جموں کے کٹھوا اور سانبا سیکٹر میں حملہ کر کے دہشت گردوں نے وزیر اعلیٰ مفتی سعید کو مجبور کر دیا کہ وہ ان کو واضح طور پر خبردار کر دیں۔ مفتی صاحب نے وزیر اعلیٰ بنتے ہی جس ایجنڈے کا اعلان کیا تھا‘ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کی اور بی جے پی کی حکومت ایسے کام کرے گی‘ جن سے جموں اور وادی کے رشتے ٹھیک ہوں گے‘ بھارت کے ہندوؤں اور مسلمانوں میں بھائی چارہ بڑھے گا اور بھارت اور پاکستان کے باہمی تعلقات بہتر ہو جائیں گے۔ اگر یہ عمل چلتا رہتا تو مندرجہ بالا تینوں ہدف تو پورے ہوتے ہی‘ دہشت گردوں کو بھی راحت ملتی۔ انہیں دہشت پھیلانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی‘ لیکن دہشت گردوں نے اب جموں میں جو حملے کئے‘ ان کے نتیجے میں انہوں نے خود ہی اپنی قبر کھود لی ہے۔
مفتی صاحب کو اب سختی برتنا پڑے گی۔ اب لگتا ہے کہ سری نگر میں چل رہی سرکار کو وفاق اور بی جے پی کے اشاروں پر ناچنا پڑے گا۔ دہشت گردوں کی کرتوتوں نے مفتی صاحب کو کمزور کر دیا ہے اور وفاق کو مضبوط بنا دیا ہے۔ مفتی صاحب چاہ رہے تھے کہ فوج کے اختیارات کچھ کم ہوں اور کچھ علاقوں سے اس کی واپسی ہو۔ اس کے لئے وفاق بھی تیار ہو رہا تھا‘ لیکن دہشت گردوں نے فوج کے ہاتھ ایک بار مضبوط کر دیے ہیں۔ اب ایک بار پھر فوج کے مخصوص حق کے قانون کم ہونے کے بجائے بڑھیں گے۔ اگر مفتی صاحب جیسے حکمران کی حکومت میں اس طرح کے واقعات ہوں تو کون ڈھیل دینے کی وکالت کر سکتا ہے؟
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردوں نے پاکستان کو بھی سنگین اور شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جموں و کشمیر اسمبلی میں پاکستان مخالف نعرے لگنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ یہ نعرے بی جے پی کے صوبائی ارکان نے لگائے تھے جبکہ مرکز کی بی جے پی سرکار نے اپنا خارجہ سیکرٹری اسلام آباد بھیجا تھا۔ اب بھارت کی وفاقی سرکار حریت والوں سے پاکستانی قونصلیٹ کی بات چیت کو بھی منع نہیں کر رہی ہے۔ ایسے میں دہشت گردوں نے پلستر میں کچرہ کر دیا۔ مفتی صاحب نے نواز شریف سرکار سے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ وہ انتہا پسندوں کو لگام دے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس دہشت گردی کا لنک بیرونی ہے۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف صاحب کو چاہیے کہ وہ نریندر مودی سے سیدھی بات کریں یا دونوں ملکوں کے وزیر داخلہ سیدھی بات کریں۔ دہشت گردی کے ان واقعات کی وجہ سے پاک بھارت مذاکرات کی گاڑی پٹڑی سے نیچے نہیں اترنی چاہیے۔
تھوک ریزرویشن غیر ضروری
سپریم کورٹ نے جاٹوں کی ریزرویشن (یعنی کوٹا )کو رد کر دیا ہے ۔پچھلی سرکار نے جاٹوں کی گنتی دوسرے پسماندہ طبقوں میں کر کے انہیں ریزرویشن دیا تھا۔اس ریزرویشن کی وجہ سے بیک ورڈ والے سبھی کو ملنے والے ٹوٹل میں 27 فیصد ریزرویشن میں کٹوتی ہو رہی تھی ۔وہ ناراض ہو رہے تھے لیکن کانگریس سرکار نے عام چناو ٔ کے پہلے9 صوبوں میں جاٹوں کو تعلیم اور نوکریوں میں ریزرویشن دے دیا۔اس کا مقصد صرف ایک تھا۔جاٹوں کے تھوک ووٹ حاصل کرنا۔اپنے مطلب کیلئے لیڈر لوگ اپنے ملک کوکیسے نقصان پہنچاتے ہیں ‘اس کی مثال ہے ‘یہ قدم! ہمارا سماج ٹکڑوں میں بٹ جائے اور مختلف طبقوں میں حسداور نفرت پھیل جائے ‘اس کی فکر انہیں نہیں ہے۔جاٹ لوگ بھی ان کی فکر کیوں کرتے ؟انہیں جب کئی چیزیں مل رہی ہیں تو وہ منع کیوں کریں ۔ہاں ‘کئی چودھریوں کو میں نے یہ کہتے بھی سنا ہے کہ کون ہوتا ہے ہمیں بیک ورڈ کہنے والا؟ حقیقت میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اکانومی اور معاشرتی ناپ تول کے مطابق جاٹوں کو بیک ورڈ نہیں مانا جاسکتا۔پرانے آنکڑوں (سروے ) کے بنیاد پر کسی بھی طبقے کوریزرویشن دینا ٹھیک نہیں ہے ۔
میری گزارش ہے کہ ذات کی بنیاد پرریزرویشن دینا ریزرویشن کا مذاق ہے۔ ریزرویشن کی اس سے بڑی بے حرمتی کیا ہوگی کہ آپ ریزرویشن دیتے وقت اپنی آنکھ بند کرلیں ۔جسے ریزرویشن دے رہے ہیں‘ اس کی اکانومی اور سماجی حالت کا جائزہ کئے بنا ہی اسے تھوک میں ریزرویشن دے دیں ۔وہ انسان ہیں یاجانور ہیں‘ جیسے جانوروں کو تھوک میں ہانکا جاتا ہے ‘ویسے ہی آپ تھوک میں ریوڑیاں بانٹ رہے ہیں ۔ملائم یا لالو کیا بیک ورڈ ہیں ؟مایا وتی کیا دلت ہیں؟مایاوتی تو بڑے بڑے لوگوں کی دلتی رہی ہے ۔ایسے لوگوں کا یا ان کے رشتے داروں کوریزرویشن کی تک کیا ہے؟ ریزرویشن کی بنیاد ذات کو اس لیے بنایا گیا تھا کہ اس وقت ٹھیک ٹھیک آنکڑے (تخمینے )حاصل نہیں تھے۔اب تو ہر آدمی کے بارے میں ضروری جانکاری موجود ہے ۔اس لیے تھوک میں ریزرویشن فوراً ختم کیا جانا چاہئے۔صرف تعلیم میں ریزرویشن دی جانی چاہئے اور صرف انہیں ہی دی جانی چاہئے ‘جو غریب اور مسکین ہوں ‘لائق ہوں اور سچ مچ بیک ورڈ ہوں ۔جنم سے نہیں ‘عمل سے ۔