بھارت سرکار کے دو مستند اداروں نے اب سے دو سال پہلے ایک سروے کیا تھا۔ اس کے نچوڑ ابھی ظاہر ہوئے ہیں جو چونکانے والے ہیں ۔اگر نئی سرکار ‘جو اب ایک سال پرانی ہو گئی ہے ‘کچھ سبق سیکھنا چاہے تو بہت کچھ سیکھ سکتی ہے ۔
اس سروے سے پتا چلا ہے کہ بھار ت کا ہر شہری خاندان ہر سال کم ازکم 4400 روپیہ رشوت دیتا ہے اور دیہاتی خاندان 2900 روپیہ!شہروں میں نوکری پانے اور تبادلے کیلئے ہر فرد کو اوسطاً18000 روپے دینے پڑتے ہیں ۔دوسرے الفاظ میں بھارت میں رشوت کا بازار لاکھوں ‘کروڑوں نہیں ‘اربوں کھربوں روپے کا ہے۔ اس میں وہ رشوت شامل نہیں‘ جو ہمارے لیڈر لوگ کھاتے ہیں ۔اگر ان سب کی رشوت کو جوڑ لیا جائے تو وہ مال ملک میں کالے دھن کا سب سے بڑا مال ہو گا ۔
سروے نے یہ نہیں بتایا کہ پچھلے سال میں یہ رشوت کم ہوئی یا اضافہ ہوا ہے ؟رشوت کی بد عنوانی توملکی اخلاق بن گیا ہے ۔اس ملکی اخلاق کو مودی سرکار نے ناپنے کی کوشش کی یا نہیں ؟کیوں نہیں کی ؟وہ چاہے تو اگلے ایک ماہ میں درست آنکڑے ملک کے سامنے لا سکتی ہے ۔وزیر خزانہ ارون جیٹلی اپنی کیٹلی سے پورے ملک کو مودی کی چائے پروس رہے ہیں لیکن وہ یہ نہیں بتا رہے ہیں کہ بد عنوانی کتنی کم ہوئی ہے؟مودی سرکار کا اصلی والد محترم تو کانگریس کی بد عنوانی تھی ۔اسی نے مودی کو وزیر اعظم بنایا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اب تک نہ تو مودی اور نہ ان کے وزیروں پر بدعنوانی کا کوئی الزام لگا ہے لیکن ایسے لوگ اتنے بے وقوف نہیں ہوتے کہ وہ آسانی سے پکڑمیں آ جائیں ۔کیا راجیو گاندھی کا بوفورس ان کے پہلے سال میں ہی پکڑا گیا تھا ؟ویسے عام آدمیوں کو ان کی زندگی میں لیڈروں کی بد عنوانی سے خاص فر ق نہیں پڑتا لیکن جس 'ملکی اخلاق‘ کا ذکر ہم نے اوپر کیاہے‘ اس سے ہر آدمی پریشان ہے‘ اس میں کمی کے کوئی آثار دکھائی نہیں پڑتے ۔مودی کی اصلی چنائوتی یہی ہے ۔آپ نے پیسے نہیں کھائے‘ یہ کون سی بڑی بات ہے ؟آپ نے چوری نہیں کی ‘آپ نے کون سا تیر مار لیا؟ہم نے آپ کو وزیر اعظم اور وزیر بنایا۔اس لئے نہیں بنایا کہ آپ چوری نہ کریں بلکہ اس لیے بنایا ہے کہ چوری نہ ہونے دیں‘ چور کو پکڑیں۔ وہ چوکیدار بھی کیا چوکیدار ہے ‘جو چھپن انچ کا سینہ تان کردعویٰ کرتا ہے کہ میں نے چوری نہیں کی؟
بیرونی ممالک میں چھپا کالا دھن لانے کیلئے یہ سرکار بیتاب ہے ۔پچھلی بھی تھی ۔لیکن ان سرکاروں سے کوئی پوچھے کہ یہ کالا دھن کہاں پیدا ہوتا ہے ؟ملک میں یا بیرونی ممالک میں ؟بیرونی ملکوںسے کالا دھن واپس لانا اچھا ہے اور ضروری بھی ہے لیکن یہ درخت کے پتے توڑنے جیسا کام ہے۔ اس کی جڑوں میں لسی ڈالنا اصلی کا م ہے ۔وہ لیڈر لوگ کیسے کر سکتے ہیں ؟وہ تو اپنا سارا رس انہیں جڑوں سے کھینچتے ہیں ۔
راج ناتھ بولے تو سہی
اپنی پریس کانفرنس میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کئی ایسی باتیں کہی ہیں ‘جو دوٹوک ہیں اور جو کسی بھی اقتداری پارٹی کی طاقت اور حد دونوں کومتعارف کراتی ہیں۔ ان کی پریس کانفرنس کے بارے میں مجھے پہلی بات یہ کہنی ہے کہ انہوں نے پریس کانفرنس کی‘ اپنے آپ میں یہی بڑی بات ہے ۔کیونکہ یہ سرکار 'مونو لاگ ‘ کرنے والی یا صرف تقریر کرنے والی سرکار کی طرح مشہور ہو گئی ہے ۔وہ بھی صرف ایک کردار والے ناٹک کی طرح !اگر نہیں تو پھر سال بھرکاٹ دیااور ابھی تک وزیر اعظم نے کوئی پریس کانفرنس کیوں نہیں کی ؟
مودی اورآرٹیکل 370 کے سوال پر راج ناتھ سنگھ اپنے پارٹی صدر امیت شاہ کی طرح ہوائی اڑانیں نہیں بھر رہے ہیں۔ امیت شاہ کہتے ہیں کہ جب عوام ہمیں 370 نشستیں دیں گے تب ہم رام مندر بنا دیں گے ۔بھلا‘370 کیوں چاہئیں؟ 272 کی واضح اکثریت کافی کیوں نہیںہے ؟اگر تم میں دم نہیں ہے تو تم 540 سیٹیں ملنے پر بھی گال بجاتے رہ جاؤگے ۔فضول کی باتیں کرنے کے بجائے راج ناتھ نے ٹھیک کہا کہ مندر اور آرٹیکل 370 ہمارے مدعے ہیں لیکن اس وقت سرکار کی ترجیح ترقی ہے۔ ان کی یہ بات بھی ٹھیک لگتی ہے کہ ابھی معاملہ سپریم کورٹ میں ہے ۔اگر وہ بھی اسے حل نہیں کر پائی تواسے ہم بات چیت سے حل کر یں گے۔ جہاں تک آرٹیکل 370 کا سوال ہے ‘کشمیر میں ابھی ابھی اتحادی سرکار بنی ہے ۔اگر وہ کامیابی سے کام کرتی ہے تو آرٹیکل 370 اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔
راج ناتھ سنگھ سے صحافیوں نے کچھ اٹ پٹے سوال بھی پوچھے لیکن وہ گھبرائے نہیں۔ منجھے ہوئے سیاست دان کی طرح انہوں نے اچھے جواب دیے ۔انہوں نے قبول کیا کہ وہ آر ایس ایس کے خدمت گار ہیں اور وہ بھارت کی جانب وطن پرست ہے۔ ایسے بھارت کے جس میں اسلام کے 72 فرقے اور سبھی عیسائی فرقے پرامن اور مزے سے رہ رہے ہیں ۔انہوں نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ وہ ایل جی نجیب جنگ کو عاپ سرکار کے خلاف استعمال کر رہے ہیں ۔وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ سبھی سرکاریں آئین کے دائرے میں رہ کر کام کریں۔ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے وزیروں کی کمزوری پر کیے گئے سوال کو بھی ہوا میں اڑا دیا۔کہا کہ سب مضبوط ہیں‘ کوئی کمزور نہیں‘ اس کے علاوہ وہ کہہ بھی کیا سکتے تھے؟ سب سے بڑی بات یہ ہوئی کہ کوئی تو بولا: نیر ستا ٹوٹی‘ اوب چھوٹی۔
مودی ‘ممتا بینرجی کا ڈھا کہ جانا
وزیر اعظم نریندر مودی 6 جون کو (آج) بنگلہ دیش جا رہے ہیں۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی بھی ان کے ہمراہ ہوں گی۔ یہ اپنے آپ میں اس خبر کا اہم حصہ ہے ۔بنگلہ دیش سے وفاقی سرکاراچھے تعلقات بنانے کی کوشش کرے‘ اس میں کولکتہ کی رضامندی نہ ہو تو اس کا حشر کیا ہوگا‘ اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ سال جب سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ ڈھاکہ گئے تھے تو ان کے دورے کا سارا مزہ کر کرا ہو گیا ‘کیونکہ ممتا بینرجی نے ساتھ نہ دینے کا اعلان کر دیا تھا۔اب اسے وزیر اعظم نریندر مودی کی کامیابی مانا جائے گاکہ بھارت بنگلہ دیش زمینی حد کے معاہدے کی ایوان میں ٹی ایم سی نے مکمل حمایت کی ۔ممتا کا وزیر اعظم کے ساتھ ڈھاکہ جانادودھ میں چینی کے گھل جانے جیسا ہے ۔
اب دونوں ملک زمینی حد معاہدے پردستخط تو کریں گے ہی‘تیستا ندی کے پانی کے تنازع کا حل بھی شاید نکل آئے۔ مجھے یاد ہے کہ جب وزیراعظم دیوی گوڑا ڈھاکہ گئے تھے ‘تب ان کا کیسا شاندار استقبال ہوا تھا۔ مجھے کئی وزرائے اعظم کے ساتھ بیرونی ملکوں میں جانے کا موقعہ ملا‘ لیکن میں نے غیر ملکیوں کا اتنا جوش کبھی نہیں دیکھا‘ اس کا سبب تھا‘ پانی سمجھوتہ۔ اس سمجھوتے کی بنیاد نرسمہا راؤ جی کے دور میں رکھی گئی تھی ۔بنگالی سفیر فاروق سبحان اور میں نے کافی کوشش کی تھی ۔اگر اسی طرح تیستا کا پانی بھی بنگلہ دیش کے لوگوں کو کافی مقدار میں ملنے لگے تویہ بات سارے جنوبی ایشیا میں بھارت کی تعریف میں چار چاندلگائے گی ۔ہمارے لیڈروں کو ایک ضروری بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ جب تک پڑوسی ملکوں کے دلوں پر بھارت کا سکہ نہیں جمے گا‘وہ بڑی طاقت کبھی نہیں بن سکتا ۔
اپنے ڈھاکہ دورے کے دوران مودی چاہیں تو دونوں ملکوں کے بیچ سڑک کے ذریعے آمدورفت بڑھانے کا بھی معاہدہ کر سکتے ہیں ۔فروری میں ممتا جب ڈھاکہ گئیں تو انہوں نے وزیر اعظم حسینہ واجدسے اس کے متعلق بات بھی کی تھی ۔وہ چاہتی تھیں کہ کولکتہ سے اگر تلا تک ڈھاکہ ہوتے ہوئے راستہ کھل جائے تو بہت سہولت ہو جائے گی ۔وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کولکتہ سے اگر تلا بس سروس چلانے کا بھی اعلان کیا ہے ۔مودی کو چاہئے کہ دونوں بنگالی خواتین لیڈروں کو ایک دوسرے سے گہرے تعلق بنانے دیںتاکہ وہ سبھی پڑوسیوں کیلئے نمونے کی طرح پیش کئے جاسکیں ۔بہار ‘نیپال ‘بھوٹان سے‘ تامل ناڈو‘سری لنکا‘ مالدیپ سے‘ پاکستان والے پنجاب سے اور مغربی بنگال‘ بنگلہ دیش اور برما سے جڑ ے اور لداخ اروناچل چین کو اپنی طرف کھینچے توہماری خارجہ پالیسی کو ایک نئی راہ مل سکتی ہے ۔