"DVP" (space) message & send to 7575

کشمیر : مودی بڑھیں اٹل کی راہ پر

جموں کشمیر اسمبلی کے بجٹ سیشن کاافتتاح کرتے ہوئے گورنر ووہر ہ نے دوٹوک لفظوں میں کہا کہ مفتی سعید سرکار مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سبھی 'اندرونی فریقوں ‘ سے بات کرنے کو تیار ہے ۔اندرونی فریق کا مطلب ہے ۔ 'حریت‘۔انہوں نے حریت کو بات کرنے کی کھلی دعوت دی ہے ۔اس میں ایک مقصد اور چھپا ہوا ہے ۔وہ یہ کہ مفتی کی سرکار صرف ایک صوبائی سرکار ہے ۔وہ صرف صوبہ کے لوگوں سے بات کر سکتی ہے ۔غیر ملکی لوگوں سے نہیں ۔ پاکستانیوں سے نہیں ۔
ضروری سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان سے بات کئے بنا مسئلہ کشمیر حل ہو سکتا ہے؟کشمیر اس لئے مسئلہ بناہوا ہے کہ پاکستان اسے اٹھاتا رہتا ہے ۔اگر پاکستان اپنا ہاتھ کھینچ لے تو کشمیر کا مسئلہ اپنے آپ ہوا ہوجائے گا ۔اگر میرا یہ خیال ٹھیک نہیں ہے تو آپ بتائیے کہ ہماری سرکاریں (مقبوضہ ) کشمیرمیں بدامنی اور علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں کے لیے ہمیشہ پاکستان کو کیوں قصوروار ٹھہراتی ہیں ؟کشمیر کی صوبائی سرکار سیدھی پاکستان سے بات نہیں کر سکتی ۔وہ بات تو بھارت کی مرکزی سرکار ہی کر سکتی ہے ۔ بھارت سرکار اگر پاکستان سرکار سے کوئی بات چیت نہیں کرے گی تو مفتی سرکار کی حریت سے کی گئی بات کا کوئی ٹھوس نتیجہ نکلنا ناممکن ہے ۔یہ بات حریت نے اپنے بیان میں صاف کر دی ہے ۔ حریت نے مفتی کی پہل پر جو رد عمل دیا ہے ‘اس میں صاف صاف کہا ہے کہ کشمیر کا حل تین پارٹیاں ہی نکال سکتی ہیں ۔ایک (بھارت )سرکار‘دوسرا پاکستان سرکاراور تیسرا کشمیری عوام ۔میں اس میں چوتھا طبقہ جوڑتا ہوں،اوروہ ہیں پاکستانی کشمیر ی!بھارتی پالیسی سازوں کی سمجھ یہ ہے کہ پاکستانی کشمیر کے لیڈر اور لوگ پاکستان سرکار کی جیب میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ایسا نہیں ہے ۔ آزاد کشمیر کے کئی وزرائے اعظم سے میری ملاقات ہوتی رہی ہے ۔ کشمیر کے حل میں انہیں بھی شریک کرنا ضروری ہے ۔
بھارت سرکار کو کشمیر پر پاکستان سے سیدھی بات کرنی چاہئے ۔ یہ تعجب کی بات ہے کہ کشمیر کا سوال بھارت آگے ہوکر کبھی اٹھاتا ہی نہیں ہے۔ہر بین الاقوامی سٹیج پر پاکستان ہی کشمیر کا سوال اٹھاتا ہے ۔قانونی طورپر اگر جموں کشمیر کا پورا علاقہ بھارت کا ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ بھارت اس کشمیر کے بارے میں اپنی دُم کیوں دبائے رہتا ہے ‘جس پر پاکستان کا قبضہ ہے ؟وہ اس کشمیر کو لوٹانے کی تحریک کیوں نہیں چلاتا؟ہر بین الاقوامی سٹیج پراسے واپس لینے کی مانگ کیوں نہیں اٹھاتا؟
پاکستان کی فوج اور سرکار نے پچھلے 68 سال میں سارے پینترے اپنا لئے ۔لیکن اب وہ یہ بات اچھی طرح سے سمجھ گئی ہے کہ وہ بھارتی کشمیر کی ایک انچ زمین بھی نہیں چھین سکتی ۔یہ بات حریت کوبھی کافی اچھی طرح سمجھ میں آگئی ہے ۔اس کے لیڈر بھی مان گئے ہیں کہ مذاکرات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے ۔حریت کے زیادہ تر لیڈر لڑتے لڑتے بزرگ ہو گئے ہیں،تھک گئے ہیں ۔وہ بھی بات چیت چاہتے ہیں لیکن اس میں پاکستان کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں ۔ خود پاکستان بات چیت میں شامل ہونے کیلئے بے تاب ہے ۔ پاکستان کے کروڑوں لوگ اب کشمیر کے نام پر قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں ۔وہ اپنے لئے روٹی کپڑا ‘ مکان ‘تعلیم اور صحت کی سہولیات چاہتے ہیں ۔ لیکن ہماری مودی سرکار اپنے نفسیاتی تناؤ سے ابھر نہیں پا رہی ۔وہ پاکستان تو کیا حریت سے بھی بات نہیں کرنا چاہتی ۔حریت کے لیڈر پاکستانی ہائی کمشنر باسط سے کیا ملے کہ ہماری سرکار نے بھارت پاک بات چیت منسوخ کر دی ۔انٹر نیٹ ‘ سکائپ اور موبائل فون کے زمانے میں آپ کسی کی بھی بات کو کیسے روک سکتے ہیں ؟جب یہ سہولیات نہیں تھیں ‘ تب بھی بھارت کے وزرائے اعظم نے کشمیر کے سوال پر حریت سے سیدھا رابطہ بنایا ہوا تھا۔نرسمہا راؤ جی نے لال قلعہ سے کہا تھا کہ کشمیر کی خود مختاری کی حد آسمان تک ہے اور اٹل جی نے کہا تھا کہ باقی سب دائرے ٹھیک ہیں لیکن کشمیر کا مسئلہ میں 'انسانیت‘ کے دائرے میں رہ کر حل کرنا چاہتا ہوں ۔یہی پالیسی ڈاکٹر من موہن سنگھ نے چلائی تھی۔مشرف جیسے بھارت مخالف لیڈر کے ساتھ ہمارے بھاجپائی اور کانگریسی ‘ دونوں وزرائے اعظم کی پٹری بیٹھ گئی تھی۔اگر وہ دو چار سال اور ٹِکے رہتے توشاید کشمیر کا کوئی حل نکل آتا۔
نریندر مودی کے وزیر اعظم بنتے ہی بھارت پاک تعلقات میں ایک نئے باب کی شروعات ہو گئی تھی ۔اپنی حلف برداری تقریب میں میاں نواز شریف کو بلا کر مودی نے پاکستان میں نئی فضا قائم کر دی تھی ۔پچھلے سال میرے پاکستان سفر کے دوران وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے صلاح کار سرتاج عزیز سے کھلی بات چیت ہوئی ‘ اس میں ، میں اسی نتیجے پر پہنچا تھا کہ وہ اٹل جی کے ذریعے کی گئی پہل کو آگے بڑھاتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں ۔پاکستان کے کئی 'تھنک ٹینکوں ‘ سے صلاح و مشورہ کا مقصد بھی یہی تھا کہ مودی ایک مضبوط وزیر اعظم ہیں اور بھارت پاک تعلقات کو سدھارنے کیلئے
سخت فیصلے لے سکتے ہیں ۔مودی نے خارجہ سیکرٹری ایس جے شنکر کو اسلام آباد بھیج کر جو گاڑی پٹری سے اتر گئی تھی ‘اسے دوبارہ پٹری پر لانے کی کوشش کی ہے ۔مفتی سعید اسی گاڑی کو تیزی سے چلانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔مفتی نے صرف حریت سے بات کرنے کا دروازہ نہیں کھولا ہے ۔بلکہ وادی سے بھاگے ہوئے پنڈتوں کی واپسی کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔انہوں نے پاکستانی قبضے کے پناہ گیر وں کے مسائل کے حل کی بھی تسلی دی ہے ۔
اب اصلی سوال یہی ہے کہ کیا وفاقی سرکار مفتی کو ضروری چھوٹ دے گی ؟ابھی تو گورنر نے بات چیت کی بات ہی چھیڑی ہے ۔سب خاموش ہیں لیکن اگر مفتی بولیں گے تو کہیں پھر ہنگامہ کھڑا نہ ہو جائے ؟وفاق کی ذمہ داری ہے کہ وہ مفتی کی بات کو آگے بڑھائے ۔گورنر تو مرکزی سرکار کانمائندہ ہوتا ہے ۔لگتا ہے کہ اپنی تقریر میں انہوں نے وفاقی اور صوبائی دونوں کی بات کہی ہے ۔انہوں نے انسانیت ‘کشمیریت اور جمہوریت تینوں کو اپنی بات کی بنیاد بنائی ہے ۔مرکزی سرکار کیلئے یہ غیر معمولی موقع تیار ہوا ہے ۔نریندر مودی چاہیں تواٹل جی کے ادھورے سفر کو مکمل کر سکتے ہیں ۔اگر کشمیر میں امن کا ماحول بن گیا توبھارت پاک تعلقات تو بہت عمدہ ہوہی جائیں گے ‘پورے جنوب ایشیا کا ہی نقشہ بدل جائے گا۔تب بھارت کی تاریخ میں مودی کا مقام سب سے کامیا ب وزرائے اعظم کے بیچ ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں