جموں کشمیر صوبہ میں پی ڈی پی اور بی جے پی کی متحدہ سرکاربنے گی۔ یہ اچھی خبر ہے۔یہ کشمیر کیلئے ہی نہیں ‘پورے بھارت کیلئے اچھی خبر ہے بلکہ سارے جنوب ایشیا کے لئے بھی ہے۔ اب تک ملک کے کئی صوبوں میں اور مرکز میں بھی کئی متحدہ سرکاریں بنی ہیں لیکن جموں کشمیرمیں بننے والی یہ متحدہ سرکار اپنے آپ میں عجیب ہے ۔اگر یہ سرکار اگلے چھ سال تک ٹھیک ٹھاک کام کرتی رہی تومجھے لگتا ہے کہ یہ اکیسویں صدی کے عظیم بھارت کے ابھرنے میں بڑی مددگار ہوگی ۔
پی ڈی پی اور بی جے پی کا ساتھ آناکس بات کا اشارہ ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ بھارت کی جمہوریت کافی مضبوط ہو گئی ہے؟ جس بی جے پی کو اب بھی کئی لوگ مسلمانوں کے خلاف سمجھتے ہیں وہ بی جے پی ایک بنیاد پرست مسلم پارٹی کے ساتھ متحدہ سرکار بنا رہی ہے۔ یہ بڑا مشکل کام تھا ‘لگ بھگ ناممکن! اسی لئے اس پر راضی ہونے میں دونوں پارٹیوں کودو ماہ لگ گئے۔ آج تک کسی متحدہ سرکار کو بننے میں اتنی دیر کبھی نہیں لگی۔ اب یہ اتحاد بنا رہاتو کشمیر کی وادی‘جموں اور لداخ ان تینوں علاقوں کوسرکار میں مناسب جانشین اپنے آپ مل جائے گا۔یہ سرکار اس صوبہ کے جغرافیائی علاقوں میں ہی نہیں مختلف نسلی و لسانی گروہوں‘ مذہبی فرقوں‘ مسلم‘ ہندو‘ بودھ اور شیعوں میں بھی توازن بنائے رکھے گی۔ اس صوبہ میں تمام طبقوں کے مابین توازن کی یہ پالیسی خوشحالی کے نقطۂ نظر سے سرکار کے لیے بڑی کارگر ثابت ہوگی۔
اس اتحادکی تعمیر میں دونوں پارٹیوں نے کافی لچیلاپن (لچک دار رویہ) دکھایا ہے ۔آرٹیکل 370 پر بی جے پی نے چپ رہنے‘ فوجی قانون کو ڈھیلا کرنے‘حریت وغیرہ سے تعلق رکھنے پاکستان سے بات کرنے وغیرہ کے نازک مدعوں پر اپنے اصراروں کو چھوڑ دیا ہے ‘اسی طرح پی ڈی پی نے پنڈتوں کی واپسی اور جموں پر مکمل توجہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ کنٹرول لائن کے آر پارآنے جانے اور تجارت بڑھانے کا بھی ارادہ دونوں پارٹیوں نے کیا ہے۔
دونوں پارٹیوں کے یہ ارادے کشمیر صوبہ کانقشہ تو بدلے گا ہی ‘وہ ملک کے نام ایک پیغام بھی ہوگا۔وہ پیغام یہ ہوگا کہ کوئی پارٹی کسی بھی سلسلہ خیال (مکتب فکر) کو مانتی ہو‘ ملکی مفاد سب سے مقدم ہونا چاہیے۔ ملکی مفاد کی خاطر وہ اپنے سلسلہ خیال کو حاشیے میں ڈال سکتی ہے ۔اسے ہی جمہوریت کا حسن اور جمہوری مزاج کہتے ہیں۔
جموں کشمیر سے پیدا ہوئے برد باری کے یہ جذبات بھارت پاک تعلقات کو بھی متاثر کیے بنانہیں رہیں گے۔مجھے خوشی ہے کہ مودی سرکار نے اپنی بھول قبول کر لی ہے ۔اب وہ حریت کو اچھوت نہیں مانے گی ۔اگر کشمیر سرحد کھل جاتی ہے تو دونوں ملکوں کے بیچ تناؤ کافی کم ہو جائے گا۔جو کشمیر بھارت پاک کے بیچ نااتفاقی کی خندق بنی ہوئی ہے‘وہ دنوں ملکوں کے بیچ بات چیت کی پل بن جائے گی۔یہ قدم اٹل جی (واجپائی) کے خوابوں کو تعبیر دے گا۔اگر بھارت پاک تعلقات تھوڑے بہتر ہو جائیں تو پورے جنوب ایشیا کی سیاست ہی بدل جائے گی ۔تیس سال کے سفرکے باوجود جو سارک ابھی تک گھٹنوں کے بل گھسٹ کر چل رہا ہے۔ پرنتو اب وہ دوڑنے لگے گا۔ کشمیر کی یہ نئی سرکارچاہے تو اپنے بہتر کاموں سے ایساماحول پیدا کر سکتی ہے ‘جو جنوب ایشیا کواگلی دہائی میں یورپی یونین سے بھی بہتر بنا سکتا ہے ۔
قومی تعمیرات کے لیے اراضی کا حصول
لینڈایکوزیشن (قومی تعمیرات کے لیے اراضی کا حصول) قانون کو لے کر ملک میں زبردست ہلچل مچی ہوئی ہے۔ اپنے آپ کوکسانوں کا لیڈر بتانے والی متعدد جماعتوں نے کئی زبردست مظاہرے کیے۔ کانگریس نے ‘اپنا مؤقف لچر پچر ہی سہی‘مخالفت تو ظاہر کی ہے ۔مظاہروں اور پارلیمنٹ میں چاہے ماں بیٹا کچھ نہ بولیں لیکن کئی ہارے تھکے کانگرسی لیڈر جنتر منتر پہنچ گئے ۔بی جے پی کے اتحادی بھی بغاوت کی آواز اٹھا رہے ہیں ۔شو سینا ‘پاسوان لمیٹڈ کمپنی اور اکالی دل نے بھی لینڈ ایکوزیشن آرڈیننس میں ترمیم کی مانگ کی ہے ۔راجیہ سبھا میں واضح اکثریت والی لگ بھگ سبھی اپوزیشن پارٹیاں ایک ہو گئی ہیں ۔اس آرڈیننس کو اگر سرکارقانون بنوانے پر آمادہ ہوئی تو اسے لوک سبھااور راجیہ سبھا کے مشترکہ اجلاس میں ہی پاس کروانا پڑے گا۔ سرکار بھی نرم پڑی ہے ۔اس نے نئے مشوروں پر عمل کرنے کیلئے ایک کمیٹی بنا دی ہے ۔
اس ساری بحث میں کچھ ایسے معاملات ابھرتے ہیں‘ جن سے ہمارے لیڈروں کا تھوتھا پن جم کر ظاہر ہوتا ہے ۔جن پارٹیوں نے کانگریس کے اس خاص قانون کی واضح حمایت کی تھی ‘وہ اب اس کی
مخالفت کر رہے ہیں ؟کیوں کر رہے ہیں؟ کیونکہ وہ اب اقتدار میں ہیں۔ اب ان کے دلائل بدل گئے ہیں۔ اس کا مطلب کیا یہ نہیں کہ وہ یا تو پہلے غلط کر رہے تھے یا اب غلط کر رہے ہیں؟کئی کانگرسی صوبائی سرکاروں نے اپنی ہی سرکار کے اس مرکزی قانون کے کئی پہلوؤں پر اعتراض کیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں ایک ہی مدعے پرسیاسی پارٹیوں کی رائے کسی سبب کے بغیر ہی بدل جاتی ہے۔ اس لیے عام آدمی یہ نہیں سمجھ پاتا کہ کسی بھی مدعہ پردرست رائے کیا ہے؟
بی جے پی کے ذریعے لائے جارہے اس قانون میں دو باتیں سب سے زیادہ اعتراض والی مانی جارہی ہیں ۔پہلی تو یہ کہ جن کسانوں کی زمین پر سرکار قبضہ کرے گی ‘اُن میں ستر فیصدی کی رضامندی کے بجائے پچاس فیصدی کی رضامندی ضرور ہوگی اور کانگرسی قانون کا یہ دستوربھی ختم کر دیا جائے گاکہ کسی زمین پر قبضہ کرنے سے پہلے سرکار اس کے معاشرتی نتائج کا ضرور جائزہ لے گی کہ کہیں ان کسانوں کے خاندانوں کو کوئی بھاری معاشی نقصان تو نہیں ہوگا۔مودی سرکار پر الزام ہے کہ وہ ایسا اس لیے کر رہی ہے کہ وہ کارخانے داروں کوزبردست فائدہ پہنچانا چاہتی ہے ۔یہ الزام بالکل سچ بھی ہو سکتا ہے لیکن مانو‘ میں اگر سرکار کی نیت پر شک نہ بھی کروں تو پوچھنا چاہوں گا کہ پچاس یا ستر کی بجائے کسانوں کی رضامندی کو وہ 90 فیصد کیوں نہیں کر دیتی؟ کسی بھی کسان کے لیے اس کی زمین اس کی جان سے پیاری ہوتی ہے ۔اس پر قبضہ کرتے وقت آپ اس کی رضامندی کیوں نہیں لیں گے ؟جب آپ اسے بازار ریٹ سے چار گنا زیادہ پیسہ دے رہے ہیں تو اپنی رضامندی وہ کیوں نہیں دے گا؟ جہاں تک معاشرتی نتائج کے حساب کا سوال ہے‘ وہ کون کرے گا؟ماہر اور افسر! وہ ملکی مفاد کی ہی بات کریں گے ۔اگر وہ اس قبضے کو نامناسب پائیں گے ‘تو ویسا کہیں گے ۔اس قاعدہ کو بھی ہٹانے کا کوئی سبب نہیںہے ۔کچھ قانون ایسے بھی ہونے چاہئیں کہ زمین دینے والے کسانوں کو‘ پچاس یاسو سال تک اُن کا مالکانہ حق (پیسہ)لگاتار ملتا رہے ۔وزیر اعظم اگر اس مدعا کو اپنی عزت کا سوال بنائیں گے تونقصان میں رہیں گے اور لچیلا پن (نرم رویہ) دکھائیں گے توکسانوں اور کارخانے داروں‘ دونوں کے پیارے بن جائیں گے۔