تامل ناڈو کی سابق وزیر اعلیٰ جے للتا‘ اب سابق نہیں موجودہ وزیر اعلیٰ بن گئی ہیں۔ دو بار جیل کاٹنے کے بعد اب وہ جلد ہی اپنا عہدہ سنبھالیں گی۔ جے للتا کو کرناٹک ہائی کورٹ میں جو فتح ملی ہے‘ اس کی بدولت وہ لیڈروں کی لیڈر بن گئی ہیں۔ ملک کے سبھی لیڈروں کو جے للتا کی وجہ سے کتنی ٹھنڈک مل رہی ہے؟ انیس سال کی مقدمہ بازی کے باوجود جے للتا بے داغ ثابت ہوئیں۔ اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ جے للتا سے بڑے اور پرانے لیڈر ہمارے شمالی بھارت میں ہیں، اگر جے للتا ایک مقدمے کو انیس سال تک کھینچ سکتی ہیں تو وہ بھی اپنے مقدمات کو تیس چالیس سال تک کیوں نہیں کھینچ سکتے؟ ان کے انتقال کرنے کے بعد تو مقدمہ چلتا نہیں ہے، جتنی بھی پراپرٹی انہوں نے کھڑی کی وہ ان کے وارثوں سے چھینی نہیں جا سکتی، اس لیے سارے لیڈروں کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹر جے للتا سے ' ٹالو مکسچر‘ کی پُڑیا بنانا سیکھیں۔ ججوں کا کچھ پتا نہیں، کب کیا فیصلہ د ے دیں؟ لہٰذا سب سے محفوظ اور سب سے پہلا کام یہی ہے کہ لیڈر اپنے مقدموں کو لمبا کھینچنے کا فن جے للتا سے سیکھیں۔
جے للتا پر مقدمہ یہ چلا تھا کہ ان کے پاس 66 کروڑ 44 لاکھ روپے دولت زیادہ نکلی۔ کہاں سے آیا یہ روپیہ؟ ان کے گھر چھاپا پڑا تو دس ہزار ساڑھیاں‘ اٹھائیس کلو سونا اور 750 جوتیوں کے جوڑے نکلے۔ ہماری جے للتا نے فلپائن کے صدر کی اہلیہ امیلڈا مارکوس کو بھی مات کر دیا؛ حالانکہ وہ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کی طرح غیر شادہ شدہ ہیں۔ مودی کے یہاں سے کیا نکل سکتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ ہزار رنگ برنگی جیکٹیں۔
لیکن جے للتا کا معاملہ ذرا دوسرا ہے۔ انہوں نے ایک بیٹا گود لے رکھا ہے جس کی شادی پر انہوں نے کروڑوں روپیہ
خرچ کیا تھا۔ کرناٹک کی ہائی کورٹ نے شادی کے اخراجات اور جے للتا کی ملکیت کے آنکڑوں کو خارج کر دیا ہے۔ ان پر یہ بھی الزام تھا کہ انہوں نے فرضی تجارتی اداروں کے نام پر انکم دکھائی ہے۔ عدالت نے اس ملکیت کو جائز ٹھہرایا اور فیصلہ دیا کہ ان کی کمائی سے جو زیادہ پیسہ ان کے پاس سے نکلا ہے‘ وہ صرف دو کروڑ بیالیس لاکھ روپے ہیں جو کہ ان کی بنیادی ملکیت کا 8.2 فیصد ہے۔ قانون کہتا ہے کہ اوپر کی ملکیت اگر دس فیصد ہو تو یہ نافرمانی (ناجائز دھن) میں شمار نہیں ہوتی، اس لیے جے للتا بے گناہ ہے، یعنی کوئی بھی آدمی کسی بھی طریقے سے دس فیصد ہیرا پھیری کر سکتا ہے۔ جے للتا نے مقدمہ لڑ کر ملک کے سبھی لیڈروں کے لیے کافی سہولت پیدا کر دی ہے۔ لیکن صرف نریندر مودی نے انہیں مبارک باد کیوں دی؟ ملک کے ہر لیڈر کو انہیں مبارک دینی چاہیے اور اگر وہ افسوس ظاہر کرنا چاہیں تو ضرور کریں کیونکہ عدالتوں نے انہیں سلمان خان کے برابر بھی نہیں سمجھا۔ سلمان کو دو عدالتوں نے فوراً ضمانت دے دی اور عظیم انقلابی لیڈر (پراتچی تھلیوی) کو دو بار جیل کاٹنی پڑی۔
ایوانی دھکا شاہی سے بچیں!
سرکار کے دو اہم بل پارلیمنٹ کی سدنوں میں بھیجنے پڑے۔ ایک تو لینڈ اکیوزیشن بل اور دوسرا مال اور خدمت ٹیکس بل! ان دونوں بلوں کو یہ سرکار دھڑلے سے پاس کرنا چاہتی تھی، لیکن مخالفین نے ان کی زبردست مخالفت کی ہے۔ سرکار کی طرف دار پارٹیوں نے بھی مخالفت درج کروائی ہے۔ اس لیے سرکار نے مجبور ہو کر یہ بل پارلیمنٹ کے حوالے کر دیا ہے‘ جس میں سرکار اور اپوزیشن دونوں پارٹیوں کے ممبر ہوتے ہیں جو ان بلوں کے سبھی پہلوؤں پر کھل کر سوچیں گے، اس کے بعد ہی یہ ووٹنگ کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیے جائیں گے۔
اس بات کو اپوزیشن کی جیت اور سرکار کی شکست بھی مانا جا سکتا ہے، لیکن میں سچے پارلیمنٹیرین اور جمہوریت کو سلام کرتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مودی سرکار کو اب سمجھ میں آ گیا ہے کہ واضح جمہوریت کا مطلب داداگیری نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ جو بھی ٹھیک سمجھیں‘ اسے اکثریت کے زور پر پاس کروا لیں۔
اقلیت چاہے کتنی بھی چھوٹی ہو‘ کبھی کبھی وہ بھی صحیح نکلتی ہے۔ اسی طرح سرکار کو یہ بات بھی سمجھ میں آ گئی ہے کہ اپوزیشن ایک دم نقصان کار اور تباہ کن نہیں ہوتی ہے۔ وہ بھی سوچنے والی‘ وطن پرست اور ذمہ دار ہوتی ہے، اس لیے پچھلے ہفتے اس نے بھارت بنگال زمینی حل سمجھوتہ کرنے کی حمایت کر دی۔ اس بات نے سرکار کی گرمجوشی کو بڑھایا ہے۔ اب اگر اس نے ان بلوں کو ایوانی جماعتوں کے پاس بھیجا ہے تو وہاں بھی اس کے ممبروں کی دلیل اور سوچ کو اہمیت دینی چاہیے۔ اپنی بات پر اڑے رہنے کی بجائے عوامی فائدے کو زیادہ اہمیت دی جانی چاہیے۔ لینڈ اکیوزیشن بل پر کانگریس نے جو تین اہم اعتراض جتائے‘ ان کا حل نہ نکلا تو اس سرکار کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ انہی جماعتوں کے سائے میں وہ اپنی ناک بچا سکتی ہے۔ پارلیمنٹ کو آپ چین اور روس کی طرح نہیں چلا سکتے۔ پارلیمنٹ کے دونوں سدنوں کی متحدہ بیٹھک بھی اگر کسی قانون کو دھکا شاہی میں پاس کر دے گی تو سیاست پارلیمنٹ سے اتر کر سڑک پر آ جائے گی۔ یہ سرکار اگر پارلیمنٹ میں دھکا شاہی چلائے گی تو بھارت کی سڑکوں پر دھکا شاہی کی تانا شاہی چلنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
مودی سرکار کا نیا اوتار
ایسا لگ رہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی سمجھداری میں اب آہستہ آہستہ ترقی ہوتی جا رہی ہے۔ ان کی غرور اور اکڑ پن والی چال بدل رہی ہے۔ انہوں نے کولکتا میں جو تازہ بیان دیا‘ وہ اس کا ثبوت ہے۔ 16 ہزار کروڑ روپے کے سٹیل کارخانے کا افتتاح کرتے ہوئے انہوں نے وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی کی تعریف کے پل باندھ دیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ممتا تعاون نہیں کرتیں تو اتنا بڑا یہ کارخانہ کھڑا ہی نہیں ہو تا! یہ بیمار ہی پڑا رہتا۔ یہ بنا ہے ٹیم کے جذبہ کے سبب۔ اس ٹیم کا نام ہے‘ ٹیم انڈیا۔ ٹیم انڈیا صرف مرکزی سرکار سے نہیں بنتی، صرف بی جے پی کی سرکار سے نہیں بنتی، یہ بنتی ہے وفاق اور ساری صوبائی سرکاروں سے مل کر۔ پارٹی بازی سے نہیں، اس سے اوپر اٹھ کر بنتی ہے۔ پارٹی مفاد سے ملک کا مفاد اوپر ہوتا ہے، اسی جذبہ سے متاثر ہو کر پارلیمنٹ نے پچھلے ہفتے بنگلہ دیش کے ساتھ زمینی حدود کے بل کو سبھی کی رضامندی سے پاس کروا لیا۔ ہو سکتا ہے کہ سبھی پارٹیوں کے فیصلے نے مودی کو پگھلا دیا ہو۔ وہ بی جے پی لیڈر نہیں‘ ملک کے لیڈر کی طرح بات کر رہے ہیں، ورنہ کیا وجہ ہے کہ انہوں نے ممتا بینر جی جیسی بڑبولی اور کڑوے الفاظ بولنے والی عورت کے لیے اتنے مخملیں لفظوں کا استعمال کیا۔
مودی نے ممتا کے بہانے بھارتی سنگھ واد کو بھی محدود کیا۔ ایک ہندو سنگھ وادی اب بھارتی سنگھ واد کی بات کر رہا ہے۔ کیا یہ سوچ کی ترقی نہیں ہے؟ مودی سرکار اپنے پہلے سال سے ہی ڈی سینٹرلائزیشن کی الٹی شکل ہی مانی جا رہی ہے۔ یہ شکل سنگھ پارٹی‘ سرکار اور ملک سبھی پر حاوی رہا ہے۔ مودی سرکار کی عوام میں مقبولیت کے زوال کا ایک سبب یہ بھی رہا ہے۔ اب لگتا ہے کہ مودی سرکار کا نیا اوتار ہو رہا ہے۔ اگر یہ اوتار اونچائی پر پہنچے اور عزت حاصل کرے تو کوئی جواز نہیں کہ بھارت کی سیاست اس مشترکہ خیال پر نہ پہنچے جس کا خواب دین دیال اپادھیائے نے دیکھا تھا۔ اگر اقتداری لوگوں میں ضروری فراخدلی اور اخلاق ہو تو لینڈ اکیوزیشن بل یا عام ٹیکس یاکالا دھن قانون کو پاس کروانے میں کوئی مشکل کیوں ہو گی؟ ٹیم انڈیا کی یہی بنیاد ہو گی، جو بھی قانون پچھلی سرکار نے بنائے ہیں یا پارلیمنٹ نے پاس کیے ہیں‘ انہیں جلد بازی میں رد کرنے کے بجائے عام رائے کا اور صلاح مشورے کا راستہ چنا جائے تو ٹیم انڈیا کی بنیاد اپنے آپ کامیاب ہو جائے گی۔