"DVP" (space) message & send to 7575

اِس پار یا اُس پار

جو کام مرکزی سرکار کو کرنا چاہیے‘اسے ہماری سپریم کورٹ کر رہی ہے ۔اس نے مرکزی سرکار کو سوا مہینے کی مہلت دی اور اس سے کہا ہے کہ اس مدت میںیا تو دلی کی صوبائی سرکارد بنائیے یا اسمبلی برخاست کیجیے۔دلی کے عوام کو نئی اسمبلی چننے دیجئے تاکہ نئی سرکار بن سکے۔ دلی کے تینوں اہم پارٹیاں بی جے پی‘ عام آدمی پارٹی (عاپ) اور کانگریس کو یہ یقین نہیں ہے کہ اگر نئے انتخابات ہوئے تو انہیں واضح اکثریت مل جائے گی۔ کانگریس تو ابھی صدمے کی حالت میں ہے۔ 'عاپ‘ کابرا حشر لوک سبھا چنائو میں جم کر ہوا اور بھاجپا کا جو رنگ لوک سبھا چنائو میں چمچما رہا تھا اس کی چمک بھی کم پڑتی جارہی ہے ۔اسی لئے سبھی ایم ایل ایز تہ دل سے چاہتے ہیں کہ جیسا چل رہا ہے‘ چلتا رہے۔ سب کو تنخواہ اور بھتے ملتے رہیں۔سب کا رتبہ قائم رہے اور جہاں تک سرکار کا سوال ہے‘نائب گورنر نجیب جنگ اسے کسی بھی وزیر اعلیٰ سے بہتر چلا رہے ہیں۔
عاپ پارٹی مبارک کے لائق ہے کہ اس نے اسمبلی برخاست کرنے کے لیے درخواست دائر کی۔ اس نے اتنا دم تو دکھایا۔ اس کے پاس کھونے کیلئے کیا ہے؟ اگر اس کی نشستیں اٹھائیس سے کم ہوکر دس رہ جائیں تو بھی وہ فائدے میں ہی رہے گی۔ پارلیمانی چنائو میں ڈاکٹر آنند کمار ‘راج موہن گاندھی اور یوگندر یادو جیسے عمدہ درجہ کے امیدوار بھی عام آدمی پارٹی کے ٹکٹ پر جیت نہیں سکے اور پنجاب کو چھوڑ کر پورے ملک میں زیرو کو چھوتی اس پارٹی سے یہی امید کی جاتی ہے کہ وہ خطرہ مول لے۔ 'عاپ‘ کی اس درخواست نے باقی دونوں پارٹیوں کے پسینے چھڑا دیے ہیں۔کیا پتا اگلے دو تین مہینوں میں سیاست ایسا پلٹا کھا جائے کہ 'عاپ‘ کوچالیس سے بھی زیادہ نشستیں مل جائیں۔جو بھی ہو‘ انتخابات تو ہونے ہی چاہئیں۔ تینوں پارٹیوں کے آپس میں جیسے تعلقات رہے ہیں‘اگر ان میں سے کوئی دو مل کر سرکار بنا بھی لیں تو وہ کتنے دن چلے گی ؟
پچھلے لگ بھگ چھ مہینوں سے دلی کا اقتداربیچ میں لٹکا ہوا ہے۔لیڈر بھی کیانکماپن دکھا رہے ہیں؟کیا ایسا نہیں کہ ان کے بغیر بھی اقتدار مزے سے چل سکتا ہے؟ یہ سوچ کسی بھی جمہوریت کے لیے جان لیوا ہے۔ جو بات دلی پر لاگو ہورہی ہے ‘وہ تمام ملک پر لاگو کیوں نہیں ہو سکتی ؟سپریم کورٹ نے فیصلہ تو اچھا دیا ہے لیکن اس نے اس معاملے پر زور دینے کے بجائے ایم ایل ایز کی تنخواہوں اور بھتوں پر خرچ ہونے والے عوام کے پیسے پر زور دیا ہے ۔اگر وہ تنخواہ اور بھتہ نہ لیں تو کیا ان کا نکما پن درست مان لیا جائے گا؟جمہوریت کو درپیش اس خطرے پر انگلی رکھنے یعنی نشاندہی کرنے کے لیے چاہے ایک کمزور دلیل کا استعمال کیا گیا ہو لیکن اس فیصلے سے گاڑی یا تو اُس پار ہوگی یا اِس پار! 
جیبیں گرم کرنے کی لڑائی
بیمہ بل پر خوب تماشہ ہو رہا ہے۔اب بی جے پی سرکار بیمے کے دھندے میںبیرونی سرمایہ کاروں کو 49 فیصد تک بڑھانا چاہتی ہے لیکن کانگریس اور کئی دوسری پارٹیاں اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔اگر وہ اپنی بات پر اڑی رہیں تو یہ بل بیچ میں ہی لٹک جائے گا کیونکہ راجیہ سبھا میں اقتدار ی اتحاد کی اکثریت نہیں ہے۔یہ بل تبھی پاس ہو سکتا ہے‘ جب دونوں( لوک سبھا اور راجیہ سبھا) کی متحدہ بیٹھک بلوائی جائے اور ضروری حمایت حاصل کی جائے۔ اس تماشے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ بل بنیادی صورت میں کانگریس سرکار لائی تھی لیکن 2008ء میں لایا گیا یہ بل اس لئے پروان نہ چڑھا کہ بی جے پی نے اس کی مخالفت کی تھی۔ اس میں لگ بھگ 100ترامیم کے مشورے دیے گئے تھے ۔جب واجپائی سرکار کے وزیر خارجہ یشونت سنہا نے بیمہ فیلڈ میں49فیصد بیرونی سرمایہ کاری کی بات کی تھی تو کانگریس نے اس وقت بھی رکاوٹ ڈال دی تھی۔
اس سے ہم کیا مطلب نکالیں؟اس کا ایک موٹا موٹا مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ بیمے کے بزنس میں اگر 49فیصد بیرونی سرمایہ کاری ہو گئی تو اپوزیشن کو شک گزرے گا کہ برسراقتدار پارٹی مالا مال ہو جائے گی‘ اس کی چاندی کٹے گی‘ رشوت اور کمیشن کا بازار گرم ہوگا‘ جبکہ اپوزیشن والے خالی جھنجھنا ہلاتے رہیں گے۔جو بھی پارٹی اپوزیشن میں ہوتی ہے‘وہ آخر اس کی مخالفت کیوں کرتی ہے؟اس سوال کا جواب آج کی دونوں بڑی پارٹیوں کے پاس نہیں ہے۔ یہ کیفیت ہماری سیاست کے دیوالیہ پن کا ٹھوس ثبوت ہے ۔
بیمے کے بزنس میں کمائی بے شمار اور لگاتار ہے۔بھارت میں لگ بھگ چھ کروڑ لوگ بیمہ کرواتے ہیں۔بیرونی کمپنیاں لوگوں کو لالچ میں پھنسا کر ٹھگنا خوب اچھی طرح جانتی ہیں‘ وہ دونوں 
ہاتھوں سے پیسہ بٹور کے اپنے ملک لے جائیں گی۔ پتا نہیں‘ اس بل میں کوئی رکاوٹ ہے یا نہیں؟ یہ بھی ٹھیک سے پتا نہیں کہ اس چھوٹ سے بھارت کو کتنا فائدہ ہوگا؟ کئی ملکوں نے تو بیرونی ملکیت کو سو فیصد چھوٹ دے رکھی ہے ‘کئی نے پچاس‘ ستر‘ اسی فیصد تک چھوٹ دے رکھی ہے ۔بھارت تو ابھی صرف 49 فیصد کی چھوٹ دے رہا ہے۔ اس چھوٹ سے اربوں روپے کی بیرونی دولت بھارت میں آئے گی۔ بھارت کو دولت کی ضرورت ضرور ہے لیکن یہ بیرونی دولت کس کا بھلا کر رہی ہے ؟صرف پانچ دس کروڑ لوگوں کا اور ان کے اپنے ملکی لوگوں کا!ملک کے سو کروڑ سے زیادہ لوگوں کی بھی کسی کو پروا ہے یا نہیں؟کیا وہ ترقی کی صرف جوٹھن چاٹنے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں؟ہمارے لیڈروں کی لڑائی ان غریب‘ دیہاتی‘ محروم طبقے کے لیے نہیں ہے بلکہ اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیے ہوتی ہے۔
پارلیمانی کنبھ کرن کی کروٹ
کانگریس کو کیا ہو گیاہے؟وہ ایک تندرست اپوزیشن کا کردار کیوں نہیں نبھانا چاہتی؟
ایوان کا یہ پورا سیشن ہی اس نے لگ بھگ برباد کر دیا ۔اس نے ایسے ایسے بلوںکی مخالفت کی جو اس نے خود اقتدارمیں رہتے ہوئے پیش کیے تھے۔اس نے اپنے لگائے پودوں کو ہی اکھاڑنے کی کوشش کی۔دوسرے کے چہرے کی چمک دھندلی کرنے کے لیے کیا یہ ضروری ہے کہ اپنا منہ کالا کیا جائے ؟اپنا منہ کالا کرنے سے کیا سچ مچ سامنے والے پر کوئی اثر پڑتا ہے؟
تین مثالیں ہمارے سامنے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ کانگریس صحت مند اپوزیشن کے بجائے ایک مسخرے کے کردار میں آگئی ہے۔ پہلی مثال تجارتی الائنس میںمودی سرکار کا مضبوط رویہ ہے۔موجودہ سرکار کی وزیر نرملا سیتو رامن نے بھارتی کسانوں کے فائدے کی خاطردنیاوی تجارتی الائنس کی پیشکش کو ٹھکرا دیا ۔یہ پہل کس نے کی تھی؟یہ کانگریس سرکار نے کی تھی۔اسی کی بات کو بھاجپا سرکار آگے بڑھا رہی ہے لیکن اس معاملے پر کانگریس بی جے پی کی پیٹھ ٹھوکنے کے بجائے اس کی ٹانگ کھینچ رہی ہے ۔
دوسرا معاملہ بیمہ بل کا ہے۔ بیمہ فیلڈ میں بیرونی ملکیت کاحصہ 49فیصد تک کرنے کا بل کون لایا تھا؟ کانگریس!لیکن کانگریس ہی اسے پاس کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ کھڑی کر رہی ہے۔ 
اسی طرح یونین پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں 'سی سیٹ‘کا پرچہ چالو کس نے کیا؟کانگریس نے۔ وہی اس کی اب آنکھ بند کر کے مخالفت کر رہی ہے یعنی اس کی مخالفت صرف مخالفت کے لیے ہے۔ اس نے حافظ سعید اور میری ملاقات کو لے کر دودن تک پارلیمنٹ کو ٹھپ کیے رکھا۔ ان کا ہدف میری مخالفت کر نانہیں تھا‘ وہ میرے بہانے بی جے پی سرکار پر حملہ کرنا چاہتی تھی لیکن وزیر خارجہ سشما سوراج نے الٹے استرے سے ان کی منڈائی کر دی۔ اسی طرح اب ایوانی کنبھ کرن نے کروٹ لی ۔دس سال سے خرّاٹے بھر رہے عظیم لیڈر راہول گاندھی اچانک ایوان میں کود پڑے۔انہیں فرقہ واریت کے بھوت تنگ کرنے لگے ہیں۔ 
یہ سب کیا بتا تا ہے ؟یہی کہ کانگریس 'گھنے شفا خانہ‘میں جا پڑی ہے۔ گاندھی‘ نہرو کی یہ عظیم پارٹی ان نقلی لیڈروں کے ہاتھوں کہیں اپنے سولہویں سنسکار کی تیاری تو نہیں کر رہی ہے؟ 
(ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک بھارت کی کونسل برائے خارجہ پالیسی کے چیئرمین ہیں) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں