بھارت کی سیاست میں لیڈر لوگ ایک دوسرے پر اتنے تیکھے اور گندے حملے کرتے ہیں کہ ٹی وی دیکھنے والوں اور اخبار پڑھنے والے کروڑوں لوگوں کا مزہ کر کرا ہو جاتا ہے۔ لوگوں کے خیال میں لیڈر وہ ہے‘ جوآگے آگے چلے اور باقی جس کے پیچھے پیچھے چلیں۔ سنسکرت میں کہا بھی گیا ہے کہ 'نیتی اتی نیتا‘مطلب جو لوگوں کو راستہ دکھائے‘ ان کی رہنمائی کرے‘وہ لیڈر ہے لیکن آج کل لیڈر لوگ اپنی تقاریر اور بیانات میں تو چھوٹ لے ہی لیتے ہیں ‘وہ پارلیمنٹ میں بھی ایک دوسرے کی ٹوپی اچھالنے سے باز نہیں آتے۔
لیکن بہار کے ہمارے لیڈروں نے ایک دوسرے پر اتنے مزیدار حملے کیے ہیں کہ ان سے بدمزگی پھیلنے کے بجائے سارا ماحول طنزیہ ہو جاتا ہے۔ لالوپرشاد یادو نے اپنے ساتھی رام ولاس پاسوان پر تنقید کی ہے۔انہیں نٹور لال یا چت چور کہنے کے بجائے اس بار اعلیٰ درجے کا 'موسم کا جانکار‘ کہا ہے ۔لالو کا کہنا ہے کہ سیاست کی ہوا کس جانب چل رہی ہے‘یہ پہچاننے کے سب سے بڑے عالم رام ولاس پاسوان ہیں ۔وہ اس معاملے میں پوسا انسٹیٹیوٹ اور 'اسرو‘کے ماہروں کو بھی مات کر دیتے ہیں۔ جو بھی پارٹی سرکار بناتی نظر آتی ہے ‘وہ اسی کی پونچھ پکڑ کر لٹک جاتے ہیں۔ اس پر پاسوان کے بیٹے کا رد عمل تھا کہ 'لالو انکل‘ آج کل ایک 'ریٹائرڈ کامیڈین ‘ہیں ۔اچھا ہوا کہ اس نے لالو کو جوکر نہیں کہا۔لالو نے جوابی حملہ بھی بڑی نرمی سے کیا۔انہوں نے کہا: اب یہ چوزا سکھائے گا،مرغی کو کہ تو چُوں چُوں ایسے کر ۔اس پر پاسوان نے کہا کہ لالو تو 'ایکسپائرڈ میڈیسن‘ ہے اور اس نیتیش کو آج کل وہ گلے لگا رہے ہیں‘جو میدان سے بھاگنے کے ماہر ہیں۔
کسی بھاجپا لیڈر نے لگ بھگ نظم ہی لکھ ڈالی۔لالو اور نیتیش کے میل ملاپ پر اس نے کہہ دیا کہ یہ الائنس ہے ۔ایسے لفظ کبھی کبھی لاکھوں لوگوں کے گلے کا ہار بن جاتے ہیں اور چنائو کے نتیجوں کو بھی متاثر کر دیتے ہیں ۔اس 'الائنس‘ کو ایک کانگریسی لیڈر نے رام لکشمن کی جوڑی کا نام دیا ہے ۔نیتیش نے اس الائنس کو ایسی دوائی سے تشبیہ دی ہے ‘جو فرقہ واریت کے زہر کا علاج ہے۔
اس بہاری نوک جھونک میں مجموعی طور پر اعتراض جیسا کچھ نہیں ہے ۔اپنے ملک کی روکھی سوکھی اور آج کل چل رہی سیاست کی صورتحال میں بہاری لیڈروں کا یہ زبانی کلام کچھ نہ کچھ تو رس گھول ہی رہا ہے ۔
...............
اندور سے لگے ہوئے شہر مہو(Mahu) کے پاس ایک گاؤں ہے‘جس کا نام ہے سیتا پٹ۔ اس گاؤں میں کل ایک ہزار لوگ رہتے ہیں۔ان میں سے آٹھ سو اعلیٰ ذات کے ہیں اور دو سو دلت (چھوٹی ذات)۔ ان دلتوں کے ساتھ جو برتائو ہو رہا ہے‘ اسے دیکھ کر کسی بھی انسان کا سر شرم سے جھک جائے گا۔ ان کو نہ تو سرکاری نل کا پانی مل رہا ہے ‘نہ گاؤں کی چکی ان کا آٹا پیسنے کو تیا رہے اور نہ گاؤں کا کوئی دکاندار ہی انہیں راشن بیچنے کو تیار ہے۔ وہ اپنی پیاس بجھانے کے لیے آس پاس کے نالوں اور نہروں سے پانی لاتے ہیں۔ آٹا پسوانے کے لیے انہیں دوردراز کے گاؤں میں جانا پڑ رہا ہے اور اناج خریدنے کے لیے بھی۔ اونچی ذات والوں نے ڈنڈے کے زور پر یہ اصول نافذ کر دیا ہے کہ سیتا پٹ کے دلتوں کو جو کوئی مذکورہ سہولیات فراہم کرے گا‘ اس سے پانچ ہزار روپیہ جرمانہ وصول کیا جائے گا۔
یہ سب کیوں ہو رہا ہے ؟ اس لئے کہ کاوڑ یاترا سے لوٹ کر سیتا پٹ کی دلت خواتین گاؤں کے رام مندر میں پوجا کی جگہ پر پانی چڑھانا چاہتی تھیں‘ لیکن پجاری نے منع کر دیا۔دلتوں نے اس بات کی شکایت ڈی ایم اور دوسرے حکام سے کر دی۔ اسی بات سے ناراض ہو کر سیتا پٹ کے اونچی ذات والوں نے یہ ظلم شروع کر دیا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گاؤں کے اس پجاری اور پنچایت کے ممبروں کو فوراً گرفتار کیا جاتا اور انہیں سخت سزا دی جاتی لیکن اس کے برعکس مہو کے گاؤں میں ہو کیا رہا ہے۔ مہو گائوں میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر پیدا ہوئے تھے۔امبیڈکر کے نام پر مہو میں ہر سال بڑا پروگرام ہوتا ہے ۔ہزاروں لوگ اور لیڈر اس میں شرکت کرتے ہیں لیکن اچھوت کا عالم وہاں آج بھی ویسا ہی ہے‘جیسا ایک سو دوسوسال پہلے تھا۔ ہم لوگ صرف سیاسی نظریے سے آزاد ہوئے ہیں ۔ہماری معاشرتی غلامی جوں کی توں ہے۔ حیرانی ہے کہ اندور جیسے بیدار لوگ بھی سوئے ہوئے ہیں۔ ایک ہفتہ ہو گیا ہے ‘اس ظلم کو جاری ہوئے لیکن نہ تو کوئی گاندھی وادی‘ کوئی آریہ سماجی‘ کوئی سنگھی‘ کوئی کانگریسی‘ کوئی سماج سدھارک ابھی تک سیتا پٹ گیا اور نہ کسی نے ان جاہل اونچی ذات والوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے آج ہی کہا ہے کہ سچا ہندو وہ ہے‘ جو کہے کہ سارے ہندو ایک برابر مانے جائیں۔ ان سے نفرت ختم ہو۔کیا یہ نفسیاتی غلامی صرف قانون سے رک سکے گی؟ قانون تو تھوڑا بہت سہارا دے سکتا ہے۔ یہ کام تو تب ہوگا‘ جب ہم معاشرے کی اندرونی کیفیت کو بدلا جائے۔
...............
پاکستان میں نئی سرکار بنے ہوئے ابھی سوا سال بھی نہیں ہوا اور وہاں ایک بڑی سیاسی مصیبت کھڑی ہو گئی ہے۔ دہشتگروں کے خلاف زبردست فوجی آپریشن تو چل ہی رہا ہے‘ میاں نواز شریف کی سرکار کے خلاف بھی دو تحریکیں چھڑ گئی ہیں۔ ایک عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کی اور دوسری ڈاکٹر طاہر القادری کی عوامی لیگ کی۔پہلے دونوں پارٹیاں ایک ساتھ نواز شریف پر دھاوا بولنے والی تھیں لیکن اب دونوں نے اپنی الگ الگ پٹڑی پکڑ لی ہے۔ عمران کا کہنا ہے کہ یہ سرکار استعفیٰ دے ‘کیونکہ پچھلے انتخابات میں مکمل دھاندلی ہوئی ہے اور قادری کا کہنا ہے کہ وہ پورا انقلاب چاہتے ہیں ۔انہوں نے اپنی دس مانگوں پر مشتمل منشور پیش کیا ہے۔ ان کے حامیوں پر جون میں گولیاں چلا دی گئی تھیں ۔وہ اس خونی سرکار کو ایک دن کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتے ۔
دونوں رہنماؤں نے پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر بہت بڑے جلوس کا اعلان کیا تھا۔ تیا ری زبردست تھی۔ سرکار نے بھی اس کا مقابلہ کرنے کی مکمل تیاری کر رکھی تھی ۔سڑکوں پر بڑی بڑی اڑچنیں لگا دی گئی تھیں تاکہ جلوس اسلام آباد تک پہنچ ہی نہ پائے۔اسلام آباد کا کنٹرول فوج کے حوالے کر دیا گیا تھا لیکن کچھ صوبائی لیڈروں کی مداخلت کے سبب دونوں طرف سے کچھ ڈھیل دی گئی اور جلسے کی اجازت مل گئی۔ تاہم اس جلوس میںدس لاکھ لوگوں کے بجائے کچھ ہزار لوگ ہی آئے۔ ایک تو زوردار برسات نے لوگوں کے جوش کو ٹھنڈا کر دیا‘ دوسرالاہور میں قادری کے حامیوں پر برسی گولیوں اور لاٹھیوں نے لوگوں کو ڈرا دیا اور تیسرا لوگوں کو ابھی تک یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ پاکستان کی فوج کس کے ساتھ ہے۔ اگر لوگ یہ مان بیٹھتے کہ فوج میاں نوازشریف کی سرکار کا تختہ الٹنا چاہتی ہے تو شاید وہ بڑی تعداد میں میدان میں اترآتے۔ میاں نوازشریف کی سرکار سے ابھی لوگ مطمئن نہیں ہیں‘ لیکن ان کی سوچ بغاوت کی بھی نہیں ہے ۔یوں بھی میاں نواز پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہے ہیں ۔فوج کو ناراض کرنے کا حشر کیا ہوتا ہے ‘ان سے زیادہ کون جانتا ہے ۔مشرف کے معاملے میں بھی وہ سخت رویہ نہیں اپنا رہے۔ پاکستان کی عدالتوں نے عمران اور طاہرالقادری کی مانگوں کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلام آباد کے آب پارہ میں جاری دھرنا کامیاب نہیں ہو سکتا۔اس سے عمران اور قادری صاحب کو دھکا ضرور لگے گا‘ لیکن اگر میاں نواز شریف سرکار نے لاہور کی طرح اس دھرنے میں خون بہا دیا تو ان کی سرکار خطرے میں پڑ جائے گی ۔
جوبھی ہو‘ ماڈل ٹاؤن سانحہ کے بعد میاں نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنا ہوگا کہ پاکستان کے عوام کو فوراً راحت پہنچانے کے لیے کیا کیا اقدام اٹھائے جائیں اور فوج کے ساتھ مکمل اعتماد کیسے قائم کیا جائے۔