سب پوچھ رہے ہیں کہ عاپ کے لیڈر اب کیا کریں؟اس کا مطلب دونوں دھڑے کے لیڈر ہیں ۔اروند کجری وال دھڑا اور پرشانت یوگندر دھڑا۔یہ ٹھیک ہے کہ جو ٹوٹ عاپ پارٹی میں ابھی ہو رہی ہے ‘اس میں اروند کی فتح ہورہی ہے ۔عاپ پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کے ممبر اور عام کارکن اروند کے ساتھ جائیں گے ‘اس میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ لیکن پرشانت ‘یوگندر اور آنند کمار وغیرہ ایک دم الگ تھلگ پڑ جائیں گے ‘ایسا بھی نہیں ہے ۔وہ سیاسی زندگی سے ہاتھ دھو لیں گے‘ یہ سوچنا بھی غلط ہے ۔یہ لوگ اروند کجری وال اور انا ہزارے جیسے لوگوں سے بہت پہلے کے ملک کے اہم لوگوں کے ساتھ متحرک رہے ہیں ۔ پروفیسر آنند کمار کا کاشی کی فیملی سماج وادی تحریک کا اٹوٹ انگ رہا ہے‘ ان کے چار نسل خودمختاری و تحریک آزادی سے اب تک برابر بغیر کسی لالچ کے خیال سے جدوجہدکر رہی ہیں۔ اسی طرح پرشانت بھوشن اور ان کے والد شانتی بھوشن بھی بڑے دم خم والے وکیل رہے ہیں ۔اندرا گاندھی کو ہرانے والے راج نارائن کا مقدمہ بھی شانتی بھوشن نے لڑا تھا۔وہ وزیر قانون بھی رہے ہیں ۔اسی طرح یوگندر یادو بھی اپنی نوجوانی سے سماج وادی تحریک سے جڑے رہے ہیں ۔تو کیا اب وہ چپ ہو کر بیٹھ جائیںگے؟انہوں نے انا تحریک اور عاپ میں بھی اہم کردار نبھایا ہے ۔وہ اب نئی پارٹی ضرور بنائیں گے ۔اگر وہ پارٹی عوام کو بیدار اور جن آندولن کی پارٹی بن گئی تو کوئی حیرانی نہیں کہ وہ اگلے چار سال میں پورے ملک کی چہیتی پارٹی بن جائے ‘کیونکہ اس وقت ملک میں سبھی لوگ رہنما کی کمی محسوس کر رہے ہیں ۔عوام نے جنہیں واضح اکثریت سے اقتدار میں بٹھایا‘وہ عوام کی دلچسپی سے روزبروز نیچے گرتے جا رہے ہیں ۔
جہاں تک کجری وال پارٹی کاسوال ہے ‘اس کے سامنے مشکلات زیادہ ہیں ۔اسے دلی کو دلہن بنانا ہوگا۔ابھی دلی کابڑا حصہ بھکاری کی طرح ہے ۔وفاق کی کوشش ہوگی کہ عاپ کامیاب نہ ہو۔عاپ کو اگر دلی کے باہر پھیلانا ہے تو اسے وہی راستہ اپنانا ہوگا‘جو میں نے الگ ہوئی عاپ کے لیے بتایا ہے ۔ملک کی ساری سیاسی پارٹیاں چناوی مشینیں بن گئی ہیں ۔ایسے میں آپ کی ٹکر عاپ سے ہوگی۔اپنی پارٹی کے بڑوں سے اروند کجری وال نے نجات تو آسانی سے حاصل کر لی ہے لیکن اب اس کا پالا اپنے برابری والوں اور چھوٹوں سے پڑے گا۔ اگر ان کے ساتھ اروند نے صبراور نیازمندی سے کام نہیں لیا توعاپ پارٹی اور سرکار کے بُہارے جانے کے لیے تاریخ کی جھاڑو تیار ہے۔
عظیم انسان نرسمہاراؤ جی
نرسمہاراو ٔجی کا پورا نام تھا‘ پامل پورتی وینکٹ نرسمہاراؤ جی! ان کے اعزاز میں نریندر مودی سرکار ان کی یادگار بنا رہی ہے تو وہ مبارک کے حقدار ہیں۔ اس قدم سے کانگریس شرمندہ ہو رہی ہے تو ضرور ہو۔اگرآپ اپنے والد صاحب کی خیرات نہ کریں اور یہ نیک کام آپ کا پڑوسی کرے تو لوگ آپ پر تھوکیں گے‘ اس میں نیا کیا ہے ؟اسی لئے ٹی وی چینلوں پرکانگریس کے ترجمانوں کی یا تو گھِ گھی بندھی ہوئی ہے یا وہ رو رہے ہیں کہ مودی ہمارے رہنماؤں کو چھین کر اپنی زیب بڑھا رہا ہے ۔پہلے گاندھی ‘پھر پٹیل اور اب نرسمہاراؤ جی!
سچائی تو یہ ہے کہ یہ کانگریس سے آزاد بھارت کے خواب کونمایاں کرنا ہے ۔کانگریس مہاتما گاندھی کی جگہ راہول گاندھی کی آرتی اتار رہی ہے ۔کانگریس خود کو ختم کرنے پر جٹی ہوئی ہے۔ مودی اس عمل کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔راؤ صاحب کی یادگار پر کانگریس خوشی کا اظہار کرتی تو اس کا قد اونچا ہوتالیکن کوئی کیا کرے ‘وہ اپنی ہی یادگار بنوانے پر تُلی ہوئی ہے ۔
راؤ صاحب کی زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی سونیاکانگریس نے کتنی بے عزتی کی‘اس کی میں درجنوں مثالیں پیش کر سکتا ہوں۔ اس کی یکسانیت میں نرسمہاراؤ جی بڑے ہی صابرین ثابت ہوئے ۔ان کے دو وزیروں کے اعتراض کے باوجود انہوں نے راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کے لیے ایک سو کروڑ روپیہ دیے ۔ایک وزیر چاہتے تھے کہ سونیا گاندھی اور ان کے ایک حمایتی کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے لیکن راؤ صاحب نے صاف منع کر دیا۔ کانگریس کی ایک جماعت نے ارجن سنگھ ‘تیواری جی ‘شیلا دیکشت اور نٹور سنگھ کو فوراً نکالنے کا فیصلہ کر لیا ۔راؤ صاحب نے اسے طاق پر رکھوایا۔ان باغیوں سے صلح کرنے کی کوشش کی ۔انہوں نے سخت
مخالفین کو وزراء میں شامل کرلیا۔کچھ کو گورنر بنا دیا ۔اس کے باوجودکانگریسی ان کی جانب احسان فراموش دکھائی پڑے۔ یہ سفید جھوٹ ہے کہ انہوں آر ایس ایس سے مل کر بابری مسجد گروائی۔اس کے بارے میں اپنے تجربات کبھی تفصیل سے لکھوں گا ۔ان پر لگایا گیا یہ الزام بے وقوفانہ اور بد قسمتی ہے ۔وہ ملک کے چار عظیم وزرائے اعظم میں سے ایک تھے ۔نہرو‘اندرا جی‘نرسمہاراؤ جی اور اٹل بہاری واجپائی جی!کون سا ایسا وزیر اعظم ہے ‘جس کے دور میں بڑی غلطیاں نہیں ہوئی ہیں لیکن نرسمہاراؤ جی کو یاد کیا جائے گا‘ان کے اقصادی ترقی کے دور کے لیے ‘خارجہ پالیسی میں نئے پہلوئوں کیلئے‘ایٹم بم کی تیاری کے لیے ‘مخالفین کے لیے بردباری ‘اپنی سجنتا کے لیے اور سب سے بڑی اس بات کے لیے کہ انہوں نے وزیراعظم کے عہدے کو اپنے پر کبھی بوجھ نہیں بننے دیا۔اسے انہوں نے قمیض کی طرح پہنا اور قمیض کی طرح اتار کر رکھ دیا۔
قاتل ایک بھی نہیں ملا
آج سے اٹھائیس برس پہلے ہوئے ہاشم پور امیں سانحہ قتل پر جو فیصلہ عدالت نے دیا ہے ‘اس کا کیا مطلب لگایا جائے؟اس کا ٹھیک ٹھیک مطلب جاننے سے پہلے ہمیں کچھ باتوں کو سمجھ لینا چاہئے۔ہاشم پورا میرٹھ ضلع کا ایک گاؤں ہے ۔مئی 1987 ء میں ایک ہندو ڈاکٹرپربھات سنگھ کو ‘ایک عوامی ہجوم نے گھیر کر مار ڈالا۔تیسرے دن اتر پردیش کی پولیس اور فوج نے ہاشم پورا میں سینکڑوں مسلمانوں کو پکڑ کر ان کے گھر سے نکالااور لگ بھگ پچاس کو ٹرکوں میں بھر کر ایک ویران جگہ پر لے گئے ۔انہیں قطار میں کھڑا کرکے شوٹ کر دیا۔کچھ بھاگ گئے لیکن 42 لوگ مارے گئے۔ ان کی نعشوں کو گنگ نہر میں بہا دیا گیا ۔اس وقت اتر پردیش میں ویر بہادر سنگھ کی کانگریس سرکار تھی اور مرکز میں راجیو گاندھی کی سرکار تھی ۔اس خوفناک قتل کی نہ تو رپورٹ لکھی گئی ‘نہ کوئی جانچ کی گئی اور نہ ہی کسی کو پکڑا گیا یعنی صوبہ اور مرکزی سرکار کی ملی بھگت تھی۔ اسی ملی بھگت کے خلاف کچھ غیر سرکاری انسانی حقوق جماعتوں نے تحریک چلائی توایک گول مول خفیہ رپورٹ دی گئی ۔اب اٹھائیس سال بعد عدالت نے جو فیصلہ دیا‘ اس میں یہ تو پتا چلتا ہے کہ بیالیس لوگوں کا قتل ہوا لیکن عدالت کو قاتل ایک بھی نہیں ملا۔ 19 کے19 ملزم بری ہوگئے ‘کیونکہ ان کے خلاف ٹھوس ثبو ت نہیں ملے ۔واہ ‘ کیا عجیب انصاف ہے ؟
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اٹھائیس سال دیر کے لیے کون ذمہ دار ہے ؟ایسی عدالت کو بھی کوئی سزا ہے یا نہیں ؟جن سرکاروں نے ثبوت نہیں جٹائے ‘ان کے جو جو لیڈر اور افسر ابھی زندہ ہیں ‘انہیں کم از کم پانچ پانچ سال کی سزا تو ملنی ہی چاہئے۔ ان کی ساری جائیدادیں ‘ فنڈزاور پینشن ضبط ہونی چاہیے۔ یہ معاملہ بڑی عدالتوں میں دوبارہ چلنا چاہیے۔ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے۔
اس معاملے کو فرقہ واریت کا رنگ دینا ٹھیک نہیں ۔اگر ہاشم پورا کے مسلمانوں پر میرٹھ کے ہندو حملہ کرتے تویہ معاملہ فرقہ واریت ہو جاتا لیکن الٹا ہوا ۔بارہ مسلمانوں کی حفاظت ایک ہندو پڑوسی نے کی ‘انہیں اپنے گھر میں چھپا کر ۔یہ معاملہ ہے سرکار کے سر پھرے پن کا !سرکار کو غصہ آگیا ‘پربھات سنگھ کے قتل کے سبب! اس نے مسلمانوں کے خون سے گنگ نہر کو لال کر دیا! سرکاروں نے اس طرح کے کئی بار قتل کئے ہیں لیکن وہ قانون کی گرفت سے بچ نکلتی ہیں۔ اگر حکمرانوں کو یہ پتا چل جائے کہ وہ بچیں گے نہیں تو اس طرح کے سانحے کا حکم دینے سے پہلے وہ سو بار سوچیں گے۔