"DVP" (space) message & send to 7575

کابل سے اچھی خبر

افغانستان سے اچھی خبر آئی ہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے بیچ سمجھوتہ ہو گیا۔ چار مہینے سے چل رہے صدارتی انتخابات کے تنازع کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی صدر ہوں گے لیکن اب ایک وزیر اعظم کی طرح وزیر خاص (چیف ایگزیکٹو) بھی ہو گا‘ جس کا فیصلہ عبداللہ کریں گے۔وہ چاہیں تو خود یا اپنی جماعت کے کسی لیڈر کو مقرر کر سکتے ہیں۔ یعنی افغان سرکار میں اقتدار کے دو مرکز ہوں گے۔ ایک غنی اور دوسرے عبداللہ ۔ویسے موجودہ آئین میں وزیراعظم یعنی چیف ایگزیکٹو کا کوئی عہدہ نہیں‘ اس لئے سمجھوتہ میں طے پایا ہے کہ آئین میں یہ نیا عہدہ تخلیق کرنے کے لیے دوسال کے اندر لویہ جرگہ بلایا جائے گا۔ تب تک صدر اور وزیراعظم (چیف ایگزیکٹو) اقتدار میں برابری کے حصہ دار ہوں گے۔
سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ غنی اور عبداللہ میں سمجھوتہ ہو گیا۔ اس کے باوجود ہو گیا کہ الیکشن کمیشن کے ذریعے ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں غنی فتح یاب ہوئے ۔غنی چاہتے تو اڑ جاتے لیکن ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے فراخ دلی اور وطن پرستی کا ثبوت دیااور اپنے مخالف کے ساتھ اقتدار میںحصہ داری قبول کر لی ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ بھی ممکن تھا کہ عبداللہ کے غیر پٹھان حمایتی تاجک‘ ہزارہ‘ ازبک‘ کرغیز وغیرہ بغاوت اور غارت گری پر اتر آتے ۔ عبداللہ اپنے آپ کو غنی کے مقابلے میں زیادہ تجربہ کار اور لائق بھی مانتے ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے نمبر دو کی پوزیشن قبول کر لی‘ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ اس وقت افغانستان کے لوگ عزت اور بے عزتی کے چکر میں پڑنے کی بجائے اپنے ملک کی ازسرنو تعمیر میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔پس دیکھنا یہ ہے کہ اگلے دوسال میں غنی اور عبداللہ کے بیچ تلواریں نہ کھنچ جائیں۔ 
امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی مصالحانہ کوششوں سے یہ سمجھوتہ ہوا ہے تو اب انہیں ہی دیکھنا ہوگا کہ یہ کامیاب بھی ہے ۔یہ تو واضح ہے کہ امریکی افواج کی موجودگی میں سمجھوتہ پر اب آسانی سے دستخط ہو جائیں گے۔نئے لیڈروں کی راہ آسان نہیں ہے۔ حامد کرزئی کو تو انٹر نیشنل امداد کافی مقدار میں ملتی رہی لیکن اب اس کے جھرنے سوکھ رہے ہیں۔ امریکہ کی دلچسپی بھی پہلے جیسی نہیں رہی۔ ٹیکس کی آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے ۔بد عنوانی بے لگام ہے۔ دہشت گردوں اور طالبان کے آپس میں گہرے تعلقات ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی فوج بھی پہلے سے زیادہ بیدار ہو جائے گی۔ ایسی صورتحال میں دونوں لیڈروں کوقومی یکجہتی کا بگل تو پھونکنا ہی ہوگا‘ اس کے علاوہ ایسی نئی خارجہ پالیسی بنانی ہو گی جو افغانستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکے۔ 
پاک بھارت: ٹوٹے تار جوڑیں 
اگر اگلے ہفتے بھارتی اور پاکستانی وزرائے اعظم کی ملاقات ہو جائے تو بہت اچھا ہوگا۔ دونوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں حصہ لینے نیو یارک جارہے ہیں۔ بھارت پاک سیکرٹریوں کی بات چیت ہم نے اس بہانے رد کر دی کہ پاکستانی ہائی کمشنر نے سری نگر جا کر حریت لیڈروں سے ملاقات کی۔ ہمارے اس قدم سے دونوں ملکوں کی سیاسی پالیسی میں فاصلہ بڑھ گیا تھا لیکن ہمارے جن افسروں نے وزیر اعظم کو ایسی صلاح دی تھی ‘انہیں جلد ہی سمجھ میں آ گیا کہ ایسے ڈرامے بازی سے کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ وزیر اعظم کی اس تاریخی پہل پر پانی پھر رہا ہے ‘جس کے تحت پاکستانی وزیر اعظم بھارت آئے تھے۔ اب کشمیر میں سیلاب پر بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان کے کشمیریوں کی مدد کا اعلان کر کے جو محبت کا جذبہ دکھایا اور وزیر خارجہ نے ماہرانہ انداز سے وقفہ کی جو بات کہی‘اس نے دونوں ملکوں کے بیچ ٹوٹے پل کو جوڑنے کا کام کیا ہے۔ادھر پاکستانی ہائی کمشنردوسینئر افسروں سے چپ چاپ مل چکے ہیں ۔ اس ملاقات میں اگر وزرائے اعظم کی ملاقات کی بات طے ہو جائے تو کیا کہنے ؟ 
یہ موقع اچھا ہے اب پاکستان کی سرکار آرام کی سانس لے رہی ہے ۔پچھلے ڈھائی مہینے سے اس کی جان سکرات میں پھنسی تھی۔ پہلے لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا‘ پھر فوج نے دہشتگردوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور اس کے ساتھ عمران اور قادری کی تحریک چھڑ گئی ۔اب جو بھی بات دونوں وزرائے اعظم کریں گے ‘اسے فوج کے گلے اتارنے میں نواز شریف کو آسانی ہوگی۔ مودی کو نواز شریف سے اس لئے بھی ملنا چاہئے کہ اس ملن کا پیغامِ دوستی پاکستان کے عوام تک سیدھا پہنچے گا ۔نواز سے مودی کی ملاقات پاکستان میں جمہوریت کی پشت کو مضبوط کرے گی۔ عمران کی تحریک کے علاوہ پاکستان کی لگ بھگ سبھی پارٹیوں نے میاں نوازشریف کا ساتھ دیا ہے۔ اگر بھارت پاکستان سے اپنے تعلقات بہتر کر سکے تو سارے جنوب ایشیا کو ایک ہونے میں کتنی دیر لگے گی ۔مودی نے جو پہل مئی میں کی تھی‘ اس کے ٹوٹے تا رجوڑنے کا یہ سنہرا موقع ہے ۔ 
مودی اور مسلمان
امریکی ٹی وی چینل کو نریندر مودی نے جو انٹر ویو دیا ہے‘ وہ بھارت ہی نہیں دنیا کے کئی ملکوں میں گونجے گا۔ مودی نے کہا ہے کہ بھارت کے مسلمان بھارت کیلئے ہی جیئیں اور مریں گے۔ وہ القاعدہ کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔ بھارت کے مسلمانوں پر جو شک کرتے ہیں ‘وہ ان کے ساتھ نا انصافی کر رہے ہیں ۔
مودی کے منہ سے یہ الفاظ سن کر کون مسلمان ہے جو خوش نہیں ہو گا۔ بیشتر مسلم جماعتوں اور لیڈروں نے مودی کے اس بیان کی تعریف کی ہے ۔کچھ نے یہ بھی کہا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی وطن پرستی کیلئے مودی کا سرٹیفکیٹ نہیں چاہئے۔یہ بات درست ہے۔ مودی کیا‘کسی کے بھی سرٹیفکیٹ کی کیا ضرورت ہے لیکن یہ تو ماننا ہو گا کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر ملک کے مسلمان مودی کے منہ سے‘ جیسی جلی کٹی سنتے رہے‘ اس کے مقابلے میں یہ شہد بھری میٹھی باتیں کیا انہیں اچھی نہیں لگیں گی؟ انہیں کم از کم یہ تو ماننا ہی چاہئے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد مودی بحیثیت انسان کچھ اونچے اٹھے ہیں۔ مودی کو آپ اس اونچائی سے کیوں محروم کرنا چاہتے ہیں؟پورے چناؤ مشن کے دوران کیا مودی نے کبھی کوئی کڑوی بات کہی؟مودی کی اس فراخ دلی کو کیا ہم نظر انداز کر دیں گے کہ انہوں نے اپنی حلف برداری تقریب میں نواز شریف کو بلایا؟اب مودی جب خود ہی دوستی‘ نیک خوئی اور انسانیت کا ہاتھ آگے بڑھا رہے ہیں تو اسے جھٹک دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ مودی کے مندرجہ بالا بیان کا اثران ملکوں پر اچھا پڑے گا‘ جو 2002 ء کے گجرات دنگوں کی وجہ سے مودی کے خلاف ہو گئے تھے۔ امریکا اوربرطانیہ نے انتخابات سے پہلے ہی اپنے تعلقات مودی سے سدھارنا شروع کر دیے تھے‘ اس ڈر سے کہ وہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں لیکن یہ بیان ایسا ہے ‘جو حقیقت میں مودی کے بارے میں دنیا اچھا تصور کرے گی۔ 
مودی کا یہ بیان کٹر ہندوپنے کی مروجہ تعبیر کو بھی رد کرے گا۔ ہندوستان کیلئے جو جیئے مرے گا‘اس سے بہتر ہندو کون ہو سکتا ہے؟ اس نظریہ سے مسلم بھی ہندو ہی ہوئے‘ ویر ساورکر کے معنے میں بھی! جس کے والدین یعنی بزرگوں کی دھرتی بھارت ہی ہے‘ اس کی حب الوطنی پر کون گمان کر سکتا ہے؟ مودی کو خود چاہئے کہ وہ اپنے اس شتابی بیان پر گہرائی سے سوچیں اور اس میں کچھ ایسے سراغ نکالیں ‘ جن سے ہندوپنے کی شرح وہی ہو جائے‘ اتنی ہی وسیع ہو جائے جتنی ویر ساورکر چاہتے تھے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں