اب سپریم کورٹ اور سرکار میں مٹھ بھیڑ کی علامتیں صاف صاف نظر آ رہی ہیں۔ججوں کی تقرری کے معاملے میں جب یہ دونوں ٹکرائیں گے ‘تب ٹکرائیں گے ‘ابھی تو لوک پال کی تعیناتی کو لے کر دونوں کے بیچ ایسی قانونی بحث چھڑ گئی ہے جس کی سیاسی ا ہمیت بہت زیادہ ہے ۔لوک پال کو لے کر ملک میں کافی بڑی تحریک چلی تھی ۔کانگریس سرکار نے اس کے دبائو میں ہی لوک پال قانون بنایا تھا لیکن اس لوک پال کی تعیناتی ابھی تک بیچ میں لٹکی ہوئی ہے۔ کانگریس سرکار اسے تعینات نہ کر سکی اور یہ سرکار بھی اسے‘ اس لیے تعینات نہیں کر پا رہی ہے کہ اس کی تقرری میں اپوزیشن لیڈر کا ہونا ضروری ہے ۔نئی پارلیمنٹ بنے تین مہینے پورے ہو رہے ہیں ‘لیکن ابھی تک یہ طے نہیں ہوا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کون بنے گا؟
اپوزیشن لیڈر بننے کے لیے پارلیمنٹ ممبروں کی کل تعداد کم از کم دس فیصد کسی پارٹی کے پاس ہونی چاہیے لیکن کانگریس کے پاس صرف 44 ممبر ہیں ۔یہ ٹھیک ہے کہ اپوزیشن میں کانگریس سب سے بڑی پارٹی ہے لیکن اس کے پاس کم از کم تعداد بھی نہیں ہے۔اس نے دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر ایسی ایک جماعت بھی ابھی تک کھڑی نہیں کی ہے،جو اپنی تعداد کی طاقت دکھا سکے ۔بی جے پی کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے پہلے17 برسوں میں اپوزیشن کا
کوئی لیڈر ہی نہیں تھا‘کیونکہ کسی اپوزیشن پارٹی کے پاس دس فیصد ممبروں کی تعداد بھی نہیں تھی۔1969 ء میں کانگریس (س) کے لیڈر ڈاکٹر رام سبھگ سنگھ اپوزیشن کے پہلے لیڈر تعینات کیے گئے۔ اس کے بعد1980 ء سے 1989ء تک بھی کانگریس حکومت کے دوران کوئی اپوزیشن کا لیڈر نہیں رہا تو اب کیوں ہو؟ یہ دلیل اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن کسی بھی جمہوری سسٹم کو ٹھیک سے چلانے کے لیے اپوزیشن کا لیڈر ہونا بہت ضروری ہے ۔اس سے بھی زیادہ ضروری اس لئے ہے کہ لوک پال ہی نہیں ‘دیگر کئی آئینی عہدوں جیسے ججوں ‘الیکشن کمیشن‘نگرانی کمیشن وغیرہ کی تقرری بھی اپوزیشن لیڈر یا سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے بنا نہیں ہو سکتی۔
اب سرکار چاہے تو آرڈیننس جاری کر کے ان سب کی تعیناتی میں سے اپوزیشن لیڈر کا کردار ختم کر دے۔عدالت نے سرکار کو صرف دو ہفتے کا وقت دیا ہے ۔اس وقت میں وہ قانون تو پاس کر ہی نہیں سکتی۔ظاہر ہے کہ عدالت سرکار کی کافی رگڑائی کرے گی ۔اگر اس مٹھ بھیڑ کو ٹالنا ہوتو سرکار کے پاس اب ایک ہی راستہ ہے کہ وہ کانگریس کو اپوزیشن کا حقدار ہونے کا اعلان
کرے۔اپوزیشن کے لیڈر کی تعیناتی کو تکنیکی معاملہ بتاکر اسپیکر کے سر مڑھنا بالکل غلط ہے ۔
کیسا ہندوپنا: تجربے اور محنت کی توہین
بی جے پی کے اصلی فیصلے کرنے والی جماعت سے اٹل بہاری واجپائی‘لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کا اخراج کس بات کی اطلاع ہے؟بی جے پی کے کارکنان اور عام عوام دونوں ہی شک شبہ میں ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ انہیں مشیر جماعت کا ممبر بنا دیا گیا ہے ۔
یہ مشیر جماعت کیا بلا ہے ؟بی جے پی ایک سیاسی پارٹی ہے یا کوئی ''نیک صحبت‘‘ پارٹی ہے ۔مشیر جماعت تو نیک صحبت جماعتوں ِگُرو کُلوں ‘یتیم خانوں ‘بیوہ پناہ گاہوں وغیرہ میں تعینات کیے جاتے ہیں ۔جن لیڈروں کو اس جماعت سے خارج کیا گیا ہے‘کیا انہوں نے اپنی اس تنزلی کی ہامی بھری ہے ؟کیا پارٹی لیڈر شپ نے ان سے پو چھ کر یہ جماعت بنائی ہے؟ اٹل جی تو کچھ جواب دینے کی حالت میں نہیں ہیں ۔ایسی کیفیت پچھلے پانچ چھ سال سے چل رہی ہے لیکن پھر بھی مودی سے پہلے بی جے پی میںیہ خاص مقام پر آراستہ کیے گئے تھے ۔آج کیا حال ہوا ہے؟ اڈوانی جی اور جوشی جی‘جنہوں نے اپنی پوری زندگی جَن سَنگھ اور بی جے پی کے لیے جھونک دی اور اب بھی متحرک اور اہل ہیں ‘اب حاشیے پر کر دیے گئے ہیں ۔میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہی ہندوپنا ہے؟ اپنے بزرگوں کی عزت کرنا ہندو ہونے ‘آریہ ہونے اور مہذب ہونے کی پہلی شرط ہے۔کیا مودی اور امیت شاہ کی جگل جوڑی ہندو ہونے کے سبھی اصولوں کی حکم عدولی نہیں کر رہی ہے ؟
اس کی حکم عدولی تو تبھی سے شروع ہو گئی تھی ‘جب اڈوانی جی کو گجرات اور جوشی جی کوبنارس سے لڑنے سے منع کیا جا رہا تھا۔اب اس مشیر جماعت میں مودی اور راجناتھ کو کس لئے رکھا گیا ہے؟کیا یہ دونوں پچھتر سال کے ہوگئے ہیں ؟یہ دونوں مشیر جماعت میں بھی ہیں اور پارلیمانی بورڈ اور چناوی انجمن میں بھی ہیں ۔یہ کیسا مذاق ہے ؟آپ نے ایک مشیر جماعت بنائی لیکن آپ ان دوبزرگوں سے اتنے ڈرے ہوئے ہیں کہ اس میں بھی اپنے دو لوگ گھسیڑ دیے۔آہستہ آہستہ اس راز سے پردہ اٹھتا جا رہا ہے کہ بی جے پی بھی کانگریس کا 'طرزعمل‘ اپنا رہی ہے۔پارٹی کی ساری حکومت صرف دو لوگوں کے ہاتھوں میں محدود ہوتی جا رہی ہے ۔اگر سنگھ اس طرح ڈرکے چلنے والی چالوں سے لیڈری سیاست کی پشت ٹھوک رہے ہیں تو میں اپنے تجربے سے کہتا ہوں‘ اس کا سب سے پہلا شکار سنگھ ہی ہوگا‘ کیوں کہ سنگھ بے غرض اور وطن پرستوں کی جماعت ہے۔ وہ کب تک اپنے منہ پر تالا جَڑے رہے گی ؟ 1975 ء کی ایمرجنسی کی خا ص وجہ یہ ڈر کے چلنے والی سیاست ہی تھی۔
یہ 75 سال کا اڑنگابھی غضب کا ہے ۔ 75 سال کا آدمی وزیر کیوں نہیں بن سکتا‘ اس کی وجہ تو بتایئے؟اگر اس آدمی کی جسمانی یا نفسیاتی مجبوری ہو تو یہ دلیل اس پر نافذ ہو سکتی ہے ۔اس پر ہی نہیں ‘45 سال کے لیڈر پر بھی لاگو ہو سکتی ہے۔ لیکن75 سال کے تو وہ لیڈر بھی ہوں گے (ہم تو چاہیں گے‘وہ ایک سو کے ہو جائیں )جو ابھی 55اور56سال کے ہیں۔ تب کیا وہ خوشی سے ریٹائرمنٹ لے لیں گے؟ تب وہ پھر کوئی اپنی مرضی کے مطابق اصول بنا لیں گے ۔پتہ نہیں یہ کیسی نسلی تبدیلی ہے‘ جو تجربے اور محنت کی توہین کرتی ہے ۔