"DVP" (space) message & send to 7575

دونوں کیلئے نقصان کا سودا

وزیر اعظم نریندر مودی شو سینا کے ساتھ جو آج کل برتاؤ کر رہے ہیں سیاست میں ہمیشہ ایسا کیا جاتا ہے کیونکہ سیاست بنیاد سے ہی اقتدار کا کھیل ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو پارٹی کل تک مہاراشٹر میں ساس بنی ہوئی تھی وہ آج بہو کا کردار کیسے ادا کرے۔ شو سینا پٹنے کے باوجود اپنے پرانے نخروں پر مصر ہے ۔اب بھی وہ بی جے پی پر حکم چلانا چاہتی ہے۔ اسے مہاراشٹر کی وزارتوں میں سے فلاں فلاں وزارتیں چاہئیں‘ اتنی چاہئیں اور نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ بھی چاہئے ۔یہ سب فرمائشیں کون پوری کر سکتا ہے ۔لیکن اودھو ٹھاکرے کو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے ۔وہ اپنا سلوک‘ حالات کے مطابق سدھارنا نہیں چاہتے اور برابر دھمکیاں دیتے چلے جا رہے ہیں ۔اب انہوں نے بی جے پی کو دو دن میں اپنی چال پر دوبارہ سوچنے کی مہلت دی ہے ۔
شو سینا ڈال ڈال تو بی جے پی پات پات !بی جے پی اب بھاجپا نہیں ہے ‘مودی پارٹی ہے اس پارٹی میں کوئی بھی اپنی مرضی سے رس گلا نہیں کھا سکتا۔ جب بی جے پی کے نہایت طاقتور لوگ ہی ٹھکانے لگ گئے ہیں تو بیچارے اودھو ٹھاکرے کو کون پوچھے گا ۔اس نے اودھو کو ایسا ڈنڈا جمایا ہے کہ ایسا کبھی انہوں نے سوچابھی نہیں ہوگا ۔اچانک سریش پربھو کو وزیر بناکر نریندر مودی نے نہلے پہ دہلا مار دیا ہے یا یوں کہیں تو بہتر ہوگا کہ اینٹ کے جواب میں شوسینا کے سر پر چٹان گرا دی ہے۔ شو سینا کے نامزد انل ڈیسائی کو مملکتی وزیر بناکر اودھو کو اپنی اوقات بتا دی اور سریش پربھو کو کابینہ کا وزیر بناکر ایسا طمانچہ مارا ہے کہ اب شو سینا بولے تو کیا بولے؟ اس کی بولتی بند کر دی ہے ۔
اب شو سینا یا تو پست ہوکر نریندر مودی کی پناہ میں جائے گی یا پھر اپوزیشن میں بیٹھے گی‘ دلی میں اور ممبئی میں ۔اننت گیتے کو واپس لے گی اور پھڑن ویس سرکار کو گرانے کی کوشش کرے گی ۔اگر راشٹر وادی کانگریس کے بھروسے بی جے پی کی مہاراشٹرسرکار چلے گی تووہ کچھوے کی سواری ہوگی۔ بی جے پی کو اس کی ایسی قیمت چکانی ہوگی کہ اس کی شان چکناچور ہو جائے گی ۔اس سے بہتر تو یہی ہے کہ اسمبلی برخاست کر کے دوبارہ چناو ٔ میں کودا جائے۔یہی اچھا ہوتا کہ مودی تھوڑی فراخدلی دکھاتے؟اپنے پچیس سال کے اتحادی کے تھوڑے نخرے اور برداشت کر لیتے ۔اودھو ٹھاکرے سے بات کر کے سنٹرل گورنمنٹ میں کوئی پورا وزیر بنا دیتے تو ان کا کیا بگڑتا لیکن انانیت پسندوں کی یہ لڑائی بی جے پی اور شو سینا دونوں کیلئے نقصان کا سودا ہوگا۔ 
'میری ذات ہندوستانی‘ کی فتح
سپریم کورٹ نے مدراس ہائی کورٹ کے جس فیصلے کو رد کیا ہے‘ اگر وہ نافذ ہو جاتا تو ملک کیلئے تباہ کن ثابت ہوتا ۔مدراس کورٹ کا فیصلہ یہ تھا کہ ملک میں جو مردم شماری ہوتی ہے اس کی بنیاد ذات ہو۔ذات کی بنیاد پر مردم شماری برٹش سرکار نے 1857 ء کے انقلاب کے بعد شروع کی تھی۔ اس کا ہدف تھا ہندوستانیوں میں پھوٹ ڈالنا۔ ان کے اتحاد کو توڑنا ۔انہیں ذات میں بانٹ دینا ۔بھارتی معاشرے کے اتنے ٹکڑے کر دینا کہ وہ ایک ہوکر کبھی انگریزی سرکار کو للکار نہ دے سکے ۔اسلئے انہوں نے ہر مردم شماری کوبنیاد بنایا ۔
لیکن یہ پینترا زیادہ چلا نہیں ۔گاندھی جی کی سربراہی میں ملک ایک ہو گیا اور برطانیہ سرکار کو کڑا چیلنج ملنے لگا۔ اس کے علاوہ حکمرانوں کو پتہ چلا کہ ذاتوں کے طلسم کو سمجھنا اس کے بس کی بات نہیں ہے،شروع شروع میں ذاتوں کی تعدادسینکڑوں میں تھیں۔ بعد میں وہ ہزاروں میں ہو گئی ۔ہر مردم شماری میں ذات سے ذات پیدا ہوتی گئی۔ اتنی ذاتیں نکل آئیں کہ ان کا گننا مشکل ہو گیا، اتنا ہی نہیں ‘ایک ذات الگ الگ اضلاع اور صوبوں میں الگ الگ ناموں سے جانی جانے لگی ۔ہر ذات اپنے آپ کو اونچادکھانے لگی۔ورن انتظام کی شکل اتنی مضبوط ہو گئی کہ ان کا درست بیورا رکھنا مشکل ہو گیا۔ انگریز نے تنگ آکر 1931ء میں مردم شماری سے ذات کو نکال کر باہر کیا ۔
لیکن کانگریس کی عقل خراب ہوگئی ۔لگ بھگ 80سال بعد اس نے ذات پر مبنی مردم شماری کا دوبارہ اعلان کیا‘جس کی میں نے ڈٹ کر مخالفت کی ۔'میری ذات ہندوستانی‘نام کی میں نے تحریک چھیڑدی۔ ملک کے لگ بھگ سبھی پارٹیوں کے لیڈروں‘ نامی گرامی دانشوروں‘فنکاروں ‘صحافیوں اور سوشل ورکروں کے تعاون سے وہ تحریک کامیاب ہوئی 'سبل بھارت‘ ذریعے چھیڑی گئی اس تحریک کی مانک کو قبول کرتے ہوئے سونیا گاندھی نے مردم شماری سے ذات پات کے چکر کو باہر نکلوا دیا ۔اگر ذات کی بنیاد پر مردم شماری ہوتی تو بھارتی سماج ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ سپریم کورٹ نے ذات پر مبنی مردم شماری کی حمایت میں دیئے گئے سبھی دلائل زوردار طریقے سے مسترد کر دیئے ہیں۔ بھارت کی سیاست سے جس دن ذات پات کی نفرت ختم ہو جائے گی ‘یہاں جمہوریت کو بڑی طاقت ملے گی ۔ 
دلی میں اب کیا ہوگا؟ 
میں نے چار پانچ دن پہلے لکھا تھا کہ اگر دلی کے نائب گورنر نجیب جنگ کوئی سرکار کھڑی کرو ا سکیں تو اگلے صدر کیلئے منتخب کیے جاسکتے ہیں۔ اس کا مطلب کیا تھا؟ یہی کہ وہ ناممکن کو ممکن بنانے میں جٹے ہوئے تھے ۔اب دلی اسمبلی کے برخاست ہونے کے بعد جو چناو ہونگے ‘ان میں سے پھر ترشنکو اسمبلی نکلے گی ‘یہ ماننے کا کوئی جواز نہیں۔ اگرعاپ کی ادھ چکری سرکار ابھی تک چلتی رہتی تو اس بات کا امکان ہو سکتا تھا کہ چناو ہونے پر ترشنکو اسمبلی بن جاتی ‘کیونکہ کہ سال بھر کے اقتدار میں وہ بھی دیگر بد عنوان پارٹیوں کی طرح جم کر پیسہ اکٹھا کر لیتی اور اپنے کچھ نہ کچھ ٹھوس ووٹ بینک بھی بنا لیتی لیکن اپنے 49 دن کے اقتدار میں اس نے اپنے آپ کو اناڑی تو ثابت کیا ہی ‘اپنے سر پر اصولوں کے خلاف ہونے کی مہر بھی لگالی۔جس پارٹی کو بدعنوان کہتے کہتے اس کا گلا سوکھتا تھا ‘وہ اسی کے گلے لگ گئی ۔کانگریس کی حمایت پر ٹکی 'عاپ‘ کی سرکار اپنے ناٹک کی یادیں چھوڑ گئی۔اسکے لیڈروں نے کئی اچھے فیصلے بھی کیے لیکن وہ سب ان کے ناٹکوں کے شور میں دب گئے۔ ظاہر ہے کہ اب جو اسمبلی کے چناو ہوں گے‘ ان میں طاقت اگر نصف بھی بچ جائے تو غنیمت ہوگی۔
لوک سبھا چناو میں سچ پوچھئے تو 'عاپ‘ کو ایک سیٹ بھی نہیں ملی۔پنجاب میں جیتی ہوئی نشستیں امیدواروں کی اپنی ہیں ۔راج موہن گاندھی اور آنند کمار جیسے لوگوں کو ہارنا پڑا۔ 'عاپ ‘ کے ہارنے کی وجہ مودی تھے ۔ مودی کا بخار ابھی اترا نہیں ہے۔یہ ہریانہ اور مہاراشٹر نے ثابت کر دیا ہے ۔دلی اس سے الگ کیسے رہ سکتی ہے ؟دلی کے عوام اب مضبوط سرکار چاہتے ہیں۔ وہ اسے کون دے سکتا ہے ؟صرف بی جے پی !دلی والے بی جے پی کو کیوں نہ سب سے زیادہ پسندکریں گے ‘کیونکہ مرکز میں بھی بی جے پی گورنمنٹ آچکی ہے ۔
کانگریس کی پوزیشن دوسری رہے گی کہ تیسری‘ فی الحال کچھ کہہ نہیں سکتے۔ اگر اس کا مرکزی کرداروہی رہا ‘جو اب تک رہا ہے اور صوبائی کردار بھی اگر زوردار نہیں آتا تو بھی وہ اپنی حالت میں تھوڑا سدھار کر سکتی ہے۔اسے جو بھی فائدہ ہوگا ‘وہ عاپ کو ہونے والے نقصان سے ہو گاعاپ اور کانگریس ایک دوسرے کے ووٹ کاٹیں گی۔ اس کا فائدہ واضح طور پہ بی جے پی کو ہی ملے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں