"DVP" (space) message & send to 7575

دُور کا ڈھول بجایا اوباما نے

امریکی صدر اوباماچار سال میں دوسری مرتبہ بھارت آئے۔ یوں تو آئزن ہاور‘ نکسن ‘کارٹر‘کلنٹن اور جارج بش وغیرہ کئی امریکی صدر بھارت آ چکے ہیں لیکن اپنے اقتدار میں دوبار بھارت آنے والے اوباما پہلے امریکی صدر ہیں۔یوں بھی امریکی لیڈر بھارت کے ساتھ ساتھ ہمیشہ پاکستان بھی جاتے ہیں یا اسے الٹ کر بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ پاکستان جاتے جاتے بھارت پر بھی مہربانی کر دیتے ہیں لیکن اوباما اس بار صرف بھارت ہی آئے۔ اس سے بھی بڑی بات یہ کہ وہ یوم جمہوریہ کے خاص مہمان تھے۔وہ خود حیران ہیں کہ انہیں بھارت کا سب سے بڑا مہمان اس آدمی نے بنایا ہے‘ جسے امریکہ نے لگ بھگ ایک دہائی ویزا دینے سے انکار کیے رکھا۔ نریندر مودی یہ کیسے بھول سکتے تھے کہ اوباما نے انہیں وزیراعظم بننے پر مبارکباد دینے میں پہل کی اور چار ماہ پہلے اوباما نے واشنگٹن میں مودی کازبردست استقبال کر کے دونوں ملکوں کے بیچ نئی پہل کا آغاز کر دیا تھا۔
جہاں تک عالمی سطح پر سیاسی مسائل کا تعلق ہے ‘امریکہ کوسب سے پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ ایشیا کی سیاست کی اکیسویں صدی میں شکل کیسی ہوگی ؟کیا وہ ایشیا کوچین کے حوالے کر دے گا؟ یہ ٹھیک ہے کہ ایشیا میں چین کے کردار کی اہمیت ہے لیکن کیا اوباما اب بھی چین کو ایشیاکا رہنما مانتے ہیں؟یہ ٹھیک ہے کہ چین امریکہ تعلقات نہایت گہرے اور وسیع ہیں لیکن چینی اکانومی کی گراوٹ کے تازہ اعلانوں سے امریکہ کچھ سبق لے گا یا نہیں ؟بھارت کے سنہرے مستقبل کی روشنی میں وہ ایشیا میں بھارت کے خاص کردار کو اہمیت دے گا یا نہیں ؟
دوسرا ‘میں پوچھتا ہوں کہ جنوب ایشیا میں بھارت کا وہی کردارکیوں نہیں ہونا چاہئے‘ جو امریکہ کا‘ شمالی اور جنوبی امریکہ میں اپنے ہمسایہ ممالک میں ہے؟ بھارت اپنے سارے پڑوسیوں کو ملا دینے پربھی ان سے بڑا ہے۔ بھارت کے سبھی پڑوسی ممالک صدیوں سے بھارت کا انگ رہے یا بھارت ان کاحصہ رہا۔ امریکہ نے جیسے یورپی ریاستوں کا اتحادبنانے میں مدد کی ‘ویسے ہی وہ 'سارک‘ کی مدد کیوں نہیں کرتا؟ آجکل سارک میں آٹھ ملک ہیں ۔انہیں 16 کیوں نہ کر لیا جائے؟ ان میں برما‘ ایران‘ ازبکستان‘ قازقستان‘ کرغیزستان‘ تاجکستان‘ ترکمانستان اور ماریشئس کو بھی کیوں نہ جوڑ لیا جائے؟ یہ سبھی ممالک قدیم آریہ ورت کا حصہ ہیں۔ ان کا اتحاد دنیا کے کسی بھی اتحاد سے کمزور نہیں ہوگا۔
تیسرا‘ جنوب ایشیاکے اتحاد اور خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑا روڑابھارت پاک تعلقات ہیں ۔پچھلے کچھ سالوں تک امریکہ نے دونوں ملکوں کے بیچ طاقت کے فرضی اور خیالی توازن کا اصول اپنا رکھا تھا۔ اسی سبب بھارت پاک جنگ ہوئی اور دہشتگردی پھیلی۔ اب جبکہ دہشتگردی نے خود امریکہ کا ٹینٹوا کسا تو امریکہ کو تھوڑا ہوش آیا۔امریکہ نے پاکستان کواپنا مہرہ اور آلۂ کار بنایا۔ اب امریکہ نے دہشتگردی کے خلاف جو تازہ مؤقف اپنایا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ پاکستان خوشحال اور پرامن ملک تبھی بنے گا جب بھارت کے ساتھ اس کے تعلق اچھے ہوں گے۔ اگر بھارت پاک تعلقات معمول پہ آ جائیں تو امریکی واپسی کے بعد افغانستان کو سنبھالے رکھنابہت آسان ہو جائے گا۔
چوتھا‘امریکہ آج کل روس اورچین کے ایک خیال ہونے سے پریشان رہتا ہے۔یوکرین‘شام اور ایران کے سوال پر امریکہ ان سے خفا ہے۔'برکس‘اجتماع کے سبب کبھی کبھی بھارت پر بھی شک کیا جاتا ہے ۔امریکی پالیسی میکرجانتے ہیں کہ بھارت دنیا کاسب سے بڑا جمہوری ملک ہے اوروہ کسی بھی عظیم طاقت کا پچھ لگو نہیں بن سکتا۔کئی مدعوں پر امریکہ سے اس کا اختلاف ہو سکتا ہے مگر چین اور روس سے اتفاق ہو سکتا ہے ‘لیکن جہاں تک دنیا کی سیاست کا سوال ہے‘دونوں ملک جتنی دور تک ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں ‘کوئی دیگر دو بڑے ملکوں کی جوڑی نہیں چل سکتی۔ اس لیے دونوں ملکوں کوسب سے پہلے اپنے دو طرفہ تعلقات کی رکاوٹوں کودور کرنا چاہئے اور انہیں سبھی وسعتوں میں مضبوط بنانا چاہئے۔ 
اوباما کے دورۂ بھارت کے بارے میں ہم نے چار دن پہلے جس شک کا امکان ظاہر کیا تھا‘ لگتا ہے وہ درست ثابت ہو رہا ہے۔ جیساکہ ہمیں شک تھا کہ ‘چین ‘جاپان ‘روس ‘نیپال وغیرہ کے خاص لیڈروں سے بھارتی وزیر اعظم کی جو بات ہوئی وہ جیسے خالی جھنجھنا ثابت ہوا‘ویسے ہی کہیں اوباما کا یہ دورہ بھی دور کا ڈھول ثابت نہ ہوجائے !جھنجھنا نہیں ‘ڈھول !ڈھول اس لیے کہ اس دورہ کی جیسے دھواں دارپبلسٹی ہوئی اور اس کی تیاری پر جیسا بے شمار خرچ ہوا‘ویسا کسی دوسرے ملک کے صدر کے دورے پرنہیں ہوا۔ اس کے علاوہ جیسااپناپن اوباما اور مودی کے بیچ دکھائی پڑا ویسے مجھے پچھلے 55-50 سال میں کبھی دکھائی نہیں پڑا۔ آج تک میں نے بھارت کے کسی وزیر اعظم یاصدر کو کسی غیر ملکی لیڈر کو پہلے نام سے پکارتے ہوئے نہیں سنا۔ یہ ٹھیک ہے کہ نریندر بھائی خارجہ پالیسی کے معاملات میں ابھی ان ٹرینڈ ہیں لیکن ان کے افسروں کو چاہئے تھا کہ انہیں وہ جدید سیاست سے آگاہ کرتے ۔جب انہوں نے بارک اوباماکو صرف 'براک‘ کہہ کر پکارا تومیں سمجھ گیا کہ ہمارے مودی جی پرامریکی اثر ہو گیا ہے ۔امریکی بچے اپنے باپ کو بھی پہلا نام لے کر ہی بلاتے ہیں۔ اگر بھارتی حرف ہوتا تو وہ یا تو 'جی‘ لگاتے یا صاحب لگاتے یا کچھ نہیں تو'شری‘ہی لگا دیتے ۔خیر‘ اس سے اتنا پتہ چل گیا کہ دونوں میں کافی بے تکلفی پیدا ہوگئی ہے جو بری نہیں اچھی بات ہے۔ 
لیکن یہ اچھی بات دونوں کے کندھوں سے اتر کر پالیسیوں تک پہنچ پاتی توکرشمہ ہوجاتا۔ایٹمی حادثات کے معاوضہ پر آخری فیصلہ کیا ہوا‘کسی کو بھی پتہ نہیں ۔اگر اوباما اور مودی بیمے کے شرائط پرمتفق ہوگئے توبھی یہ ضروری نہیں کہ جوہری بھٹیاں بنانے والی کمپنیاں بھی متفق ہو جائیں۔وہ ڈالر کمانے پر تلی ہوئی ہیں ۔انہیں بھارت کے مفاد سے کیا لینا دینا؟جہاں تک جوہری سازوسامان پر سے امریکی نگرانی ہٹانے کا سوال ہے ‘وہ معمولی بات ہے ۔اس سے ان کمپنیوں کاکیا نقصان ہونے والا ہے ؟یہ ایٹمی سمجھوتہ اگر بیچ میں لٹکا رہے توبھی خاص برا نہیں۔ بی جے پی اور کمیونسٹ پارٹیاں تو اسے 'تباہی‘ ہی مانتی تھیں ۔دس سال کے دفاعی ہتھیاروں کے سمجھوتے میں سے پتہ نہیں کیا نکلے گا؟دونوں ملکوں کے بیچ تجارت کتنی بڑھے گی اور بھارت میں امریکی دولت کتنی لگے گی‘ اس کا بھی کوئی ٹھوس اشارہ نہیں۔ دہشتگردی کے خلاف بھی گھسی پٹی بات دوہرا دی گئی ہے۔اوباما نے پاکستان کا نام تک نہیں لیا۔ ان کی نظر سے یہ ٹھیک تھالیکن بھارت کو یہ پتہ نہیں چل پایا کہ افغانستان میں اس کا کردار کیا ہوگا؟ جنوبی ایشیا میں بھارت کی اہمیت کیا ہے؟ اکیسویں صدی کا بھی انہوں نے چلتے چلتے ذکر کر دیا۔ مشعل (خاتون اول) کو لے کروہ تاج محل بھی نہیں دیکھ سکے ۔تو پھر اوباما نے اتناتکلف کیوں اٹھایا؟ہاں ‘ان کا شکریہ کہ ان کے سبب ہمارے مودی جی لگ بھگ ایک ہفتہ بھر چینلوں اور اخباروں میں سرخیاں پاتے رہے ۔ 
بابا رام دیو جی کا پدم بھوشن سے انکار 
بابا رام دیو جی نے پدم بھوشن ایوارڈ لینے سے انکار کر کے بھارت کے سنیاسیوں(عارف لوگوں)کیلئے شاندار روائت قائم کی ہے۔ انہوں نے نہ تو اس ایوارڈ کو نیچا دکھایا اور نہ ہی مودی سرکار کی بے عزتی کی۔ انہوں نے جس زبان میں ایوارڈ لینے سے انکار کیا اس میں ایک سچے فقیرکی شان اور ادب ہے۔ انہوں نے ایوارڈ دینے کے سرکاری فیصلے کی عزت کی ہے ‘سرکار کا احسان مانا ہے لیکن یہ بھی کہا ہے کہ ایک سچا عارف عزت‘ بے عزتی کی پروا کیے بغیر اور بنا کسی لالچ کے اپنا کام کرتا ہے۔ اس ایوارڈ کے ترک کرنے سے سوامی رام دیوکی شان میں چار چاند لگ گئے۔ رام دیو جی کا یہ اعزاز ترک کرنا کچھ دیگر سنیاسیوں کے لئے رکاوٹ پیدا کر سکتا ہے ‘کیونکہ سرکاری ایوارڈ کے لیے ان کے نام بھی چینلوں اور اخباروں میں خوب اچھلے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ سنیاسیوں کی زندگی اور چال چلت ملک اور پوری انسانیت کیلئے مفید ہے لیکن کسی سنیاسی کو اس طرح کااعزاز قبول کرنا چاہئے یا نہیں ‘یہ ایک بڑاسوال ہے؟ یہ سوال میں نے کیوں اٹھایا؟ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ پہلا‘ یہ اعزازدینے والے کون ہیں ؟لیڈر لوگ ہیں۔ ان کی اصولی حیثیت کیا ہے؟ زیرو!وہ کون ہوتے ہیں ‘کسی سنیاسی کو اونچا اٹھانے والے ؟دوسر‘اس طرح کے اعزازوں کے لئے ملک کے کئی عظیم فنکاروں ‘عالموں اور ادیبوں کو میں نے لیڈروں کے قدموں میںسر جھکاتے ہوئے دیکھا ہے ۔انہیں دیکھ کر مجھے بہت ترس آتا رہا ہے۔ اگرہمارے سنیاسی ان اعزازوں کو قبول کریں گے تولوگوں کو ان پر بھی شک ہوگاکہ انہوںنے پتہ نہیں کہاں کہاں ناک رگڑی ہوگی ؟
تیسرا‘ یہ اعزاز یوں توکافی لائق لوگوں کو دیا جاتا رہا ہے لیکن کچھ اندھوں نے اپنوں کو کافی ریوڑیاں بھی بانٹی ہیں۔ بھارت رتن کا اعزاز بھی اس سے اچھوتا نہیں رہا۔ سنیاسی اپنے آ پ کوکسی بھی سرکار سے نتھی کیوں کرے ؟وہ تو پہلے ہی دنیا کے سب سے طاقتور (خدا)سے نتھی ہو چکے ہیں ۔چوتھا‘ سنیاسیوں کا غیر جانب دار رویہ اور بے خوف رہنااس لئے بھی ضروری ہے کہ آج لیڈروں سے ملک کے عوام کی دلچسپی ختم ہو رہی ہے۔ایسے میں جو لوگ حقیقی سنیاسی ہیں (صرف بھگوا دھاری نہیں )‘وہ ہی ملک کی حفاظت کر سکتے ہیں اور راستے سے پھسلی ہوئی سیاست کوپٹری پر لا سکتے ہیں۔ گرو گول والکر‘ لوہیا اور جے پرکاش نارائن کو میں اسی قطار میں رکھتا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ رام دیو جی نے اسی اچھے راستے کو اپنایا ہے اور ان کی پیروی روی شنکر بھی کر رہے ہیں۔ دونوں کو مبارک ! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں