مودی سرکار کو گزشتہ ہفتے دو زبردست دھچکے لگے ہیں۔ ایک دھچکا سری لنکا میں لگا اور دوسراکشمیر میں۔ مودی سرکار کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کولمبو میں قدم رکھااور سری لنکا کے وزیر اعظم رنل وکرم سنگھ نے دھماکہ کر دیا۔انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہہ دیا کہ اگر بھارت کے مچھوارے سری لنکائی سمندر میں گھس کر مچھلی پکڑیں گے تو ہمیں انہیں گولی مارنے کا حق ہے۔ انہوں نے یہ طنز بھی کیا کہ بھارت سرکار نے اطالوی فوجیوں کو گرفتار کر رکھا ہے یا نہیں ؟وہ انہیں آزاد کیوں نہیں کر دیتا؟
اسی طرح مقبوضہ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ مفتی سعید نے مسرت عالم نامی حریت پسند کو رہا کر دیا ہے ۔مسرت کوئی معمولی آدمی نہیں ہے ۔وہ اکتوبر2010 ء سے جیل میں تھا۔ اس کی گرفتاری پر دس لاکھ کا انعام تھا۔ اس نے 2010 ء میں بھارت کے خلاف مظاہرے کئے تھے‘ جن میں 117کشمیری نوجوان مارے گئے تھے۔کئی فوجی بھی ہلاک ہو گئے تھے ۔وہ حریت لیڈر سید علی شاہ گیلانی کے نمبر دو لیڈر ہیں۔
پتا نہیں کہ مفتی صاحب نے مسرت اور دیگر قیدیوں کو آزاد کرنے سے پہلے بی جے پی لیڈروں سے کوئی صلاح مشورہ کیا یا نہیں۔ اس اقدام نے پورے ملک میں بی جے پی کی چار پائی کھڑی کر دی ہے ۔بی جے پی کے کارکن اور حمایتی پریشان ہیں ۔اگر مفتی صاحب پاکستان اور حریت کو چناوؤں کا کریڈٹ دیتے ہیں اور ان قیدیوں کو چھوڑ دیتے ہیں تو مجھے یہ انداز ہ ہوتا ہے کہ ان کے سب ایسے کاموں کے پیچھے کوئی بڑی اور گہری پلاننگ ہے ۔شاید وہ کشمیر کے مسئلے کواپنی فراخدلی سے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔اگر ایسا ہے اور اس کے پیچھے مودی سرکار کی خاموش رضامندی ہے تویہ جوأ کھیلنے لائق ہے ۔اور اگر یہ ساری پہل مفتی صاحب اپنی مرضی سے کر رہے ہیں تو مان کر چلئے کہ مرکزکو نہ صرف یہ اتحاد توڑنا پڑے گابلکہ ہو سکتا ہے کہ اور بھی سخت اقدام کرنا پڑیں۔
جہاں تک سری لنکا کا سوال ہے ‘مودی کے دورے میں ایک اڑنگا سا لگ گیا ہے ۔ہمارے تامل ناڈومیں ہنگامہ مچ گیا ہے۔ کہیں انہیں مالدیپ کی طرح سری لنکا کا دورہ بھی ملتوی نہ کرنا پڑے ۔سشماجی نے اس سخت بیان کے باوجود کافی سمجھداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ میں پُراعتماد ہوں کہ سری لنکا کے وزیر اعظم کو اس بات پر راضی کر لیں گی کہ وہ اپنے بیان کی صفائی اس طرح سے دے دیں کہ بھارتیوں کو دھچکا نہ لگے ۔سری لنکا کی موجودہ سریسینا سرکار بھارت پرست ہے اور وہ چین کے ساتھ صرف ضروری تعلقات بنانا چاہتی ہے۔ ایسے میں سری لنکائی وزیر اعظم کے بیان نے بے چینی پیدا کر دی ہے ۔اگر مودی کا سری لنکا دورہ ملتوی ہو گیا توہماری سارک پالیسی کوزبردست دھکا لگ جائے گا۔
کسان بل کسانوں کے خلاف نہیں !
لینڈایکوزیشن لوک سبھا میں تو پاس ہونا ہی تھالیکن راجیہ سبھا میں کیسے پاس ہوگا؟کسی اپوزیشن لیڈر نے کہا ہے کہ اس نئے قانون کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے ساری اپوزیشن کوایک کر دیا۔اپوزیشن سے میرا سوال ہے کہ کیا سچ مچ وہ اسی قانون کی وجہ سے ایک ہوئی ہے ؟وہ تو پہلے سے ہی ایک ہے ۔اسی اتحاد کو وہ طرح طرح کی مخالفت کی شکل میں ظاہر کرتی رہی ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ ساری اپوزیشن مسرت کی رہائی کو لے کر بی جے پی پر ٹوٹ پڑی تھی یا 'انڈیازڈاٹر‘فلم کو لے کربوکھلا گئی تھی یا حافظ سعید سے میری ملاقات کو لے کر پگلا گئی تھی ؟اس وقت بھارت کی اپوزیشن پارٹیوں کے پاس ایک بھی لیڈر ایسا نہیں‘ جو ساری مخالف پارٹیوں کوایک قطار میں لاکھڑا کرسکے۔
اپوزیشن کے پاس نہ تو کوئی مدعہ ہے نہ کوئی پالیسی اور نہ ہی کوئی پروگرام ہے۔ اس کے پاس بس ایک ہی پروگرام ہے۔ ہر مدعے پر اپنی اندر کی آگ نکالنا۔اب جبکہ سرکار نے اپنے لینڈ ایکوزیشن بل میں نو ترامیم کر دی ہیں تو اس بل کی تعریف کسی بھی اپوزیشن نے نہیں کی۔ اپوزیشن پارٹیوں اور غیر جانبدار ہم خیالوں کے اس گمان کاپوری طرح حل نکل چکا ہے کہ بی جے پی سرکاردولت مندوں اور کارخانہ داروں کو فائدہ پہنچانا چاہتی تھی‘ تو پھر اس بل میں اعتراض کے لائق کیا بات رہ گئی ہے ؟اس بل میں یہ واضح ہو گیا ہے کہ نجی کمپنیوں کیلئے لینڈ ایکوزیشن قطعی نہیں ہو گی‘چاہے وہ سکول یا ہسپتال بنانے کا وعدہ کریں۔ اس کے علاوہ زمین دینے والے کسانوں اور مزدوروں کو روزگارودینے کی بات اس الزام کوبھی خارج کر دیتی ہے کہ یہ قانون کسان کے خلاف ہے ۔کئی فصلوں والی آباد زمین نہ لینے کا قاعدہ بھی کسان کے فائدے میں ہے ۔اس قانون کا سب سے بڑا فائدہ کسانوں کو یہ ہو گا کہ وہ اپنی چھوٹی چھوٹی کھیتیوں سے آزاد ہوں گے اور مناسب روزگاراور بڑا معاوضہ بھی پائیں گے۔یہ بغیر فائدے والی کھیتیاں انہیں ہمیشہ پھٹے حال اور قرض دار بنا کر رکھتی ہیں ۔گاؤں میں کارخانے ‘خوشحالی اور جدید سہولیات پہنچیں گی تو کسانوں کی زندگی بہتر ہو گی۔
لینڈ ایکوزیشن کرنے میں سرکار نے خود پر بھی کئی قانون نافذ کئے ہیں ۔کسانوں کو نچلی عدالتوں میں جانے کا موقع بھی دیا گیا ہے۔ اس نئے قانون کی ایک ہی بات سمجھ میں نہیں آئی کہ جس کسان کی زمین چھینی جائے‘ اس کی رضامندی لینے کی بات کوکیوں بالکل اڑادیا گیا ہے؟ اگر 80 اور70 فیصدنہ سہی‘کم از کم 51 فیصد کسانوں کی رضامندی تو لی ہی جانی چاہئے تھی۔اگر ان کی زمین ان کی بہتری کیلئے لی جا رہی ہے اور انہیں بازار کے ریٹ سے چار گنا معاوضہ دیا جا رہا ہے تو وہ 'انکار‘ کیوں کریں گے ؟آگرہ ایکسپریس وے کیلئے لی گئی زمین اس کا ثبوت ہے ۔یہ قاعدہ بھارت کو روسی اور چینی قاعدوں سے الگ کرے گا۔یہ جمہوری دستور ہے ۔اگر بھارت کی اپوزیشن اس طرح کی مانگیں رکھے توبھارت سرکار کو ان پر ضرور سوچنا چاہئے ورنہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی متحدہ اسمبلی واحد حل رہ جائے گا۔
منجو ناتھ کے قاتل ؛ عمر قید کافی نہیں!
سپریم کورٹ مبارک کے حق دار ہے کہ اس نے ایس منجو ناتھ کے چھ قاتلوں کو عمر قید کی سزا سنائی ہے ۔یہ منجو ناتھ کون ہے ؟منجو ناتھ ہماری انڈین آئل کارپوریشن کے منیجر تھے ۔27 سال کے اس منیجر نے یوپی کے لکھم پو ر کھیری میں ایک پٹرول پمپ کو ملاوٹ کرتے ہوئے پایا۔ اسے پتا چلا کہ وہ پٹرول پمپ تیل میں ملاوٹ ہی نہیں کرتا ہے بلکہ صارفین کو ناپ تول میں بھی ٹھگتا ہے۔ 2005ء کوجب منجو ناتھ پٹرول کا نمونہ لینے اور جانچ کرنے وہاں پہنچے تو پٹرول پمپ پر ہی اس کا قتل کر دیا گیا۔
منجو ناتھ جیسے کئی ہمت والے اور ایماندارافسروں کے قتل پہلے بھی ہو چکے ہیں لیکن منجو ناتھ کا قتل اس لئے اُبھر آیا کہ وہ لکھنؤ کے آئی آئی ایم کا شاگرد رہا ہے اور اس کے ساتھی طالبوں نے انہیں پکڑوانے کا بیڑا اٹھالیا تھا۔ منجو ناتھ کے پرانے کلاس فیلوانجلی اور ایچ جے شنکر نے منجو ناتھ ٹرسٹ بنایا اور اس ٹرسٹ کے ذریعے وہ پچھلے دس سال سے قانونی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔اس ٹرسٹ کے کئی نوجوان سات آٹھ سال پہلے دلی بھی آئے تھے اور انہوں نے صحافیوں سے مل کرقاتلوں کے خلاف جم کر مشن بھی چلایاتھا۔خود منجو ناتھ کے فیملی والے اتنے غریب ہیں کہ وہ بیچارے مقدمہ نہیں لڑ سکتے تھے۔ ان کی مدد مشہور وکیل کامنی جیسوال نے کی ۔
منجو ناتھ نے اپنی زندگی قربان کر کے ملک کے سبھی سرکاری افسروں کیلئے ایک مثال قائم کی ہے ۔منجو ناتھ جیسے لوگ حقیقی بھارت رتن ہیں ۔منجو ناتھ نے بھارت کی شان بڑھائی ہے۔ اس وقت جبکہ سرکاری افسر اور بڑے سے بڑے لیڈربد عنوانی اور رشوت خوری کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں ‘منجو ناتھ جیسے جوان اپنی سانسوں کی پروا کئے بنا قربان ہوگئے۔
منجو ناتھ کے قاتلوں کو عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔عدالت نے یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا ہوگالیکن یہ سزااخباری خبر کے علاوہ کیا ہے؟ یہ فیصلہ صرف خبر نہ بنے بلکہ ہدایت نامہ بن جائے‘ اس کے لئے ضروری ہے کہ منجو ناتھ کے قاتلوں کو لکھنؤ یا دلی کے کسی مشہور چوراہے پر ہزاروں کی بھیڑ کے سامنے پھانسی پر لٹکایا جائے ۔اس سے قاتل بھی خوفزدہ ہوں گے اور ملاوٹی بھی !کیا منجو ناتھ کیلئے لڑنے والوں کو بھی کوئی ٹرسٹ اعزاز سے نوازے گا۔