چین کے صدر ژی چن پنگ کا بھارتی دورہ کیسا رہا‘ اس کا جواب میں یہ دیتا ہوں کہ وہ بھارت کا دورہ نہیں جنوب ایشیا کا دورہ تھا۔ اس میں پاکستان ‘مالدیپ اور سری لنکا پہلے تھے اور بھارت سب سے بعد میں تھا۔ ژی پاکستان اس لیے نہیں جا پائے کہ وہاں عوامی تحریک نے کافی بدنظمی پھیلا رکھی تھی ۔نیپال اور بنگلہ دیش میں بھی اندرونی مسائل ہیں ‘ورنہ کیا پتہ کہ لگے ہاتھ چینی صدران ملکوں میں بھی ہو آتے ۔
اگر چینی صدر کی توجہ بھارت پر مرکوز ہو تی تو پہلی بات یہ کہ ان کے آنے کے ہفتے دو ہفتے پہلے سے لداخ میں چل رہی کھینچا تانی بند ہو جاتی۔کیا ان کے فوجی کمانڈروں کو اتنی بھی سمجھ نہیں ہوگی کہ ان کے صدر جب بھارت میں ہوں گے ‘تب چینی مداخلت کاروں کی خبریں جم کر اچھلیں گی ۔تِل کا درخت بنے گا اور سارے دورے پر پانی پھر سکتا ہے۔ دورے پر پانی تو نہیں پھرا‘ کیونکہ ژی کے دلی پہنچتے ہی بھارتی علاقوں میں داخل ہوئے چینی فوجی واپس لوٹ گئے۔ ژی کے دورے کے دوران چینی فوجیوں کا بھارتی حدود میں داخل ہونے کا ایک مطلب اور بھی نکالا جا سکتا ہے ۔وہ یہ کہ چینی فوج من مانی کرتی ہے ۔اسے اپنے لیڈروںکی پروا نہیں ہے۔ اگر حال یہی ہے تو سرحدی تنازع کا حل ہوا میں ہی لٹکا رہنے والا ہے۔ نریندر مودی کتنے ہی تیر چلائیں‘ اکسائی چن میں چینی چڑیا چہکتی ہی رہے گی۔ مودی نے سرحدی تنازع کے حل کی گزارش کر دی اور ژی نے تسلی دے دی ۔دونوں نے چھٹی پائی ۔
اگر بھارت کے ساتھ چین حقیقت میں کوئی الائنس جیسا بٹھانا چاہتا ہوتا تو مالدیپ اور سری لنکا جاکر ژی یہ کیوں کہتے کہ ان ملکوں کے اندرونی معاملات میں وہ کسی بھی باہری ملک کی مداخلت کو رد کرتے ہیں ؟یہ باہری ملک کو ن سا ہو سکتا ہے ؟نام لئے بنا ہی ژی نے بھارت کو گھسیٹ لیا ۔بھارت نے مالدیپ اور سری لنکا میں ہی نہیں ‘نیپال اور بنگلہ دیش میں بھی فوجی مداخلت کی ہے لیکن ان کے عوام اور سرکار کی باقاعدہ درخواست پر ایسا کیا ہے۔اگر نیپال کے بادشاہ تربھون‘بنگلہ دیش کے لیڈر شیخ مجیب‘ سری لنکا ئی بندرانائیکے اور جے وردھنے اور مالدیپ کے قیوم کی درخواست پر بھارت اپنی فوج نہ بھیجتا تو ان ملکوں میں خانہ جنگی اور لاقانونیت پھیل جاتی۔اب بھارت کے ان سب پڑوسی ملکوں میں چین اپنی اکانومی قوت اور سیاسی موجودگی بڑھا رہا ہے۔ اپنی جنگی پوزیشن کو مضبوط کرنے کیلئے انہیں سمندری ریشم راستہ کا سبز باغ بھی دکھا رہا ہے ۔ ژی نے دعویٰ کیا ہے کہ چین ان جنوب ایشیا ئی ملکوں کے ساتھ اپنی تجارت ایک سو پچاس بلین ڈالر تک بڑھانا چاہتا ہے یعنی وہ پورے جنوبی ایشیا پر چھا جانا چاہتا ہے ۔
پاکستان کے ساتھ چین کے گہرے تعلقات کی وجہ کیا ہے؟ صرف یہی کہ پاکستان سے بھارت کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ اگر چین حقیقت میں بھارت کے ساتھ دوستی قائم کرنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے بھارت اور پاکستان کی دوستی کروانی چاہئے۔ اگر اس جانب وہ کوئی قدم اٹھائے تو چین بھارت کا ہی نہیں ‘پورے جنوبی ایشیا کا دوست بن جائے گا۔ تب چین کے ارادوں پر کوئی شک نہیں کرے گا۔ چین نیپالی سرحدوں پر سڑکیں بنا رہا ہے‘ سری لنکا کی ہمبن بندرگاہ بنا رہا ہے ‘مالدیپ کا مالی ہوائی اڈہ بنا رہا ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ بھارت سرکار چین کے ان بہروپیا پینتروں کو نہیں سمجھتی۔ اس نے چینی ڈیلی گیشن کازبردست استقبال کیا۔ ایسا استقبال تو ہندی چینی بھائی بھائی کے دور میں وزیراعظم چائو این کا بھی نہیں ہوا تھا ۔احمدآباد کی' جھولا چال‘پر کچھ وطن پرست ناراض دکھائی پڑتے ہیں لیکن یہ ان کی نادانی ہے ۔وہ 1962 ء کی یاد دلاتے ہیں اور وہ پارلیمنٹ کی بات کا حوالہ اٹھاتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کوئی بھی ملک اپنی تاریخ سے چپکا نہیں رہ سکتا ۔نئی تاریخ بنانا بھی اس کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔اگر نریندر مودی میں تاریخ کی سمجھ نہ ہوتی تو وہ موجودہ زمانے کی پھسل پٹی پر پھسل جاتے‘ لیکن وہ پھسلے نہیں۔ انہوں نے سرحدی تنازع کا حل‘ سرحدی مداخلت‘ چین کی دو منہ والی ویزا پالیسی ‘تجارت اور بھی کئی معاملے اٹھائے ۔ان معاملات کو طول نہیں دیا۔ اچھا کیا۔ وہ چاہتے تو تھوڑی ہمت اور کرتے۔ تبت کا مسئلہ بھی اٹھا دیتے۔ اس پر ژی بھڑک سکتے تھے لیکن تبت کی بات اتنی ترکیب سے کی جاسکتی تھی کہ وہ مودی کے احسان مند بن جاتے۔ اس وقت تبت چین کے گلے کی پھانس بنا ہوا ہے۔ افغانستان پر دونوں نے بات کی ہے لیکن کیا کی ہے‘کچھ پتہ نہیں چلا۔بھارت اور چین چاہتے تو دہشتگردی کے خلاف ایک زوردار مورچہ بھی بنا سکتے تھے ۔
دوسرے الفاظ میں دونوں ملک کے بیچ اہم سیاسی مسائل جوں کے توں کھڑے ہیں۔ انہیں حل کرنے میں چین کی کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے ۔اس نے آج کل بڑے آدمی کا بانا اختیار کیا ہوا ہے۔ اس کیلئے آج ڈالرانند ہی برہمانند ہے۔دونوں ملکوں کے بیچ اقتصادی اور تہذیبی تعاون کے جونئے نئے راستے کھلے ہیں‘ درجن بھر سمجھوتے ہوئے ہیں‘ وہ اپنے آپ میں ایک نمونہ ہیں۔ پاکستان اس نمونے کی پیروی کرے ‘یہ بات ہم پاکستان کے لیڈروں کو سمجھاتے ہیں ۔بھارت پاک تعلقا ت بھی بھارت چین تعلقات کی طرح سیاسی نااتفاقی کے باوجود‘آگے کیوں نہیں بڑھ سکتے؟ چین نے بھارت میں بیس بلین ڈالر انویسٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔یہ اونٹ کے منہ میں زیرا بھی نہیں ہے۔اتنا پیسہ تو پانچ سال کی تجارت میں چین بھارت سے یونہی کما لے جائے گا۔ سرمایہ کاری سے تو وہ الگ کمائے گا ۔جاپان اور چین سے مقابلہ کرکے بھارت اپنا فائدہ کرنے میں ناکام رہا ‘یہ تھوڑی ناامیدی کی بات رہی لیکن اس میں شک نہیں کہ دونوں ملک اگر سچے دل سے باہمی اتفاق کریں تو چین 'دنیا کی انڈسٹری‘اور بھارت 'دنیا کا دفتر‘بن سکتا ہے۔ اب دونوں ملک فلم‘ ریل‘ ادویات‘ خلا‘ جوہری توانائی پروگرام ‘تعلیم وغیرہ کے میدان میں تعاون بڑھائیں گے تو یقینا ان میں سیاسی بردباری بھی بڑھے گی۔ کیلاش مانسروور کیلئے ناتھولا راستہ کھولے جانے سے چین کی واہ واہ ضرور ہوگی۔
یہاں قابل تعریف بات یہ بھی ہوئی ہے کہ بھارتیوں کو چینی زبان سکھانے کیلئے پانچ ہزار چینی استادبھارت آئیںگے۔دس ہزار بھارتی طلباء کو چینی اسکالرشپ ملے گی۔اس سے تجارت اور سیاح کئی گنا بڑھ جائیں گے۔ اب تک تجارتی چال ڈھال سے چین کا بہت زیادہ فائدہ ہوتا رہا ہے لیکن اب لگتا ہے کہ بھارت کو بھی کافی فائدہ ہونے لگے گا ۔کیا پتہ‘دونوں بڑے ایشیائی ملکوں کے اکانومی فائدے اتنے زیادہ گھل مل جائیں کہ دنیاکی سیاست کو بھی نئی سمت دینے لگیں؟فی الحال تو چین کی سیاست پر دولت کمانے کا خمار ہی سوار ہے۔
(ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک بھارت کی کونسل برائے خارجہ پالیسی کے چیئرمین ہیں)