سری لنکا میں مہندر راجا پاکسے کی ہار ہمیں ونسٹن چرچل کی یا د دلاتی ہے ۔جس طرح چرچل کو دوسری جنگ عظیم کے لیڈر کے طور پر جانا جاتا تھا ‘ایسے ہی راجا پاکسے کو تامل دہشتگردوں کا خاتمہ کرنے والے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ سری لنکا کی تاریخ میں راجا پاکسے کا نام سدا زندہ رہے گا‘ اس میں کسی کو شک نہیں ہے۔ اسی خیال کی بنیاد پر صدر راجا پاکسے نے وقت سے دو سال پہلے ہی مڈ ٹرم چنائو کرو الئے۔ راجا پاکسے جب تک تامل دہشتگردوں اور علیحدگی پسندوں کے خلاف لڑتے رہے‘وہ ملک کے عظیم لیڈر بنے رہے لیکن 2009ء میں سنگھل وجے کے بعدان کے اقتدار اوررہنمائی میں وہ سب برائیاں رفتہ رفتہ گھر کر گئیں‘ جو ان کی ہار پر منتج ہوئیں۔ وہ اپنے مہا نائیک ہونے کے زعم میں مبتلا ہو گئے اور نہ صرف تیسری بار صدر بننا چاہتے تھے ‘بلکہ انہوں نے ملک کے کئی اہم عہدوں پر اپنے قریبی رشتے داروں کو لا بٹھایا تھا۔ ان کا یہ کام تانا شاہی جیساتو لگتا ہی تھا‘ انہوں نے صدر کے حقوق میں بھی زبردست بڑھوتری کر لی تھی۔ ان کی پارٹی لگ بھگ پرائیویٹ بن چکی تھی ۔
راجا پاکسے اپنے ان معاملات میں اس قدر مدہوش ہو چکے تھے کہ انہوں نے اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی رائے کی بھی پرواکرنا بند کر دی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ تاملوں کے خلاف چلی جنگ میں زبردست زیادتیاں ہوئی تھیں ۔ان ظالموں اور جنگ کے مجرموں کو سزا دینا تو دور رہالاکھوں امن پسند تاملوں کو آباد کرنے میں بھی ان کی سرکار مدد نہیں کر پائی ۔شمال کے تاملوں کی خود مختاری کا سوال بھی اٹھا کر طاق پر رکھ دیا گیا۔ اس کے علاوہ سری لنکا کے مسلمانوں کے خلاف جب کچھ انقلاب پسندسنگھل جماعتوں نے مار کاٹ کامشن چلایا تو راجا پاکسے سرکارچپ سادھے رہی۔
ان پالیسیوں اور اقدامات کا نتیجہ تھا کہ تامل اور مسلم اقلیتوں نے راجا پاکسے کے خلاف تھوک میں ووٹ دیے۔کچھ سنگھل ‘بودھ جماعتوں نے بھی راجا پاکسے کی مخالفت کی۔ شہری سنگھلوں نے بھی راجا پاکسے کی حمایت نہیں کی۔وہ ان کے غیر جمہوری رویہ سے دکھی تھے۔ ان کے اپنے اعتماد والے وزرا انتخابات کے کچھ پہلے کابینہ سے مستعفی ہو گئے تھے۔ میتری پال سری سینا کے استعفیٰ سے سب سے زیادہ نقصان انہیں ہوا۔ سری سینا 2009 ء میں ان کے وزیر دفاع رہے تھے۔ حالیہ الیکشن میں وہ ان کے خلاف صدارتی امیدوار بن گئے۔سری سینا کی شخصیت راجا پاکسے کی طرح کرشماتی نہیں لیکن راجا پاکسے کے خلاف مندرجہ بالا سبھی عوامل کے متحد ہو جانے سے انہوں نے فتح حاصل کر لی۔ امید ہے ‘وہ یعنی سری سینا‘ تاملوں کو انصاف دلائیں گے اور راجا پاکسے کی طرح چین کی گود میں بیٹھنے کی کوشش نہیں کریں گے ۔اگرچہ مودی سرکار ضرورت سے زیادہ راجا پاکسے کے نزدیک چلی گئی تھی‘ لیکن سری سینا جس انداز میں اندرونی معاملات میں فراخ دلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ امید ہے ویسے ہی وہ اپنی پالیسی کو صحت مند بنائے رکھیں گے۔
پی ڈی پی اور بی جے پی سب سے اچھا اتحاد
جھار کھنڈ کا مسئلہ تو حل ہوگیا۔ وہاں تو بی جے پی کی سرکار بن ہی جائے گی لیکن جموں و کشمیر میں کیا ہوگا؟ وہاں گورنر راج نافذ ہو چکا ہے اور فی الحال سب کچھ غیر واضح ہے۔ اگر گورنر راج جلد ختم کردیا گیا اور حال ہی میں ہونے والے انتخابات میں جیتنے والی پارٹیوں کو حکومت سازی کی دعوت دی گئی تو کیا ہوگا؟ اس پر ساری نظریں لگی ہوئی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ بی جے پی کا44 نشستوں کا تانگہ آدھے راستے جاکر ہی رک گیا۔ اسے بی جے پی کی ناکامی بھی مانا جاسکتا ہے۔اسے مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کے منہ پر تمانچہ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن جموں و کشمیر میں بی جے پی کو غیر یقینی کامیابی ملی ہے ۔اگر بی جے پی وہاں ناکام ہو گئی ہے‘ تو اس پارٹی کانام بتائیے جو کامیاب ہوئی ہے ؟جو سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے ‘وہ کتنی بڑی ہے؟ اس کی صرف تین سیٹیں ہی زیادہ ہیں۔ اگربی جے پی 25 تو پی ڈی پی 28 ہے ۔دوسرے الفاظ میں کشمیر میں کوئی نہیں جیتا ۔سب ادھورے لٹکے ہوئے ہیں ۔لٹکن بھی ایسی کمال کی ہے کہ کوئی بھی دو پارٹیاں مل کر سری نگر میں سرکار نہیں بنا سکتیں‘ سوائے اس کے کہ پی ڈی پی اور بی جے پی مل کر بنائیں۔ اگر بی جے پی اور پی ڈی پی کا اتحاد نہیں بنتا‘ تو جو بھی اتحاد بنے گا وہ دو سے زیادہ پارٹیوں کا بنے گا ۔اقتدار کی پیاسی پارٹیاں یہ بھی کر سکتی ہیں لیکن ایسی کھچڑی سرکار کتنے دن چلے گی اور وہ کیسے چلے گی ؟
اس لئے ضروری ہے کہ پی ڈی پی اور بی جے پی مل کر سرکار بنائیں ۔اگر وہ اسمبلی میں ایک دوسرے کے خلاف بیٹھیں گے تو یہ کشمیر کیلئے اور پورے بھارت کیلئے اچھا نہیں ہوگا ۔بی جے پی سرکار صرف جموں کی قیادت کرے گی اور پی ڈی پی صرف کشمیر کی وادی کی۔ پورے جموں و کشمیر کی سیاست کے دو ٹکڑے ہو جائیں گے ایک ہندو ٹکڑا اور دوسرا مسلم ٹکڑا ۔اگر ایسا ہوا تو پھر ہولی کشمیر کی ترقی۔ کشمیر دو حصوں کے بیچ پستا رہے گا‘ جبکہ ضروری یہ ہے کہ آج کا کشمیر ہندو مسلم اتحاد کی مثال بنے۔یہ بھارت کی خارجہ پالیسی یا پاکستان کی پالیسی کو بھی طاقتور بنا ئے گا۔
مرکز میں بی جے پی کی سرکار ہے اس کا سیدھا فائدہ پی ڈی پی کی صوبائی سرکار کو ملے گا‘ کشمیر کو ملے گا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے دیپاولی کا دن سیلاب متاثرین کے ساتھ بِتاکر ان کی غیر معمولی مدد کر کے ‘پشاور کے معصوم بچوں کے قتل عام پر ہمدردی کا اظہار اور میاں نواز شریف کو اپنی حلف برداری تقریب میں بلا کر ایک ایسا ماحول پیدا کیا ہے ‘جس کے سبب پی ڈی پی کو بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے میں کوئی گمان نہیں ہونا چاہئے ۔
ویسے بی جے پی چاہے تو جوڑ توڑ کر کے اپنی سرکار بنا سکتی ہے‘ پی ڈی پی کو کنارے لگا سکتی ہے لیکن ایسا کرنا بھارت سرکار کیلئے ہمیشہ سر درد بن سکتا ہے لیکن کبھی کبھی ایسا کرنا ضروری ہو جاتا ہے ۔اگر بہت اچھا ہاتھ نہ لگے توصرف اچھے سے ہی کام چلانا پڑتا ہے ۔
پاک بھارت: نیا باب
پشاور کے سانحہ نے پاکستان کے عوام کو بیدار کر دیا ہے اس میں ذرا بھی شک نہیں۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی عام آدمی ہوگا‘ اس واقعے سے جس کا دل نہ دہل گیا ہو۔ لگتا ہے پاکستان کے عوام اب پوری طرح سے دہشتگردوں کے خلاف ہوگئے ہیں۔ شاید اسی لئے وزیر اعظم نواز شریف نے پہلی بار یہ کہا ہے کہ طالبان‘طالبان ہیں‘ ان میں اچھا برا کوئی نہیں ہے‘ نرم گرم کوئی نہیں ہے‘ جب تک دہشت گردوں کا مکمل طورپر صفایا نہیں کردیا جائے گا‘ ان کی سرکار چین سے نہیں بیٹھے گی ۔پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف طالبان کے خلاف کارروائی کے سلسلے میں اور بھی زیادہ سنجیدہ دکھائی دیے۔وہ سانحہ پشاور کے دوسرے ہی روز کابل چلے گئے جہاں انہوں نے افغانی صدر اشرف غنی سے ملاقات کی اور ان سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے کہا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے سبھی پارٹیوں کے ساتھ بیٹھک کی ‘اس میں عمران خان جیسے طالبان محبتی لیڈروں نے بھی حصہ لیا۔ سبھی پارٹیوں نے ایک ہفتہ میں ایسی پالیسی بنانے کا ارادہ کیا ‘جو دہشتگردوں کا صفایا کر سکے ۔ یہ پالیسی اب بن چکی ہے اور عمل درآمد کی منتظر ہے۔
بھارت کے عوام نے پشاور واقعہ پر پاکستان کے عوام کے ساتھ ان کے دکھ کو پوری شدت سے محسوس کیا۔ شاید دونوں ملکوں کی تاریخ میں آپسی جذبات کا یہ پہلا موقع ہے ۔کروڑوں بھارتی بچوں نے اپنے پاکستانی بھائیوں کی لئے خاموشی اختیارکر رکھی ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ نے بھی گہرے رنج وغم کا اظہار کیا اور وزیر اعظم مودی نے بھی عمیق انسان ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ واقعہ دونوں ملکوں کی تاریخ میں اب نئے باب کا آغاز کرے گا۔