مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی (ماکپا) میں آج کل کافی گہرا سوچ وچار چل رہا ہے ۔1978ء میں جالندھر اجلاس میں اس نے جو راستہ پکڑا تھا ‘اسے اب وہ چھوڑنا چاہتی ہے ۔وہ راستہ کیا تھا ؟وہ راستہ تھا‘غیر بی جے پی پارٹیوں سے اتحادکرنے کا !بی جے پی کو وہ فرقہ واریت اور تنگ نظر‘ رجعت پسند پارٹی مانتی تھی ‘جبکہ اسے کانگریس ‘سماج وادی پارٹی‘انادرمک‘جنتادل وغیرہ سبھی پارٹیاں قابل قبول تھیں۔کسی پارٹی کے ساتھ وہ سرکار میں شامل ہوئی اور کسی کو اس نے باہر سے حمایت دی۔
اس تال میل سے سیاست کا نتیجہ کیا نکلا ؟اب 2014ء کے چنائو میں اس اکیلی بھارتی پارٹی کے صرف نو ممبر رہ گئے۔ صرف بنگال‘ کیرل اور تری پورہ میں اسکا اثر بچا رہ گیا ہے‘وہ بھی بہت پھیکا پھیکا۔ اس کے صدر پرکاش کارت نے اب نیا ''تھیسز‘‘ اختیار کر لیا ہے ۔وہ چاہتے ہیں کہ پارٹی کی صفائی ہو ۔وہ کسی بھی بورژوا اور سامت وادی (سرمایہ دار) پارٹی سے ہاتھ نہ ملائے ۔وہ اپنے دم پر سیاست کرے ۔کارت کی اس پالیسی کو دستور کے خلاف بتاتے ہوئے سیتا رام ییچوری نے کہا ہے کہ پرانی پالیسی ٹھیک ہے۔ وہ ٹھیک تھی ‘اس لئے 2004 ء کے لوک سبھا چناومیں ماکپا کو44نشستیں مل گئی تھیں اور اس کے سربراہ ہری کشن سنگھ سرجیت کی گنتی ملک کے بڑے لیڈروں میں ہونے لگی تھی۔اب بھی ماکپا چاہے تو غیر بی جے پی اور غیر کانگریسی مورچہ کھڑا کر سکتی ہے ۔
مندرجہ بالادونوں نظریے اپنی اپنی جگہ ٹھیک لگتے ہیں لیکن دونوں میں ایک بنیادی خامی ہے ۔دونوں صرف باہری مدعوں پر خیال کر رہے ہیں یعنی پارٹی چناو جیتنے کیلئے کسی سے اتحاد کرے یا نہیں ؟اندرونی مدعوں پر کوئی بحث نہیں ہے ۔ماکپاکی تشکیل کیا انتخابات لڑنے کیلئے ہوئی تھی؟اگر آپ کہیں ہاں تو مارکس کو خود کشی کرنی پڑے گی ۔تب آپ میں اور بورژوا پارٹیوں میں کیا فرق رہ گیا؟ آپ انقلاب کیلئے پیدا ہوئے ہیں یا دیگر پارٹیوں کی طرح کرسی توڑنے کیلئے ؟
اگر آپ کا ہدف سب کی آزادی کیلئے ہے تو سب سے پہلے یہ سمجھئے کہ بھارتی سماج کا چلن کیسا ہے؟اسے آج تک آپ جرمن‘ روسی اور چینی عینک سے دیکھتے رہے۔ اسے آپ ذرا ویر ساورکر‘ گاندھی‘ لوہیا اور ڈاکٹر امبیدکرکی نظر سے بھی دیکھئے۔ان لوگوں سے پوری طرح مطمئن نہ ہوں لیکن ان کی چلائی ہوئی تحریکوں میں سے کچھ پکڑ لیجئے۔آپ جیسے دانا اور ایماندار لوگ ملک کی کسی بھی پارٹی میں نہیں ہیں ۔اگر آپ لوگ چاہیں تو دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر یا اکیلے ہی44 نہیں 444 نشستیں جیت سکتی تھیں ۔اب تو ماکپا کیلئے اتحاد کا سوال خاص نہیں ہے ۔اصلی سوال تو یہ ہے کہ وہ خود ہی بورژوا اور کرسی توڑ پارٹی بنتی جا رہی ہے۔ یعنی اُس نے انقلاب کی راہ ترک کر کے اقتدار کو مقصود بنا لیا ہے۔
کانگریس میں لیڈر بدلیں یاپالیسی؟
پی چدم برم نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ۔انہوں نے کہہ دیا کہ کانگریس میں ماں ،بیٹا راج ختم بھی ہو سکتا ہے ۔ان کے اس جرأت مندانہ بیان پر کوئی رد عمل نہیں دیکھا جا رہا ہے،کیوں نہیں دیکھا جا رہا ہے ؟کیونکہ سبھی کانگریسی مجبور ہیں ۔وہ کیا کریں انہیں پتہ ہے کہ سونیا اور راہول کے بنا ان کا کام ایک دن بھی نہیں چل سکتا۔ وہ ایسا ہی جیسا کہ لقوہ متاثرہ مسافروں کی بس کا خطرناک حادثہ ہو جائے اور ان میں ایک مسافر اس خواہش کا اظہار کرنے لگے کہ اس بس کے ڈرائیور اور کنڈکٹر کو بدل دیا جائے ۔اس بس میں سبھی فالج کے مریض ہیں‘صرف ڈرائیور اور کنڈکٹر کے علاوہ !اگر آپ دونوں کو بدل دیں تو بدل دیں لیکن پھر بنیادی سوال یہی ہے کہ اس بس کو چلائے گا کون ؟کیا فالج متاثرہ مسافروں میں سے کوئی مسافر اسے چلا سکتا ہے ؟ کیا کسی بھی ایک مسافر کو آپ ڈرائیور کی سیٹ پر بٹھا سکتے ہیں؟نہیں !تو پھر بیچارے کانگریسیوں کو کیوں قصور دے رہے ہیں کہ وہ کچھ کرتے کیوں نہیں ؟
سارے کانگریسی اس بات کو بخوبی جانتے ہیں ‘جسے سارا ملک جانتا ہے۔وہ اس بات کو ملک سے بھی زیادہ جانتے ہیں ‘کیونکہ کہ وہ جھیل رہے ہیں ۔ملک صرف دور سے جانتا ہے ۔دور سے نظارہ کرتا ہے ۔لیکن کانگریسی کارکن تو اپنے بھوندوُ باباکی کلاکاری نزدیک سے روز دیکھتے ہیں ۔وہ سب اقتدار کے محبتی ہیں ۔وہ اقتدار کا چین لیتے رہیں ‘پس انکی خواہش اتنی ہی ہے ۔انکا لیڈر بھوندو ہے ‘مسخرا ہے ‘للو ہے‘تو کیا ہوا ؟سب کو عادت پڑ گئی ہے اس کے سامنے جھکنے کی۔جی حضوری کرنے کی ‘خوشامد کرنے کی ‘الگ الگ طریقوں کے پالش کی ۔اب اقتدار چلا گیا ہے اور چلتا جا رہا ہے ‘کھسک رہا ہے تو بھی کارکن کیا کریں ؟وہ اپنی پرانی عادت کے غلام ہو گئے ہیں ۔وہ اپنی عادت کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتے۔آقا کے خلاف بغاوت کرنے کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا۔
ہو سکتا یہ تحریر پڑھ کر ان کی روح بیدار ہو جائے اور وہ بغاوت کر ہی دیں تو کیا ہوگا ؟وہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچیں گے اور کانگریس پارٹی کے ہزار ٹکڑے ہو جائیں گے ۔ایسا ہونا ملک کی بد قسمتی ہو گی ۔ہماری جمہوریت ڈوبتے کھاتے میں لگ جائے گی ۔تو کیا کیا جائے ؟لیڈر بدلنے کے بجائے پالیسی بدلیں۔ کانگریس کو صرف اقتدارکے کام میں نہیں ‘خدمت اور تبدیلی کے کام میں لگائیں ۔گاندھی ‘نہرو اور لوہیا کے کام میں جٹائیں ۔پارٹی تو زندہ ہی ہو جائے گی ‘یہی سڑی گلی رہنمائی بھی چمک اٹھے گی ۔کانگریس زندہ پارٹی بنی نہیں کہ اس کا لقوہ ختم ہو جائے گا ۔جدوجہد کی خوراک پر پلنے والی پارٹی لقوہ میں مبتلارہ نہیں سکتی۔ملک کی جمہوریت بھی محفوظ ہو جائے گی ۔
موہن بھاگوت کی وارننگ
آر ایس ایس کے رہنما موہن بھاگوت نے لکھنؤ میں کیاوزن داربات کہی ہے ۔وہ اپنی جماعت کے کارکنان کو خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا ''جب تک سماج ساتھ میں کھڑا نہیں ہوتا‘ لیڈر ‘نعرہ ‘پارٹی ‘سرکار اور معجزہ سے معاشرہ کا اچھا نہیں ہو سکتا ‘‘
اس قول کا مقصد کیا ہے ؟بہت ہی عمیق مقاصد ہیں‘اس کے! سب سے پہلا تو یہ کہ سرکار کے مقابلہ میں سماج بڑا ہے ۔لوگ سرکار کی چکاچوند میں ایسے پھنس جاتے ہیں کہ وہ سماج کو بھول جاتے ہیں۔ سماج تو گلیشیئر کی طرح ہوتا ہے۔ گلیشیئر کا تین چوتھائی حصہ پانی کے اندر ہوتا ہے اور ایک چوتھائی باہر! جو باہر ہوتا ہے ‘وہ سیاست ہے اور جو اندر ہوتا ہے‘وہ سماج ہے۔ہم سیاست کو اتنا اہم ماننے لگتے ہیں کہ پوری طرح اس پر نربھر ہو جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سماج کی ساری برائیاں قانون سے دور ہو جائیں گی سرکار چاہے گی تو زمیں پر بہشت اتار لائے گی ۔وزیر اعظم ملک کا سب سے بڑا آدمی ہے ۔اسکی قوت اور اثر سے سب کچھ بدلا جا سکتا ہے ۔کرشمہ ہو سکتا ہے ۔موہن بھاگوت کے بیان سے یہ نادانی دور ہوتی ہے۔ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کسی لیڈر کو تو کیا‘ کسی پارٹی اور کسی سرکار کو اچھا کرنے کیلئے سماج کو ہی بیدار ہونا پڑے گا ۔یہ کام آر ایس ایس ‘آریہ سماج ‘سروادیہ‘رام کرشن مشن جیسے ادارے ہی کر سکتے ہیں ۔سرکار اور لیڈرصرف حالات بدلنے پر زور دیتے ہیں جبکہ سماج بدلنے کیلئے لو گوں کی نفسیات بدلنا ضروری ہوتا ہے ۔
موہن بھاگوت کی اس بات کو وارننگ کی طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے ۔اس وقت جبکہ سارا میڈیا بی جے پی بی جے پی‘مودی مودی اور امیت شاہ امیت شاہ کی مالا جپ رہا ہے ‘موہن جی کا کہنا ہے کہ اے‘وطن کے لوگو تم اس چمکدار ڈھکن سے گمراہ مت ہو جانا۔ یہ سیاست تو صرف ڈھکن ہے ‘سچ کا سبیل جس گھڑے میں بھرا ہے ‘اسکا نام سماج ہے ۔یہی بات انہوں نے سنگھ کے بنگلور اجلاس میں کہی تھی کہ نمو نمو کا ذکر کرنا میرا کام نہیں ہے ۔آر ایس ایس کا ہدف کسی لیڈر یا پارٹی کے حوالہ ہونا نہیں بلکہ بھارتی سماج کو پر جلال اور رونق دار بنانا ہے۔ملک کی عبادت سب سے پہلے ہے ‘پارٹی پرستش یا لیڈر پرستش نہیں۔