چینی صدر بھارت آنے سے پہلے مالدیپ اور سری لنکا گئے۔ مالدیپ اور سری لنکا دونوں بھارت کے پڑوسی ملک ہیں۔ دونوں خود مختار اور آزاد ہیں ۔دونوں کو حق ہے کہ وہ اپنے یہاں جس کو چاہیں ‘بلائیں اور ہر ملک کوحق ہے کہ وہ ان کے ہاں جائے۔ ان پڑوسی ملکوں کواس معاملے میں بھارت سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ جب چین وہاں جاکر ایسی باتیں کہہ سکتا ہے‘ جن کا مقصد بھارت کے خلاف مانا جا سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ بھارت بھی چپ رہے ؟
بھارت نے بھی چین کے دو پڑوسی ملکوں جاپان اور ویتنام میں جا کر کھری کھری کہہ دی ۔وزیر اعظم نریندر مودی نے جاپان میں 'سمندری پھیلاؤ‘پر طنز کی‘جو حقیقت میں جاپان چین تنازع کاحصہ ہے۔ اس کے علاوہ صدرمملکت پرنب مکھرجی نے ویتنام کے ساتھ تیل کھنن کا سمجھوتہ کیا ‘جس پر چینی ترجمان نے اشارے میں اعتراض کیا ہے۔ پرنب جی نے یہ بھی کہہ دیا کہ جنوبی چین کے سمندر میں ویتنام کا حق ہے ۔سب کو پتہ ہے کہ اس مدعے پر ویتنام اور چین کا تنازع چل رہا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ اس موقع پر جب چینی صدر بھارت آئے ہو ئے ہیں ‘کیا بھارت کو ایسی ناپسند باتیں کہنا چاہئیں؟ کیا ماہرانہ انداز سے یہ مناسب ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چین نے کیا کِیا؟چینی صدر نے مالدیپ اور سری لنکا میں کیا کیا ہے؟ ان
دونوں ملکوں میں جاکر انہوں نے کہا ہے کہ ان کے اندرونی معاملات میں وہ کسی بھی طرح کی باہری مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔ وہ ان کے خلاف ہیں۔ یہ 'باہری مداخلت‘کس کی ہو سکتی ہے؟ کیا ان کا اشارہ بھارت کی طرف نہیں ہے ؟کیا انہیں پتہ نہیں ہے کہ اگر بھارت 1971ء میں سری لنکا میں اور 1988ء میں مالدیپ میں فوجی مداخلت نہ کرتا تو وہاں لاقانونیت پھیل جاتی؟ کیا وہ جانتے ہیں کہ دونوں ملکوں کی سرکاروں نے باقاعدہ بھارت سے مداخلت کی درخواست کی تھی ؟انہوں نے بھارت کے ان دونوں پڑوسیوں کو اپنی 'سمندری ریشم راستہ‘کی تجویز میں بھی شامل کر لیا ہے۔بھارت کے پڑوس میں جاکر وہ اگر ایسی بات کہہ سکتے ہیں تو چین کے پڑوس میںجاکر بھارت ویسی بات کیوں نہیں کر سکتا ؟یہ ہوئی برابری کی شاطرانہ چال!
اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہم چین کی بے عزتی کریں یا اسے ناراض کریں لیکن ہماری خارجہ پالیسی اتنی کمزور نہیں ہونی چاہئے۔ہمیں آج جتنی چین کی ضرورت ہے ‘چین کو اس سے زیادہ ہماری ضرورت ہے ۔مودی چاہیں تو چینی صدر سے تبت کی خود مختاری‘ سرحدی تنازع‘سلامتی کونسل کی ممبری اور بھارت کی ایٹمی حیثیت اور ویزا وغیرہ کے بارے میں کھل کر بات کر سکتے ہیں۔ بھارت میں سو بلین ڈالر لگانے اور اتنے کی ہی تجارت بڑھانے میںچین کا فائدہ کم نہیں بلکہ زیادہ ہی ہے۔ بھارت چین سے جم کر تعاون کرے ۔اس تعاون کا خیر مقدم ہے لیکن وہ یہ نہ بھولے کہ دونوں ہی ایشیا کی بڑی قوتیں ہیں ۔دونوں میں مقابلہ فطرتی ہے ۔اگر وہ مقابلہ نہیں کرنا چاہیں گے تو بھی دیگر ملک انہیں مجبور کر دیں گے۔
سشما سوراج کی خارجہ پالیسی پر کھلی بات
غنیمت ہے کہ وزیر خارجہ سشما سوراج نے پریس کانفرنس تو کی ۔پچھلے تین مہینے سے چل رہی اس سرکار کے کسی بھی وزیر نے ابھی تک پریس کانفرنس نہیں کی تھی ۔یوں تو وزیر اعظم یا کسی وزیر کو مہینے میں ایک بار پریس کانفرنس ضرور کرنی چاہئے اور ہفتے میں ایک یا دو دن انہیں عوام کے دربار میں بھی جانا چاہئے لیکن آج کل صحافت کی جیسی بری حالت ہو گئی ہے‘خاص طور سے ٹی وی چینلوں کی‘اسے دیکھتے ہوئے تو اکثر لیڈر اپنے آپ کو صحافیوں سے دور رکھنے کی ہی کوشش کررہے ہیں۔ وزیراعظم نے اس روایت کو ختم کر دیا ہے کہ اپنے بیرونی دورہ میں وہ صحافیوں کو بھی ساتھ لے جائیں ۔ٹی وی چینلوں نے اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے لیے ایسے ایسے ہتھ کنڈے اپنانے شروع کر دیے ہیں کہ ان سے سرکار ہی نہیں ‘ملک کا بھی بڑا نقصان ہو سکتا ہے ۔اس خطرے کے باوجود سشما نے پریس کانفرنس کی ۔
سشما نے کیا خوب کہا کہ پاکستان نے بات چیت کے موضوع پر جو کچھ کہا ہوا ہے‘وہ چھوٹا سا وقفہ ہے ۔فل اسٹاپ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کے دروازے کھلے ہیں۔ نریندر مودی نے پاکستانی کشمیر کو راحت بھجوانے کی جو پیشکش کی تھی‘ اس کا کمال ہم نے آج دیکھ لیا ۔میں نے پہلے لکھا تھا کہ جو پاکستانی رد عمل آیا ہے‘وہ کسی افسر کا ردعمل ہے۔ وہ وزیراعظم نوازشریف کا رد عمل ہو ہی نہیں سکتا۔ میٹھے آم بھیجنے والے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی بات بھی میٹھی ہی آئی ہے۔ اسی طرح مجھے لگتا ہے کہ ہماری وزارت عظمیٰ کے طرف سے مذاکرات کو رد کرنے کا جو بہانہ بنایا گیا تھا ‘وہ بھی کسی جنونی افسر کی زیادتی کی مہربانی سے ہوا ہوگا۔نریندر مودی اور سشما سوراج حریت کا بہانہ کیوں بنائیں گے ؟وہ اپنی پڑوسی پالیسی پر پانی کیوں پھیریں گے؟ لیکن وہ چھوٹا سا حادثہ ہو گیا تو کیا ہوگیا!اسے اب بھولنا اچھا!اب آگے بڑھنا ضروری ہے ۔
اسی طرح جاپان میں وزیر اعظم کے خطاب میں 'سمندری پھیلاؤ‘ (چینی حدود کو پھیلانا) کا ذکر بھی کسی جنونی جاپانی افسر کی مہربانی سے ہوا ہوگا ۔مودی اور سشما ‘دونوںہی چین سے اچھے تعلقات کے خواہش مند ہیں۔ سشما نے اس چین مخالف بیان پر اپنی صفائی دے کر کانٹے کو نکال باہر کیا ہے۔سشما سوراج کا یہ کہنا خاصا درست ہے کہ کشمیر اور ارونا چل کو چین بھارت کا حصہ ہی مانے ‘کیونکہ تبت اور تائیوان کو بھارت اس کا حصہ مانتا ہے۔ سشما کو میں بتا دوں کہ چین یہ ماننے والا نہیں ہے ۔کیا مودی اور سشما کی اتنی ہمت ہے کہ وہ بھی تبتیوں ‘سنکیانگ کے ایغر اور منچو چینی شہریوں کو پاسپورٹ کی بجائے ایک الگ کاغذ پر ویزا دینے کی پالیسی بنا دیں؟جیسا چین ہمارے ساتھ کر رہا ہے ‘ویسا ہم اس کے ساتھ کریں ۔جیسے کو تیسا!اگر چین کشمیر اور اروناچل کو بھارت کا حصہ نہ مانے تو ہم تبت اور سنکیانگ کو چین کا حصہ کیوں مانیں؟ ان باتوں کے باوجود ہماری دو طرفہ بات چیت‘ تجارت اور لین دین جوں کا توں چل سکتا ہے۔ ستمبر کے اس مہینے میں ہماری خارجہ پالیسی کے سامنے بڑے چیلینجز آنے والے ہیں۔