بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ آر کے سنگھ نے بھِڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ للت مودی جیسے بھگوڑے کی مددکسی بھی لیڈر کو نہیں کرنی چاہیے‘ اس کا پاسپورٹ خارج کر کے فوراًبھارت لانا چاہیے اور اس پر مقدمہ چلانا چاہیے‘ اس کی مددنہ تو رحم کی نظر سے ٹھیک ہے اور نہ ہی قانونی نظر سے ۔بالکل یہی بات میں نے پچھلے ہفتے کہی تھی لیکن یہی بات آر کے سنگھ نے کہہ دی‘ اس کے لئے ان کے سینے میں شیر کا دل ہونا چاہیے۔جو کبھی بھارت کا ہوم سیکرٹری رہا ہویعنی نوکر شاہ رہا ہویعنی جی حضوری کا فرض زندگی بھر نبھاتارہا ہو‘اس نے اتنے تیکھے تیرکیسے برسا دیے؟اس نے تو وزیر اعظم سے بھی زیادہ ہمت دکھا دی ۔سنگھ نے جو کہا‘وہ بی جے پی کے کسی ایم پی کے دل میں نہیں‘ لیکن سب کو پتا ہے کہ اس مشہور بھگوڑے کے پکوڑوں پربڑے بڑے لیڈروں نے ہاتھ صاف کیے ہیں ‘چاہے وہ لیڈر کانگریس کے ہوں یابی جے پی کے !پتا نہیں ‘آرکے سنگھ نے چدم برم کے ہوم سیکرٹری کی صورت میں للت کی جانب کیا رویہ اپنا رکھا تھا۔
یہ بھگوڑااب بھی سب کے پکوڑے ہوامیں اچھال رہا ہے۔ وسندھرا راجے اور پرنب مکھرجی پر تووہ پہلے ہی حملہ کر چکا ہے۔اب اس نے آتماپال ‘صدر کے سیکرٹری پر بھی سنگین الزام لگائے ہیں۔ کوئی تعجب نہیں کہ وہ ارون جیٹلی‘نریندر مودی اور امیت شاہ کو بھی لے بیٹھے۔ اس لیے سب کے چھکے چھوٹے ہوئے ہیں ۔شاید اس لئے آرایس ایس کے کچھ عہدیداران نے بھی الٹی بین بجانی شروع کر دی تھی ۔یہ سارا معاملہ سیاست اور پیسے کے لالچ کی علامت ہے۔آج کی سیاست میں صرف حکمران ہی طاقتوررہ گیاہے‘ پالیسی غائب ہو گئی ہے۔ پیسے والوں کی ضرورت تو گاندھی جی کوبھی تھی لیکن سارا بھائی ہویا جمنالعل بجاج ‘گھنشام داس برلاہو یاپران جیون داس مہتا‘ سبھی دولتمند لوگوں کو گاندھی جی کے مطابق بننا پڑتا تھالیکن اب ہمارے لیڈروں کودھنا سیٹھوں کے آگے پونچھ ہلانی پڑتی ہے۔دونوں کی طاقت برابر ہو گئی ہے ۔
اگر للت مودی غصے میں آکراپنی کڑاہی کا سارا تیل انڈیل دے اور سارے لیڈروں اور نوکر شاہوں کے پول کھول دے تو ملک کی سیاست کو شفاف ہونے میں کافی مدد مل سکتی ہے ۔وہ اپنا بھی بہتر کر سکتا ہے‘جیسے مہاتما بدھ کے رابطے میں آکرویشالی کی آمرپالی نے اپنا کیا تھا۔جو للت مودی ان سب لیڈروں کواپنے آگے پیچھے گھما سکتا ہے ‘کیا اس میں اتنی ہمت بھی نہیں کہ وہ دھاندلی سے کمائے گئے اربوں روپے لوٹادے اوراپنا گناہ قبول کر لے ؟اگر وہ ایسا کر دے توسارے ملک میں اس کے لیے ہمدردی پیدا ہو جائے گی۔ اس کے جیسے دیگر درجنوں بڑے گنہگاروں کو صحیح راستے پر آنے کی نصیحت ملے گی ۔
کیوں لادیں ہرن پر گھاس؟
انگریزی کی پڑھائی بھارت کا کیسا کباڑہ کر رہی ہے اس کی ایک تازہ مثال پنجاب سے آئی ہے۔اس مثال پر ہم چرچا کریں گے‘ اس سے پہلے ذرا'نمک حلال‘فلم کے کچھ 'ڈائیلاگ‘پڑھیے۔ امیتابھ بچن جی کہتے ہیں: 'آئی کین ٹاک انگلش‘آئی کین واک انگلش‘آئی کین لاف انگلش‘بکاز انگلش از اے ویری فنی لینگویج‘۔ سچ مچ ہی یہ بہت فنی زبان ہے۔ اس میں بی یو ٹی کو' بٹ‘ کہتے ہیں لیکن پی یوٹی کو 'پَٹ‘ نہیں کہتے‘ وہ 'پُٹ ‘ ہو جاتا ہے ۔آپ کہیں کھیت کی اور سامنے والا سنے کھلیان کی ! آپ کسی کو سالا 'بردر ان لا‘کہیں اور وہ خود کو جیجا'بردر ان لا‘سمجھے تو آپ کچھ نہیں کر سکتے ۔
ہاں تو پنجاب میں کچھ ایسا ہی ہوا۔ہائی سکول کے امتحان میں اسی ہزار بچے انگریزی میں فیل ہوگئے۔وزیر تعلیم دلجیت سنگھ چیمہ اس کی وجہ کھوجنے لگے۔وہ ذرا گہرے اترے۔ انہوں نے سوچا کہ انگریزی پڑھانے والے اساتذہ کو جانچا جائے کہ انہیں بھی انگریزی آتی ہے یا نہیں ۔سوا نہوں 22 اضلاع کے 220 اساتذہ کو بلایا۔ان انگریزی کے اساتذہ سے انہوں نے کہا کہ آپ لوگ گھر سے لکھ کر لائیے کہ شاگرد انگریزی میں فیل کیوں ہو گئے تو اب آپ دیکھئے کہ ان انگریزی کے ٹیچروں کی انگریزی کیسی ہے ؟
ایک ٹیچر نے لکھا کہ ہمارے شاگرد پنجابی ہیں اور 'انگلش آرانٹر نیشنل لینگویج‘۔جب ان کو گرامر کی بھول بتائی گئی تووہ
بولے: معاف کیجییـ میں اپنا چشمہ گھر بھول آیا‘۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انگریزی کی گرامر ان کا چشمہ لکھتا ہے ۔ایک اور ٹیچر سے کہا گیا کہ اس جملے کو پڑھیے: 'انگلش از یوئرفیوچر‘تو اس نے پڑھا 'انگلش از یوئر فیوٹر‘۔پنجاب کے ٹیچروں کا ہی نہیں ‘پورے بھارت کے ٹیچروں کا یہی حال ہے ۔ملک میں کسی مضمون میں بچے سب سے زیادہ فیل ہوتے ہیں تو وہ انگریزی ہی ہے ۔وہ سب سے زیادہ مشقت کرتے ہیں تو انگریزی کیلئے ہی کرتے ہیں ۔دنیا کے صرف مشرقی غلام ملکوں میں ہی اس طرح انگریزی تھوپی جاتی ہے ۔دنیا کے سبھی بڑے اور طاقتور ملک اپنے بچوں کو اپنی زبان میں ہی تعلیم و تربیت دیتے ہیں ۔
تعلیم کے نام پرمودی سرکار خالی جھنجھنابجا رہی ہے ۔اگر اس کے پاس دماغ ہوتا تووہ پہلے دن ہی بچوں کولازمی انگریزی پڑھائی پر پابندی لگا دیتی ۔ہرنوں پر گھاس نہیں لادنی چاہیے۔ بڑے ہو کر جو چاہے جتنی غیر ملکی زبانیں پڑھیں اس پر کوئی پابندی نہ ہو!
یہ سو کروڑ لوگ بھی بھارتی ہیں!
اپنے ملک کا عجیب حال ہے ۔کبھی 'سمارٹ سٹی بن رہا ہے‘ کبھی 'میک ان انڈیا‘ کا نعرہ تیر رہا ہے اور کبھی صفائی کی مہم چل رہی ہے۔ یہ سب زمین پر اتریں تو اچھا ہے لیکن یہ سب اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر شروع ہوتے ہیں اور پھر پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کہاں غائب ہوجاتے ہیں ؟ان سب مہموں کے مقابلے کیا غریبی ہٹاؤسب سے بڑی اورسب سے ضروری مہم نہیں ہے؟اگر غریبی ہٹے توساری مہمیں اپنے آپ کامیاب ہوں گی ۔اگر وہ کامیاب نہیں ہوئیں توغریبی کیسے ہٹے گی؟
آپ جتنے بھی مشن چلا رہے ہیں ‘ان کا ہدف کیا ہے ؟ کیوں چلا رہے ہیں ‘انہیں ؟کبھی اپنے خود سے یہ پوچھایا آپ کے وزرا ء اور پارٹی لیڈروں نے پوچھا؟ایسا لگتا ہے کہ یہ سارے مشن کسی مشن کیلئے ہی چل رہے ہیں ۔مشن کا ہدف مشن ہے ‘اور کچھ نہیں۔ جیسے ناٹک کاہدف ناٹک ہوتا ہے اور نوٹنکی کا نوٹنکی ۔اسی لئے یہ مشن اگر کامیاب بھی ہو گئے توفائدہ کس کا ہوگا؟صرف ان پندرہ بیس کروڑ لوگوں کا ‘جو پہلے سے کھائے پیئے اور دھائے ہوئے ہیں۔ باقی سو کروڑ لوگوں کی فکر آپ کو ہے بھی یا نہیں ؟پچھلی سرکار نے توان سو کروڑ لوگوں میں سے ستر کروڑلوگوں کو غائب ہی کر دیا تھا۔وہ دعویٰ کرتی تھی کہ ملک میں اب مشکل سے پچیس تیس کروڑ لوگ ہی غریبی کی حد کے نیچے ہیں ۔ان سے پوچھیں کہ غریبی کی ریکھاکہاں ہے تووہ بتاتے تھے کہ شہر میں جوبتیس روپے روزانہ اور گاؤں میں اٹھائیس روپیہ روزانہ سے کم خرچ کر پاتا ہے ‘وہ ہی غریب ہے ۔اس جھوٹے اور ہاتھ کے بنائے ہوئے آنکڑے کو مودی کی سرکار نے آج تک رد نہیں کیا ہے ۔ابھی ابھی آکسفورڈ یونیورسٹی کا غریبی متعلق سروے سامنے آیا ہے۔ اس کے مطابق کم از کم 44 کروڑبھارتی غریبی کی ریکھا کے نیچے ہیں۔ بھارت کے کئی صوبوں میں اتنے غریب ہیں ‘جتنے کئی افریقی ملکوں میں بھی نہیں ہیں ۔سچائی تو یہ ہے کہ بھارت کے لگ بھگ سو کروڑ لوگوں کو روٹی ‘کپڑا ‘ مکان ‘تعلیم‘ صحت‘ اور تفریح کی سہولیات بھی موجود نہیں ہیں۔ جس سرکار کا دھیان ان سو کروڑ لوگوں کی طرف نہیں ہے ‘اسے اپنے آپ کو وطن پرست کہنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔یہ سو کروڑ لوگ بھی انسان ہیں اور بھارتی ہیں ۔