وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے کالے سوٹ کی نیلامی کرو ا دی ہے اور اس کا پیسہ وہ گنگا کی صفائی میں لگوائیں گے۔یہ اچھی بات ہے۔اس نیلامی سے جو دو چار کروڑ روپیہ آئیں گے‘اس سے گنگاکی کتنی صفائی ہوگی‘یہ تو مودی جی ہی جانیں لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ اس کالے سوٹ نے مودی کی عزت کو اتنا خراب کر دیا تھا کہ اب تک کے کسی واقعہ نے نہیں کیاتھا۔اب اس بدنام سوٹ کی نیلامی کر کے مودی کیا یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی شان بہتر ہو جائے گی ؟شاید ہو جائے ‘کیونکہ اس سے ملنے والا پیسہ وہ خود نہیں رکھیں گے ‘ایک نیک کام میں لگائیں گے ۔اچھے کام میں لگایا گیا پیسہ تونیک نامی ہی لاتا ہے ۔
لیکن اس نیک نامی میں بھی کئی اڑنگے ہیں ۔(1)ایک اڑنگا تو یہ ہے کہ جس سوٹ کے سبب مودی کی اتنی بدنامی ہوئی ‘اب ان کا ذکر آنابند سا ہو گیاتھالیکن اس بدنام سوٹ کی نیلامی نے اس میں سانسیں ڈال دی ہیں ۔اوباما کے سامنے پہننے پر اس کے بارے میں جتنا سنا اور پڑھا گیاتھا‘اس سے کئی گنا زیادہ اب نیلامی کی وجہ سے مشہوری ہو رہی ہے ۔(2) جو لوگ نیلامی لگا رہے ہیں ‘وہ کیوں لگا رہے ہیں ؟کیا وہ اس سوٹ کو کوئی پاک چیز مانتے ہیں ؟نہیں بالکل نہیں ۔اسے خریدنے کا ایک ہی ہدف ہے ۔ وہ سستی شہرت چاہتے ہیں ۔وہ ایک بدنام چیز سے نام کمانا چاہتے ہیں ۔ایک دو کروڑ روپیہ وہ گنگا کیلئے یا کسی خانقاہ یا یتیم خانہ کیلئے چپ چاپ قربان نہیں کر سکتے ؟(3) اس سوٹ پر جو پیسہ بہا رہے ہیں ‘وہ کالادھن ہے یا نہیں ‘کچھ پتہ نہیں ۔امید ہے کہ وہ کالا دھن نہیں ہوگالیکن یہ کیسے پتہ چلے کہ وہ صاف شفاف دھن ہے اور حلال کی کمائی کا پیسہ ہے یا نہیں ؟(4)وسیلے کی پاکیزگی کا سوال بھی اہم ہے ۔آپ گنگا کی صفائی کیلئے جس وسیلے سے پیسہ اکٹھا کررہے ہیں ‘یعنی اُس سوٹ سے جب آپ نے اپنی جان چھڑا لی تواس سے ملنے والے پیسے کو پاک کیسے مانا جا سکتا ہے ؟اگر نیلام ہی کرنا ہے تواپنے سیکڑوں رنگ برنگے کُرتے اور جیکٹیں جنہیں پہن کر یا دیکھ کرکچھ جوان لوگ ضرور خوش ہو جاتے ۔(5)کانگریسی لوگ کہہ رہے ہیں کہ کسی تاجر سے دس لاکھ کا سوٹ لے کرمودی نے قانون کی نافرمانی کی ہے ۔ بیچارے چائے بیچنے والے کو کیا معلوم کہ ایسے سوٹ کی قیمت اتنی ہو سکتی ہے ۔اگر انجانے میں مودی سے قانون کی نافرمانی ہوگئی ہے تو ہمیں خوش ہونا چاہئے کہ اس سوٹ کی نیلامی کر کے انہوں نے اس کی پوری بھر پائی کر دی ہے ۔
مودی کی خاموشی توڑنے کا مطلب
نریندر مودی اب واقعی نریندر مودی بن گئے ہیں ۔انہوں نے من موہن کی صورت کا ترک کر دیا ہے ۔میری مبارک!ایک تو وہ عیسائیوں کے دینی پروگرام میں خو دگئے اور پھر وہاں جا کرانہوں نے ملک کے سبھی مذاہب کے زخموں پر مرہم لگا دیا۔وہ بولے اور بھارت کے وزیر اعظم کی طرح بولے۔کسی جماعت کے رہنمایا کارکن کی طرح نہیں ۔بھارت سے بڑی کوئی جماعت نہیں ہے ۔بھارت سے اوپر کوئی نظریہ نہیں ہے ۔
مودی نے دوٹوک الفاظ میں کہاکہ ان کی سرکارسبھی مذاہب کا احترام کرتی ہے ۔سب کو برابری کی نظر سے دیکھتی ہے ۔ہر باشندے کواپنے مذہب کی مکمل آزادی ہے ۔اپنی مرضی سے کوئی بھی آدمی اپنا مذہب تبدیل کر نا چاہے تواسے وہ آزادی بھی ہے لیکن دین کے نام پران کی سرکارتشدد کو بالکل بھی برداشت نہیں کرے گی ۔
مودی نے یہ بات کیوں کہی ؟اسلئے کہی کہ آجکل کئی چرچوں پر حملے ہو رہے ہیں۔بی جے پی کے کئی ارکان پارلیمنٹ ایک سے ایک اوٹ پٹانگ بیان دے دیتے ہیں اور 'گھر واپسی ‘ کے نام پر عجیب سے مشن چل رہے ہیں ۔مودی کی خاموشی ان کی سرکار کی مٹی خراب کرتی جارہی تھی۔ہمارے سیکولربھائیوں کی خوشی کا یہ ایک نیا سبب تیار ہو گیا تھا۔ان کی رائے یہ ہے کہ آر ایس ایس کے ایک خدمتگار رہنے کے سبب مودی ان سب باتوں کی تہ دل سے حمایت کرتے ہیں ،اس لیے وہ چپ رہتے ہیںیعنی جو ہو رہا ہے‘ اسے ہونے دے رہے ہیں لیکن یہ سوچ غلط ہے ۔موہن بھاگوت نے ادھر ایک بار نہیں ‘کئی بار زوروں سے کہا ہے کہ سَنگھ سبھی مذاہب کا احترام کرتا ہے ۔انہوں نے مذہب کے نام پر کیا جا رہا قتل عام و تشدداور توڑ پھوڑ کوکسی طرح بھی جائز نہیں ٹھہرایاہے۔ انہوں نے بار بار مذہبی رواداری اور فراخ دلی کو ہندوپنے کا سانس بتایا ہے۔اسی بنیاد پرمیں کہتا ہوں کہ اب مودی اور سنگھ کوایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش بے فائدہ ہے ۔
اگر ہم بھارت کو ایک مضبوط اور خوشحال ملک بنتے ہوئے دیکھنا چاہیں توہمیں ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگاکہ کسی بھی شہری کو اس کے مذہب ‘اس کی ذات ‘اس کی زبان‘اس کے صوبے کی وجہ سے غیرمحفوظی محسوس نہ ہو۔مودی کی خاموشی توڑنے کا مطلب یہی ہے ۔
میتری پال شری سینا بھارت سے دوستی بڑھائیں
سری لنکا کے صدر میتری پال شریسیناکا بھارت آنا اپنے آپ میں ایک پیغام ہے ۔صدر بننے کے بعدیہ ان کا پہلا بیرونی دورہ ہے ۔ اس دورہ کے لیے انہوں نے بھارت کوچن کر یہ بتا دیا ہے کہ ان کی خارجہ پالیسی کی اولیات کیا ہیں ۔ان کے سابق صدر مہندرا پاکشے نے پچھلے دس سالوں میں بھارت کو مناسب اہمیت دینے کی کوشش کی لیکن ہمیں ہمیشہ یہ لگتا رہاکہ وہ چین کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے رہے تھے اور چین کا ڈر دکھا کربھارت سے فائدے حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ اس میں شک نہیں کہ چین نے اپنی شطرنج کے پانسے بہت چالاکی سے چلے تھے ۔اس نے سری لنکا میں اپنی دولت جم کر لگانی شروع کر دی تھی۔ سابق صدرکے چنائوکومانو اس نے گود ہی لے لیا تھااور سمندری ریشم پتھ کا نیا شوشا چھوڑ کروہ
سری لنکا کو اپنی بین الاقوامی تجارت اور پالیسی کا متحرک حصہ دار بنانے کے چکر میں تھا۔راج پاکشے اسی لئے بھارت کی جانب تھوڑے دست بردار دکھائی پڑ رہے تھے ۔
اس دست برداری میں بھارت کے تامل مسئلے نے نئی وسعتیں جوڑ دی تھیں ۔تامل انقلاب پسندوں کا صفایا کرنے کے بعدراج پاکشے اپنے آپ کوفاتح دنیا کی صف میں کھڑا کرنے لگے تھے۔سری لنکا کے پورانی سنگھلی شہنشاہ دتا گامنی کے ساتھ ان کی برابری ہونے لگی تھی ۔انہوں نے تاملوں پر ہوئے ظلموں کی جانچ کرانے میں بھی آنا کانی کی ۔اقوام متحدہ کو بھی انہوں نے انگوٹھادکھا دیا۔وہ بھارت کی کیا سنتے ؟بھارت کی اتحادی دبو سرکارکو ہمارے تاملوں نے بھی جم کر دبا رکھا تھا۔راج پاکشے نے نہ تو سری لنکائی تاملوں کو انصاف دلوایانہ ہی اقتدار کو وسیع کیا۔آئین کی تیرہویں ترمیم کاغذات میں لکھی رہ گئی ۔اب جبکہ میتری پال شریسینا‘جوکہ ان کے ایک وزیر تھے ‘صدر بن گئے ہیں ‘ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ سری لنکائی تاملوں کو انصاف دلائیں گے ۔ان کے چناؤ میں تاملوں اور مسلم اقلیتوں نے خاص کردار نبھایا ہے ۔وہ بھارت کے ساتھ بھی تجارت ‘سرمایہ کاری ‘دفاع وغیرہ کے سمجھوتوں میں نزدیکی بڑھائیں گے ۔امن کے ساتھ جوہری سوداتو انہوں نے کر ہی لیا ہے ۔وہ پُرعقیدت بودھ ہیں ۔وہ اس بدھ کے ملک کے عوام اور سری لنکائی عوام کے باہمی تعلقات کوقربت میں لے جائیں گے ۔چین کے ساتھ وہ تعلقات ضرور بڑھائیں لیکن بھارت کے ساتھ سری لنکا کا جو خاص تعلق ہے ،اسے دہی نہ ہونے دیں ۔میتری پال شری سینابھارت سے دوستی کو برابر پالتے رہیں ۔