیکھر رائو نے انہیں ایک کروڑ روپیہ کا چیک دے دیا۔اس پر شور مچ گیا۔ ثانیہ مرزا سے پہلے امیتابھ بچن کو بھی گجرات سرکار اپنے ایڈورٹائیزر کے طور پر استعما ل کر چکی ہے ۔ ثانیہ مرزاکو اپنا سفیر مقرر کرکے تلنگانہ سرکار نے کوئی عجوبہ کام نہیں کیا ہے لیکن بھاجپا کے لیڈر کے لکشمن نے اس پر یہ کہہ کر اعتراض اٹھایا ہے کہ 'اس پاکستانی بہو کو یہ عزت کیوں عطا کی گئی؟ لکشمن کے اس بیان کی وجہ سے ہر طرف سے لعن طعن ہو رہی ہے ۔خود بی جے پی نے اپنے آپ کو اس بیان سے الگ کر لیا ہے ۔مانا یہ جا رہا ہے کہ رائو نے مسلمانوں کے ووٹ پٹانے کیلئے یہ دائو مارا ہے۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف ہے‘اسی لئے ایک صوبائی لیڈر کے منہ سے اچانک یہ سچ نکل گیا۔
یہ سب باتیں غلط اور بے بنیاد ہیں۔ ثانیہ مرزا ہندو ہے یا مسلمان‘یہ سوال آج تک کسی نے کبھی نہیں اٹھایا۔ حیدرآباد کی اس شاندار بٹیا پر پورے بھارت کو نا زہے ۔جہاں تک اس کے پاکستانی بہو ہونے کا سوال ہے‘یہ سچ ہے۔کیا اس سے بڑا سچ یہ نہیں ہے کہ اس کے باوجود اس پر سب کو ناز ہے یعنی بھارت اور پاکستان کے رشتے جیسے بھی ہیں‘ان سے کہیں اونچا مقام ثانیہ مرزاکا لوگوں کے دلوں میں ہے ۔بی جے پی لیڈر نے پاکستان کا سوال آخر کیوں اٹھایا؟یہ سوال اس نے پاک بھارت تعلقات کے بارے میں تو نہیں اٹھایا۔ہو سکتا ہے ایسا سوال اٹھائے جانے کا کچھ تعلق سیماندھر اور تلنگانہ سے ہو۔ اس سال آندھرا پردیش صوبے کو توڑ کر دو صوبے بنائے گئے ہیں‘ سیماندھر اور تلنگانہ ۔تلنگانہ سرکار غریب طلباء کو وظیفے دے رہی ہے لیکن یہ انہی کو دے رہی ہے‘جن کے خاندان تلنگانہ میں1956 ء سے رہ رہے ہیں‘ لیکن ثانیہ مرزا کو اس نے ایک کروڑ روپے دے دیے‘جو کہ 1986ء میں ممبئی میں پیدا ہوئی تھیں ۔لکشمن نے شاید اسی پر اعتراض کیا۔اسی نے پوچھا کہ ثانیہ مرزا پر بھی وہ قانون لاگو کیوں نہیں ہوتا‘جودیگر غریب خاندانوں پر لاگو کیا جا رہا ہے ؟اس نے یہ بھی پوچھا کہ سیماندھر کے غریب بچوں کو تو آپ وظیفہ نہیں دے رہے لیکن ایک پاکستانی بہو کو ایک کروڑ روپے کیوں دے دیئے گئے ہیں۔ لکشمن نے یہ دلیل پیش کرنے میں زیادتی کر دی۔ اس کا مقصد پاکستان پر حملہ کرنا نہیں تھا۔ اس کا نشانہ تلنگانہ کا وزیر اعلیٰ تھا۔ اس طرح یہ معاملہ نہ تو ہندو مسلمان کا ہے اور نہ ہی پاک بھارت کا۔ یہ ہے تلنگانہ اور سیماندھر کا! ثانیہ مرزا نے واضح کر دیا ہے کہ وہ حیدرآبادی ہیں‘ بھارتی ہیں اور ان کی بیما روالدہ کو ممبئی لے جایا گیا تھا۔اسی لئے اس کا جنم ممبئی میں ہوا تھا ۔وہ حیدرآباد(تلنگانہ) کی بیٹی ہے اور رہے گی ۔پورا ملک اس کے ساتھ ہے۔
............
جج صاحب مارکنڈے کاٹجو کے پردہ فاش کرنے سے کس کی عزت پر آنچ آ رہی ہے ؟کیا کانگریس پارٹی کی؟کیا سرکار کی؟کیا موجودہ چیف جسٹس کی‘جنہیں ایک بد عنوان جج کو سپریم کورٹ میںتعینات کرنے کی سفارش کرنی پڑی تھی؟سچائی تو یہ ہے کہ ہماری سیاست کے حمام میں سب ننگے پکڑے جاتے ہیں ۔کوئی بھی جج‘کوئی بھی سرکاراور کوئی بھی پارٹی آج اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کرکہہ سکے کہ وہ جو بھی فیصلہ کرتی ہے‘جوبھی تقرری کرتی ہے‘وہ سدا خاصیت اور گناہ کو جانچ کر کرتی ہے اور اس ملک کے مفادات سب سے اوّل ہوتے ہیں ۔
اس جج کو تعینات کر دیا گیا‘کیونکہ اس تامل جج کی پیروی درمُک پارٹی نے جم کر کی تھی۔اسی تامل پارٹی کے سہارے ہی کانگریس کی اتحادی سرکار چل رہی تھی۔اگر درمک کی گزارش کو من موہن سرکار نہیں مانتی توشاید وہ خود بھی گر جاتی۔اس وجہ سے اس نے اپنی جان بچانے کیلئے یہ بہتر سمجھا کہ اپنی ایک انگلی کٹا لے۔اسے پختہ یقین تھا کہ اس کی یہ کٹی انگلی کوئی دیکھ نہیں پائے گا۔سچ مچ پچھلے دس سال میں اسے کوئی نہیں دیکھ پایا۔کاٹجو نے مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے رہتے ہوئے اور بعد میں بھی اسے سرعام نہیں کیا۔چیف جسٹس رمیش چندر لاہوٹی اسے سرعام کیوں کرتے؟اب اسے منظرِ عام پہ لانے کیلئے کون سی مجبوری کاٹجو کو آ پڑی تھی۔یہ درمک کے کروناندھی پوچھ رہے ہیں ؟وہ دوسری طرح سے پوچھ رہے ہیں کہ کہیں کاٹجورکن پریس کی صدارت کی نوکری بچانے کے لیے تو یہ نہیں کر رہے ہیں؟کانگریس سرکار کا پول کھلنے پر مودی سرکار خوش کیوں نہیں ہوگی ؟یہ سچ ہو سکتا ہے لیکن دو ٹوک باتیں کہنے والے کاٹجو کو یہ کریڈٹ تو دیا ہی جانا چاہیے کہ انہوں نے عدالتوں میں ہونے و الی بد عنوانی کو اکھاڑ کر رکھ دیا ہے‘وہ بھی مضبوط مثال دے کر!جج لوہاٹی کی ایمانداری پر کوئی بھی شک نہیں کر سکتا‘ لیکن نوکری کی مجبوری جیسی کاٹجو کی رہی‘ ویسی ہی لوہاٹی کی بھی رہی ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کوئی چیف جسٹس‘صدر ‘کوئی وزیر اعظم اور کوئی وزیر کیا یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس نے اپنے آقائوں یا تقرری کرنے والوں کی غیر واجب بات کو سِرے سے مسترد کیا ہے؟ایسی ہمت کرنے والا کسی بھی عہدے کو حاصل کرنے کی کبھی کوئی کوشش کیوں کرے گا؟ ہر عہدہ آخرکا ر ایک نوکری ہی ہوتا ہے ۔میں نے جن عہدوں کے نام اوپر گنوائے ہیں‘ یہ سب حقیقت میں نوکریاں ہی ہیں ۔یہ بنا خوشامد کے ہر کسی کو نہیں ملتیں۔ اگر ان نوکریوں پر بھی تقرریاں صا ف کرداریا گناہ کی بنیاد پر ہوں گی تو سارے فیصلے بھی اس خصلت اور گناہ کی بنیاد پر ہی ہوں گے‘ وہاں کسی وزیر اعظم یا بادشاہ کا دبائو بھی غیر مروج ہو گا۔ 
............
وزیر خارجہ سشما سوراج کے نیپال کے دورے نے وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ کو کامیاب بنانے کا راستہ تو صاف کر ہی دیا ہے لیکن اس نے سبھی پڑوسی ملکوں کو ایک اہم پیغام بھی دے دیا۔ انہوںنے نیپال میں کہا کہ بھارت کو آپ کوئی بڑا دادا(بگ برادر) نہ سمجھیں۔اسے آپ بڑا بھائی مانیں۔اسے آپ بھائی صاحب نہیں‘بھائی جان سمجھیں۔یہ بات میں نے پچھلے مہینے پاکستان کے ایک اجتماع میں کہی تھی‘ جسے سامعین نے خوب پسند کیا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ سشما جی نے اس خاص منتر کو ذرا اوربہتر طریقے سے دہرایا۔ہمارے سبھی پڑوسی ملکوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔یہ سب مِل ملاکر بھی رقبے میں بھارت کے برابر نہیں۔ اسی لیے یہ سبھی ممالک بھارت کے خوف میں جکڑے رہتے ہیں۔وہ بھارت سے پیار کرتے ہیں‘اس سے مدد بھی چاہتے ہیںلیکن ان کے دل میں حسد اور خوف بھی رہتا ہے۔ سشما سوراج کا بیان اسی درد کی دوا ہے۔ سبھی جنوب ایشیائی ملکوں کا نظریہ ایک جیسا ہے ۔سبھی جانتے ہیں کہ ہماری تہذیب میں بڑا بھائی ہمیشہ ایثار‘ قربانی اور صبر و تحمل کی علامت ہوتا ہے۔
پہلے وہ سب کو کھلاتا ہے ‘پھر خود کھاتا ہے ۔اس سوچ سے نیپال کے لوگوں میں جذبات کی لہر دوڑ پڑی ہے۔ 
اپنے مُول منتر کو عملی جامہ پہناتے ہوئے سشما سوارج نے نیپال کے حکمرانوں اور اپوزیشن کے سبھی لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے اپنے اور غیر کا کوئی فرق نہیں رکھا۔ اسی طرح انہوں نے نیپال کیلئے آئین کو مناسب بتایا جس میں سبھی طبقوں اور نظریات کی نمائندگی ہو لیکن یہ بھی کہہ دیا کہ وہ کیسا ہو‘ یہ طے کرنا نیپالیوں کا کام ہے۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے کہہ دیا کہ نیپال کے اندرونی معاملات میں بھارت کی کوئی دخل اندازی نہیں ہوگی۔ نیپالی یہی چاہتے ہیں۔
سشما جی نے 23 سال سوئے پڑے ''بھارت نیپال متحدہ کمیشن‘‘ کو پھر سے زندہ کیا ۔دونوں ملکوں کے بیچ اقتصادی‘ تہذیبی‘ تعلیمی‘ تکنیکی اور سیاسی مدد کے نئے راستے کھولے ۔انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے اگلے ہفتے ہونے والے نیپال کے دورے کیلئے موزوں ماحول تیا ر کر دیا۔ سابق وزیراعظم اندر کمار گجرال کے 1997ء میں دورے کے بعداب کوئی بھارتی وزیر اعظم پہلی بار سرکاری دورے پر کٹھمنڈو جا رہے ہیں۔ پچھلی سرکار اپنے دس سالوں کے وقت میں نیپال کی سیاست کو ٹھیک سے سمجھ ہی نہیں پائی۔نہ تو اس کے وزیر خارجہ اور نہ ہی اس کے وزیر اعظم ایسا کردار نبھا پائے‘جس سے نیپال کے تمام طبقوں اور سیاسی رہنمائوں کو اطمینان ہو سکے۔جو نیپالی لیڈر بھارت کے روایتی دوست ہیں اور جو ہمارے مخالف رہے ہیں ‘وہ اب سب یہ محسوس کرینگے کہ بھارت کی یہ نئی سرکار نیپال کے مفادات کو اہمیت اور ترجیح دے گی اور انہیں کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے تمام طبقوں کی یکساں مدد کرے گی۔ 
(ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک بھارت کی کونسل برائے خارجہ پالیسی کے چیئرمین ہیں) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں