چینی صدر شی چن پنگ کا یہ دورۂ پاکستان بین الاقوامی سیاست کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔کسی ایک خوشحال ملک نے کسی دوسرے ضرورت مند ملک کے لیے اتنی بڑی مدد آج تک نہیںکی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے یورپ کے ملکوں کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے مدد ضرور دی تھی لیکن وہ بات بالکل دوسری تھی۔ اس طرح پانچویں دہائی میں سوویت یونین نے بھی چین کومدد دی تھی لیکن اس کے پیچھے کمیونسٹ خیالات کی ہم آہنگی بنیادی وجہ تھی۔ اب چین جو فراخدلی کا مظاہرہ پاکستان کی جانب دکھا رہا ہے‘اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
چین کی امداد کی بنیاد نہ توکوئی منشور ہے اور نہ احسان کا جذبہ، وہ پاکستان کی مدد کرکے خود اپنی بہت بڑی مدد کر رہا ہے۔ وہ 46 ارب ڈالر کی جو سرمایہ کاری پاکستان میں کر رہا ہے اس کا ہدف اس کا اقتصادی مفاد ہے۔ وہ جو پاک چین اقتصادی راہداری بنا رہا ہے ‘اس کے سبب وہ مغربی ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنی دوری 12ہزار کلو میٹرکم کر لے گا ۔ تین ہزارکلومیٹر طویل یہ راہداری پاکستان کی گوادر بندرگاہ کو سیدھے چین سے جوڑ دے گی۔اس راہداری کے پاس بڑے بڑے بازاروں ‘بڑی بڑی منڈیوں اورکارخانوں کا جال بچھایا جائے گا۔ یہ راہداری اگلے تین سال میں بن کر تیار ہو جائے گی۔ چین دس ہزار میگا واٹ بجلی بھی پیدا کرے گا۔اس راہداری کے بہانے لاکھوں روزگار بھی پیدا ہوںگے۔ابھی پاک چین تجارت بارہ بلین ڈالرکی ہے،اس کے چار گنا ہونے کے امکانات ہیں۔ اتنا بڑی راہداری تین سال میں اس لیے بن جائے گی کہ چینی مزدور تین تین پالیوں(شفٹوں) میں ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔
پاکستان اور چین کے مابین طے پائے گئے اس معاہدے پر بھارت کے پالیسی سازوںکا فکرمند ہونا فطری ہے۔ شروع سے اب تک چین نے پاکستان کی جوبھی مدد کی‘اس میں بھارت کی مخالفت خاص مرکزی جز رہا ہے۔ چین نے ہی پاکستان کو ایٹم بم دیا ‘ہتھیار دیے اور لگاتار سیاسی حمایت بھی دی، لیکن اب چین کی خود اعتمادی بڑھی ہے۔ اس کا رخ پہلے سے زیادہ تعمیری بنا ہے اور وہ ذمہ دار ملک کی طرح برتاؤ کرنے لگا ہے۔ اس نے کشمیر پر بھی اپنی رائے بدلی ہے۔ بھارت سرکار اس چینی امداد کی سخت لفظوں میں مذمت کرنے کے بجائے بہتر ہوگا کہ وہ چین کے ذریعے پاکستان پر دباؤ بڑھائے۔ پاکستان دہشت گردوں کی سرپرستی چھوڑے ‘کشمیر پر بات کرے اور بھارت کے لیے اپنے زمینی راستے کو کھولے۔ افغانستان کو مضبوط کرنے کے کام میں پاکستان‘ بھارت اور چین تینوں تعاون کریں۔
اس میں شک نہیں کہ چین کا برتاؤ ایشیا میں وہی ہے جوکسی بھی بڑی قوت کا ہوتا ہے۔ بھارت کے سبھی پڑوسی ملکوں کو لبھانے میں وہ کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا ہے۔ اس لحاظ سے بھارت کو جو بھی مناسب قدم اٹھانا ہو اٹھائے لیکن ہم ایک بات نہ بھولیں کہ اگر پاکستان جیسے ملک خوش حال بنتے ہیں توان کے سلوک میں بھی بہت فرق آئے گا۔ ان کی اندرونی اتھل پتھل بھی بہت کم ہوگی اور خارجہ پالیسی بھی ذمہ دارانہ ہوگی ۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کا چین کے دورہ کے دوران ان نکتوں پردھیان دیا جائے گا تو بھارت کے مفادات کا تحفظ تو ہوگا ہی‘جنوب ایشیا کی سیاست کا ماحول بھی بہتر ہوگا۔
چھوٹے ہوئے کارتوسوں کا بنڈل
جنتا پری وارکے چھ ٹکڑے یعنی چھ پارٹیاں اب ایک ہوگئی ہیں۔ یہ چھ پارٹیاں صرف چار صوبوں میں محدودہیں۔۔۔۔۔ اتر پردیش ‘بہار ‘کرناٹک اور ہریانہ۔ اگر یہ پارٹیاں اس لیے ایک ہو رہی ہیں کہ یہ بی جے پی کو ٹکر دیں گی تو پہلے ذرا دیکھیںکہ ان چاروں صوبوں کے علاوہ کیا دوسرے صوبوں میں یہ اپنا کھاتہ کھولنے میں بھی کامیاب ہیں یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ نہیں ہیں ۔ توپھر ان کی ٹکر کیسے ہو گی؟ حقیقت میں وہ ٹکر نہیں ‘ ٹکریں ہوں گی ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہر صوبائی ٹکر کے سپہ سالار بھی الگ الگ ہوں گے۔۔۔۔ یعنی بہار میں نتیش ہوںگے، وہاں ملائم سنگھ اور دیوی گوڑا کوکون پوچھے گا؟ یوپی میں ملائم ہوںگے، وہاں چوٹالا اورکمل مورار کا کی کیا چلے گی؟ کرناٹک میں دیوی گوڑا ہوںگے، وہاں نتیش اور ملائم کی کون سنے گا؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ چھ پارٹیوں کا نام تو ایک ہو گیاہے لیکن جب تک پانچ چھ دکانیں الگ الگ نہیں لگیں گی‘ ان کا مال کون خریدے گا؟ اس کے علاوہ ان چھ پارٹیوں کا منشور زیرو ہے۔ یہ پارٹی منشور پر نہیں‘ ذاتیات پر مبنی ہے۔ یہ چھ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہیں۔ پہلے ہرکمپنی میں مالک کے علاوہ اس کی بیوی ‘ بیٹا ‘ بہو ‘ بھائی ‘بھتیجا وغیرہ ڈائریکٹر بنا دیے گئے تھے، اب ان سب کو ایک پارٹی میں کیسے نبھایا جائے گا ؟چھ پارٹیوں کے اب چھتیس سیکرٹری کیسے ایک پارٹی میں بھرے جائیںگے، ہر پارٹی کا لیڈر اپنے آپ کو وزیر اعظم کے لائق سمجھتا ہے۔ دیوی گوڑا تو وزیر اعظم رہ بھی چکے ہیں۔ ملائم سنگھ سب سے بزرگ ہیں‘ تجربہ کار ہیں اور مشہور ہیں لیکن وہ ان چھ غرورکے غباروںکو جوڑکر ان سے ایک جھنڈا کیسے بنائیں گے؟ مان لیں کہ راجیہ سبھا میں تیس اور لوک سبھا میں اس نئی پارٹی کے پندرہ ممبر ایک جُٹ ہو جائیں گے، لیکن متحد ہوکر یہ کریںگے کیا؟ صرف سرکارکی مخالفت ؟کیا اس کے علاوہ ان کے پاس ملک کو بدلنے کا کوئی ٹھوس پروگرام ہے؟ اگر ہے تو وہ ایساکرشمہ کر سکتے ہیں جیسے ڈاکٹر لوہیا کی پارٹی کے صرف چھ سات ممبر اندرا گاندھی سرکار کی چارپائی کوکھڑی رکھنے کے لیے انجام دیتے تھے؟کانگریس تو ڈوبتا ہوا سورج ہے۔ یہ نئی پارٹی نیا اجالا کر سکتی ہے لیکن اگر یہ صرف بی جے پی کی مخالفت کرتی رہی تو پھر وہ بی جے پی کو روک کراس کا اور ملک کا تو فائدہ کر دے گی لیکن خود چھوٹے ہوئے کارتوسوں کا بنڈل بن کر رہ جائے گی۔
پچھلے پچاس سال میں بھارت بہت بدل گیا ہے۔ اس کے مسائل بدل گئے ہیں،اس کے حل بدل گئے ہیں۔ جنتا پریوار کے یہ لیڈر اب تک ذات کا ڈھول بجا بجاکر اپنی نوٹنکی سجائے ہوئے ہیں۔ وہ گاندھی‘ لوہیااور جے پرکاش کو تو بھول ہی گئے،ان کا اپنا بنیادی کوئی منشور بھی نہیں ہے۔ وہ تاریخ کا قہر بن گئے ہیں ۔ دیگر لیڈروں کی طرح وہ اقتدار کی پالکیاں ڈھو رہے ہیں، وہ چھوٹے ہوئے کارتوس ہیں،ان میں منشور کا بارود کون بھرے گا؟
تم ''چیختا کے استاد‘‘ ہو پیارے !
لینڈ اکیوزیشن کے سوال پرکانگریس کی ریلی امید سے زیادہ کامیاب رہی؛ حالانکہ کئی ٹی وی چینل خالی کرسیاں بار بار دکھا رہے تھے۔19اپریل کا یہ اتوارکافی گرم ثابت ہوا۔ اتنی گرمی میں بھی لوگ آئے اور بیٹھے رہے، یہ کم بڑی بات نہیں ہے۔ ایک دم لٹے پِٹے لیڈر شپ کی یہ پہلی ریلی تھی۔ دس سال کے اقتدار میںکانگریس نے جم کر ملک کو لوٹا ہے ‘سرمایہ داروں کو دوہا ہے، ملکی و غیر ملکی کمپنیوں سے رشوتیںکھائی ہیں۔ اس نے 2014 ء کے چناؤ میں پیسہ پانی کی طرح بہایا، یہ اور بات ہے کہ وہ خود ہی بہہ گئی۔ اس کے باوجود اس کے لیڈروں کے پاس کروڑوں اربوں روپیہ ابھی بچا پڑا ہے۔ کانگریسیوں کی مجھے تعریف کرنی ہوگی کہ انہوں نے اس پیسے کو دباکرنہیں رکھا، اپنے لیڈرکو پھر سے زندہ کرنے کے لیے انہوں نے کروڑوں روپیہ پھونک دیا۔ ٹرینوں میں ‘بسوں میں‘ کاروں میں بھرکر ہزاروں لوگوںکو رام لیلا میدان میں لاکرکھڑاکیا۔ پگڑیوں اور ٹوپیوںکا لالچ تو کارکنوں کے سر چڑھ کر بول ہی رہا تھا لیکن بٹوے اور بوتل نے بھی کم کمال نہیں کیا۔ جوبھی ہو ‘آج کا سبھی پارٹیاں اسی طریقے سے بھیڑ اکٹھی کرتی ہیں۔ تو پھر اکیلی کانگریس کو قصور وارکیوں ٹھہرائیں ؟
راہول جی کو جو تقریر یادکرائی گئی تھی‘ وہ انہوں نے بنا اتار چڑھائوکے عوام کو سنا دی۔ اگر آپ مرزاغالب کو'ریختہ کے استاد‘ کہتے ہیں تو آپ شہزادے راہول کو 'چیختا کے استاد ‘ کہہ سکتے ہیں۔ لگ بھگ بیس منٹ تک راہول گاندھی چیختے رہے۔ مودی سرکارکے خلاف انہیں جے رام رمیش یادگی راجہ نے دلیلیں تو اچھی رٹائیںلیکن تعجب ہے کہ ان کے چیلوں کی بھیڑ، تالی بجانا بھول گئی۔کہیں ان کی پگڑیوں کے نیچے صوبائی لیڈروں نے نیندکی گولیاں تو نہیں رکھ دی تھیں؟ اگلی قطار میں بیٹھے ہوئے بڑے بڑے لیڈروں کے سر پر پگڑیاں نہیں تھیں، پھر بھی وہ جھپکیاں لے رہے تھے کیونکہ شہزادے کی تقریر ہی ان کے لیے نیندکی گولی کا کام کر رہی تھی۔ا ن کے لیے ان کا چیخنا بھی راگ مالکوس کا اثرکر رہا تھا۔ شہزادے نے ایک دو مذاق کی باتیں بھی کیں لیکن کوئی ہنسا تک نہیں۔ شہزادے نے کہا کہ چناؤ لڑنے کے لیے مودی نے 'تاجروں‘ سے ہزاروں روپیہ کا جو قرض لیا تھا‘اسے وہ اب کسانوں کی زمین چھین کرچکا دیںگے۔کتنی اونچی عقل کی بات کہی ‘راہول جی نے،پھر بھی کسانوں نے تالیاں نہیں بجائیں۔ سٹیج پر کھڑے درباریوں نے ناظرین کو ہاتھ ہلا ہلا کر تالیاں بجانے کے لیے کہا بھی لیکن سب بے اثر! شاید شہزادے کے چیخنے چلانے میں ہی ساری دلیلیں اور تالیاں ڈوب گئیں۔