"DVP" (space) message & send to 7575

بی جے پی کا جوا

بی جے پی نے جونہی کرن بیدی کا نام دلی کے وزیر اعلیٰ کے طور پراچھالا ‘ میرا فوری ردعمل یہ تھاکہ بی جے پی نے ایک بڑا جوا کھیلا ہے۔ یہ بات میں نے جج کے طور پر رجت شرماکے پروگرام (آپ کی عدالت )میں بھی کہہ دی لیکن اب جبکہ ووٹنگ کے لیے صرف تین دن بچے ہیں‘ دلی کا رخ بدلا بدلانظر آ رہا ہے۔ پہلے لگ رہا تھاکہ 'عام آدمی پارٹی‘ کا جادو اس بار چلنے والا نہیں لیکن جب سے کرن بیدی سامنے آئی ہیں ساری شطرنج ہی الٹ گئی ہے۔ پچھلا ایک ہفتہ سے میں ملک سے باہر تھا،اب دلی آنے پرجس سے بھی بات ہوتی ہے‘ وہی کہتا ہے کہ ہم 'عاپ ‘ کو ووٹ دیں گے۔ لگ بھگ سبھی سروے یہی کہہ رہے ہیںکہ 'عاپ‘ کو واضح اکثریت ملے گی ۔
آخر گزشتہ تین چارہفتے میں ایسا کیا ہوا جس سے دلی کے لوگوںکا دماغ پلٹاکھاگیا ہے؟ اگر سچ مچ بی جے پی ہارگئی توکیا ہوگا؟کرن بیدی کی وجہ سے نریندر مودی کے سکے کا پانی اترگیا ہے۔ نریندر مودی کے نام پراگر دوسرے صوبوں میں اب بھی ووٹ مل رہے ہیں تودلی میں کیوں نہیں ملتے؟مودی سے لوگوںکی دلچسپی ختم ہو گئی ہے لیکن اب بھی انہیں امید ہے کہ یہ سرکارکچھ نہ کچھ ضرورکرے گی۔ بی جے پی کے لیڈروں کی عقل کیسے دھوکاکھا گئی کہ انہوں نے مودی کے بدلے بیدی کوکھڑاکردیا،اُس بیدی کوجو کجری وال کی نمبر تین یا چار تھیں۔۔۔۔۔ اروند‘پرشانت ‘منیش اورکرن ! مودی کے مقابلے میںکجری وال رتی بھر بھی نہیں ہے، لیکن کجری وال کے مقابلے میں کرن بیدی کیا ہے؟ کجری وال کو بی جے پی کے اعلیٰ سیاسی کھلاڑی امیت شاہ کا احسان ماننا چاہئے۔ بی جے پی نے بیدی کو سر پر چڑھاکراپنے دلی کے تمام لیڈروںاور کارکنوںکو نیچے پٹک مارا ہے۔یہ لوگ بے دل ہوکرادھرادھرہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ مودی کو اپنا پورازور لگانا پڑ رہا ہے۔ اب بھی بی جے پی ہارگئی تویہ کرن بیدی کی نہیں نریندر مودی کی شکست ہوگی۔
بی جے پی کی مایوسی اسی سے عیاں ہوتی ہے کہ اس نے کجری وال کے خلاف اپنے سارے ہتھیار خالی کردیے ہیں۔ حوالا (کمپنی) کا الزام ‘ نسل پرستی ‘ اشتہارات میں بد کلامی کا استعمال اورعلاقائی چناؤ میں وزیر اعظم اور پارٹی صدر سے لے کر وزرا اور ایم پی ایزکو جھونک کر بی جے پی کیا ثابت کررہی ہے ؟کیا یہ نہیں کہ 
اس کا دم پھول گیا ہے؟بد قسمتی سے یہ انتخاب نہ توکسی ملکی یا بین الاقوامی معاملے پر لڑا جا رہا ہے اور نہ ہی اصولوں پر، اس لیے اس کا لیول روز نیچے گرتا جارہا ہے۔ پتا نہیں‘ اگلے دو دن میںکن کن الزامات کی بوچھاڑ ہوگی؟ بی جے پی نے ایک خاص فرقے ‘ خاص علاقے اور خاص نسل کو تو خود سے الگ کر ہی لیا ہے، اب جوکنگال اس کے تہ خانے سے نکلیں گے‘وہ پتا نہیں کیا کیا نقصان کریں گے؟مجھے یہ ڈر پہلے دن سے لگ رہا تھاکہ کہیں یہ جوا بی جے پی کو ملکی لیول پر مہنگا نہ پڑجائے؟
سشما سوراج کا دورۂ چین
خوشی کی بات ہے کہ جیسے ہی اوباما کا دورۂ بھارت ختم ہوا ‘ وزیر خارجہ سشما سوراج کا دورۂ چین شروع ہو گیا جو پہلے سے ہی طے تھا۔ روس ‘چین اور بھارت کے وزرائے خارجہ کو انہی دنوں میں ملنا تھا۔ سشما اس لیے چین نہیں گئیں کہ انہیں چین کی کوئی غلط فہمی دورکرنی تھی، اگرچہ اوباما کے دورہ ٔ بھارت اور بھارت امریکہ مشترکہ کانفرنس سے غلط فہمی کا بازارگرم ہو گیا ہے۔ چینی سرکارکے ترجمان اورکچھ چینی اخباروں نے اس بات پر اپنی ناراضگی ظاہرکی تھی کہ بھارت اورامریکہ نے مل کر جنوبی چینی سمندرکا مسئلہ کیوں اٹھایا؟دونوں ملکوںکا اس علاقے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ انہوں نے یہ کیوں کہا کہ جنوب چینی سمندر میں سبھی ملکوںکو فری ٹریڈکی سہولتیں ملنی چاہئیں؟اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔
اس غلط فہمی کو سشما سوراج نے دوٹوک الفاظ میں رد کر دیا۔انہوں نے چینی لیڈروں کو سمجھایا کہ ہر ملک کے ساتھ بھارت کا اپنا رشتہ ہے، تیسرا ملک اسے متاثر نہیںکر سکتا۔ یہ بات نریندر مودی نے بھی کہی تھی کہ بھارت کسی کے دباؤ میں نہیں آتا۔ سشما سوراج نے چین کے ساتھ بھارت کے اقتصادی تعلقات کو گہرا بنانے کے لیے بھی کئی اشارے دیے ہیں۔ انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے توازن کو ٹھیک کرنے‘چینی دولت بھارت میں لگانے اور مشترکہ سرمایہ کاری کے نئے راستے کھولنے کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے چینی سیاحوںکوکھینچنے کی بھی کوشش کی ہے۔ وہ بھارتی معیشت کے بارے میںکئی نئی تجاویزکے ساتھ چینی تاجروںاورماہروںکودعوت دے رہی ہیں۔ 
سشما سوراج کی ماہرانہ سیاست کافائدہ وزیراعظم نریندر مودی کو ملے گا۔ یہ ناممکن نہیںکہ وہ بھارت چین سرحدی تنازع کے نمٹانے کی بنیادبھی رکھ آئیں۔ اگر ایسا ہو جائے توسچ مچ اکیسویں صدی ایشیاکی صدی بن سکتی ہے ۔
پاکستان کو امریکی امداد 
ابھی صدر اوباما کے دورۂ بھارت کے تذکروںکی سیاہی سوکھی نہیں تھی کہ انہوں نے پاکستان کوچھ ہزارکروڑ روپے کی امداد کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نکالنا آسان ہے کہ جنوب ایشیاکے لیے امریکہ کی جو پالیسی برسوں سے چلی آ رہی تھی‘ وہ آج بھی جوں کی توں ہے،اس میں بھارت کے حساب سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔اوباما کا صرف یوم جمہوریہ پر بھارت آنا اور ضرورت سے زیادہ اپناپن دکھانا محض ایک ناٹک کی طرح تھا۔ اس دورے کے ڈرامائی انداز پر تو ہم پہلے بھی روشنی ڈال چکے ہیں، لیکن پاکستان کو دی جانے والی امداد پر ہمیں بہت بے چین ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہم اس کے اسباب کوٹھیک سے سمجھ لیں اور اس کے انجام کا ہمیں تھوڑا اندازہ ہو جائے تو جیسی پہل امریکہ کر رہا ہے ویسی بھارت بھی کرسکتا ہے۔ جنوب ایشیاکی سیاست کے لیے وہ دن سنہری ہوگاجس دن بھارت پاکستان کوکوئی مدد دے گا اور پاکستان اسے احترام کے ساتھ قبول کرلے گا۔ اس وقت پاکستان کو 
دی جانے والی امریکی امدادکا پہلا مقصد یہ ہے کہ امریکہ کسی نہ کسی شکل میں پاکستان پراپنا اثر برقرار رکھنا چاہتا ہے۔امداد فراہم کرنے کی ممکنہ طور پر کئی وجوہ ہو سکتی ہیں‘ جیسے: (1)اگر وہ کوئی مدد نہ کرے تو عوام تو اس کے خلاف ہیں ہی ‘ پاکستان کی سرکار بھی اس کے خلاف ہو جائے گی۔ (2)اگر امریکہ اپنی ٹونٹی ایک دم بندکر دے تو پاکستان پوری طرح دوسرے قریبی ملکوں پر انحصار کرنے لگے گا۔ (3) ایسا ہونے پر وہ بعض معاملات میں اپنی پالیسی تبدیل کر لے گا۔ (4)پاکستانی فوج نے جس مضبوطی اور ایمانداری سے دہشت گردوں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے ‘ یہ امریکی امداد اس جذبے کی عزت افزائی بھی ہو سکتی ہے۔ (5) اسامہ بن لادن کے خاتمے میں پاکستان نے امریکہ کو جو تعاون دیا ‘کیا اس کا کچھ معاوضہ اسے نہیں ملنا چاہئے تھا؟(6) یہ پہلی بار ہوا ہے کہ امریکہ نے مدد دیتے ہوئے پاکستان سے کہا ہے کہ یہ مدد بھارت سے اچھے تعلقات بنانے کے لیے بھی ہے۔(7) امریکہ کی ایک بڑی پریشانی افغانستان ہے۔ افغانستان سے امریکی واپسی کے بعد وہاں سب سے بڑاکردار پاکستان کا ہوگا۔ افغانستان میں وہی ہوگا جو پاکستان چاہے گا، اس لیے امریکہ بھارت سے دوستی بڑھانے کی خاطر پاکستان کو اپنے بھروسے پر نہیں چھوڑ سکتا۔ 
پاکستان کی مالی حالت آج کل ٹھیک نہیں ہے، جنوب ایشیاکی بڑی طاقت ہونے کے لحاظ سے اس کی مدد سب سے پہلے بھارت کوکرنی چاہئے جو کسی سیاست میں کرشمہ سے کم نہیں ہوگا، لیکن مودی سرکارکی وہم میں مبتلا خارجہ پالیسی پتا نہیں کب پٹڑی پر آئے گی ؟ امید ہے جے شنکر جیسے مضبوط خارجہ سیکرٹری ہماری جنوبی ایشیا کے بارے میں پالیسی کو پٹڑی پر لانے کی ضرور کوشش کریںگے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں