"DVP" (space) message & send to 7575

مودی کا ضد چھوڑنا

وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان کے ساتھ ٹوٹا تار جوڑنے کے لیے ایک اچھا بہانہ کھوج نکالا۔ حریت پسند رہنمائوں سے ملاقات کو بہانہ بنا کر جو تار اگست 2014ء میں مودی نے اچانک توڑ دیا تھا ‘ وہ اب جڑ جائے گا۔ اب بہانہ یہ ہے کہ ورلڈ کپ میں سارک کے ملک کھیل رہے ہیں تو بھارت ان سے بات چیت کرے گا۔ کیا بات چیت کرے گا؟ کیا انہیں کرکٹ کے داؤ پیچ سکھائے گا؟ بھارت ضرور سکھا سکتا ہے کیونکہ سارک ممالک میں بھارت ہی انگریزوں کا سب سے بڑا غلام تھا۔ کرکٹ اور انگریزی۔۔۔۔ یہی ہماری غلامی کی دو سب سے بڑی نشانیاں رہ گئی ہیں۔ اپنے ملک کے عظیم وطن پرست وزیر اعظم شری نریندر مودی نے ان دونوں غلامیوں کی پرورش اور انہیں بڑھاوا دینے کی ذمہ داری لے لی ہے۔ انہیں انگریزی نہیں آتی پھر بھی 'ٹیلی پرامپٹر‘ کی مدد سے انہوں نے انگریزی بولنے کا عجیب ناٹک کیا۔ آسٹریلوی پارلیمنٹ کو مدہوش کر دیا۔ اب وہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی طرح کرکٹ کھیلنے لگیں‘ تو ہمیں حیرت نہیں ہو گی۔
خیر، کرکٹ کے بہانے اب ہمارے خارجہ سیکرٹری جے شنکر سارک ملکوں میں جائیں گے۔ کرکٹ اور جے شنکرکا کیا تعلق ہے؟ ہمیں تو معلوم نہیں‘ مودی جی کو زیادہ پتا ہو گا۔ جو بھی ہو سارک ملکوں میں جانے کے بہانے وہ پاکستان بھی چلے جائیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جانے کے لیے ہی جے شنکر نے کرکٹ اور سارک کے بہانا بنایا ہے۔ اسی بہانے مودی کی ریل پھر پٹڑی پر آ رہی ہے۔۔۔۔ دیر آید درست آید! جے شنکر کے خارجہ سیکرٹری بنتے ہی میں نے یہ پیش گوئی کر دی تھی۔ اب پاکستان کے ساتھ خارجہ سیکرٹری سطح پر مذاکرات پھر شروع ہو جائیں گے۔ ہم مانتے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے دفتر کی بے وقوفی کے سبب جو پچھلے چھ ماہ برباد ہوئے‘ انہیں ہم سب کو بھول جانا چاہیے۔ اب اپوزیشن کی جانب سے یہ کہنا کہ مودی کی ناک کٹ گئی یا انہیں اپنا تھوکا ہوا چاٹنا پڑ رہا ہے‘ بالکل غلط ہے۔ اس وقت بھارت کو ہی نہیں‘ پورے جنوبی ایشیا کے عوام کو مودی کی پُشت تھپتھپانی چاہیے کہ انہوں نے اپنی ضد چھوڑ دی ہے اور وہ اب ادب کے ساتھ درست راستے پر چل رہے ہیں ۔ تعجب نہیں کہ یہ کجری وال کی مہربانی کا نتیجہ بھی ہو۔ جو بھی ہو ضد کا چھوڑ دینا مودی کی بیمار خارجہ پالیسی کو کچھ ٹھوس دن ضرور مہیا کروائے گا۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، اگر اگلے پانچ برسوں میں مودی پورے جنوبی ایشیا میں ایک مشترکہ منڈی‘ مشرکہ پارلیمنٹ‘ مشترکہ کرنسی اور مشترکہ اتحاد کا کوئی ڈھانچہ کھڑا کر سکیں تو بھارتی وزرائے اعظم میں ان کا مقام سب سے پہلے درجے پر آ جائے گا۔
یہ اروندکجری وال‘ وہ نہیں ہے!
اروند کجری وال نے دلی کے وزیر اعلیٰ کے طور پہ حلف لیتے وقت جو خطاب کیا‘ اسے سن کر ایسا لگا کہ یہ پہلے والا اروند نہیں‘ جسے سال بھر پہلے ہم نے اسی دلی میں نوٹنکیاںکرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس وقت بھی اروند نے دلی سے بدعنوانی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا‘ لیکن وہ وزیر اعلیٰ اسی پارٹی کے کندھے پر چڑھ کر بنے تھے‘ جس کا بدعنوانی کے سبب ہی خاتمہ ہوا تھا۔ بدعنوانی کے پاؤں لگا کر آپ سچ کی دوڑ میں کیسے حصہ لے سکتے ہیں؟ وزیر اعلیٰ کا عہدہ ان کی پھسل پٹی ثابت ہوا۔ اب بھی وہ خود وزیر اعلیٰ نہ بنتے اور منیش سسودیا یا کسی دوسرے ساتھی کو بنا دیتے تو 'عام آدمی پارٹی‘ دو دھاری تلوار بن جاتی۔ وہ دلی کو قابل رشک شہر بناتے اور اس کا ڈھنڈورا پورے ملک میں پٹتا۔ ملک بھر میں کجری وال اپوزیشن میں شیر کی طرح گھومتا اور پانچ سال میں سارے ملک کو بیدار کر ڈالتا! پھر بھی مجھے خوشی ہے کہ دس پندرہ دن پہلے میں نے 'نیا انڈیا‘ اور کچھ ٹی وی چینلوں پر جو رائے دی تھی‘ اروند اس پر عمل کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں۔ انتخابات کے نتائج آنے سے کافی پہلے میں نے کہا تھا کہ 'عاپ‘ دلی میں جم کر جیتے گی، دلی میں خود مختاری قائم کرے گی اور پانچ سال تک ملک کے کسی بھی صوبے کے انتخابات میں حصہ نہیں لے گی۔ اسے صرف پارٹی کھڑی کرنی چاہیے، وہ بھی ایسے کہ اگر چوبیس گھنٹے میں اقتدار سنبھالنا پڑے تو سنبھال لے۔ اب اروند نے اسی بات کو دہرایا ہے‘ اس کے باوجود کہ یوگندر یادو نے کچھ اور کہہ دیا تھا۔ اگر اروند اپنی بات پر ڈٹے رہے تو 'عام آدمی پارٹی‘ دلی میں اقتدار اور ملک میں اپوزیشن کا کردار بخوبی نبھا سکے گی۔ ایسے میں اگر اروند کی نوٹنکی کی خصلت جاری رہی تو وہ بھی خوب کام آئے گی۔
دلی میں کیا کرنا ہے؟ یہ اروند اور منیش کو معلوم ہے، لیکن ملک میں انہیں کیا کرنا ہے‘ اس کا پتا انہیں بی جے پی اور کانگریس سے بھی کم ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں اور لگ بھگ سبھی دوسری پارٹیاں انتخابی مشینیں بن چکی ہیں، اس کے علاوہ وہ صفر ہیں۔ ان کے پاس کوئی میدان ہی نہیں ہے‘ تو ان کی پالیسی کیا ہو گی؟ ان کے پاس کوئی لیڈر بھی نہیں۔ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے لائق تو درجنوں لوگ ہیں، لیکن وہ کرسی کے بنا زیرو ہیں۔ وہ عہدے اب صرف تعریف والی نوکریاں بن کر رہ گئے ہیں۔ اروند چاہے تو بھارت کی سیاست کے اس خلا کو پُر کر سکتا ہے، کرسی پر بیٹھنے بنا ہی پُر کر سکتا ہے بشرطیکہ اروند کے پاس کوئی خواب ہو‘ کوئی نظریہ ہو‘ کوئی پالیسی یا کوئی ٹھوس پروگرام ہو۔ اگر یہ سب نہیں ہوتا اور عام آدمی پارٹی صرف دلی شہر میں ہی گِھِر کر رہ گئی تو کیا ہو گا؟ یہی کہ اسے 'نگر پالیکا پارٹی‘ مان لیا جائے گا اور اس کے لیڈروں کو 'نگر لیڈر‘۔ لیکن اروند کو اب یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ اروند اب وہ اروند نہیں ہے‘ جو گزشتہ برس تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں