"DVP" (space) message & send to 7575

ایک مغوی وزیر اعظم

اگر کسی عظیم وزیر اعظم کو بھلانے کی سب سے زیادہ کوشش ہوئی ہے تووہ نرسمہا راؤ جی کو بھلانے کی کوشش ہوئی ہے ۔جس دن ان کی وفات ہوئی (23 دسمبر2004 ء)دلی میں کڑاکے دار ٹھنڈپڑ رہی تھی ۔لوگ سوچ رہے تھے کہ ان کی آخری رسومات راج گھاٹ کے کہیں آس پاس ہوںگی ۔مجھے صبح صبح ڈاکٹر من موہن سنگھ جی کا فون آیا۔وہ خود لائین پر تھے۔انہوں نے کہا کہ راؤ صاحب کو ابھی ان کے گھر (9 موتی لعل نہرو مارگ)سے دفتر کانگریس پر لا رہے ہیں اور وہاں سے انہیں حیدرآباد لے جانے کا فیصلہ ہوا ہے۔آپ سیدھے کانگریس کے دفتر پہنچیں ۔دفتر کانگریس میں اس وقت وزیر اعظم من موہن سنگھ اور کانگریس پارٹی کی صدرسونیا گاندھی کے علاوہ مشکل سے آٹھ دس کانگریسی لیڈر موجود تھے۔وہ آخری وداعی بھی کیا وداعی تھی ؟ذکر نہ کریں توہی بہتر!
نرسمہا راؤ جی نے اپنے دور اقتدار میں اتنے زبردست کام کیے ہیں کہ کانگریس چاہے انہیں بھلانے کی کوشش کرتی رہے لیکن بھارت کی تاریخ انہیں کبھی بھلا نہیں سکے گی۔ انہوں نے نہرو خاندان کی جانب جتنی فراخ دلی دکھائی ‘شاید ہی کوئی وزیر اعظم دکھا سکتا ہے (من موہن سنگھ کا درجہ الگ ہے )۔انہوں نے راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کو100 کروڑ روپے دیے ‘سونیا گاندھی کا گھر سبھی رکاوٹ ڈالنے والوں کا اڈہ بن گیا تھالیکن انہوں نے سونیا جی کے خلاف ایک لفظ نہیں بولا اور نہ ہی کوئی کارروائی کی ‘جبکہ جو لو گ راجیو گاندھی اور من موہن سنگھ کے وزیر رہے ہیں ‘ان میں سے کچھ نے راؤ صاحب کوویسی کارروائی کرنے کی صلاح بھی دی تھی۔
اب بی جے پی سرکار نے دلی میں 'راشٹریہ سمرتی ستھل‘پر راؤ صاحب کی یادگار قائم کی ہے ۔ان کی وفات کے ساڑھے دس سال بعداب ان کے یوم پیدائش (28 جون )پر ان کو علم میں لیاگیا ہے ۔کانگریسی اس پر کیا اعتراض کر سکتے ہیں ؟یہی کہ بھاجپائیوں اور سنگھیوں کے پاس بڑے ناموں کا ٹوٹا ہے ۔یہ صحیح ہے ۔جیسے انہوں نے سوامی وویکانند کو قبضہ لیا ہے اور وہ جتنے بڑے تھے ‘اس سے انہیں کئی گنا زیادہ بڑ ابنادیاہے ‘ویسے ہی اب وہ سیاسی لیڈروں پر ہاتھ صاف کرنے میں جٹ گئے ہیں ۔وہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ بی جے پی کچھ بڑے کانگریسی لیڈروں کو اغوا کر رہی ہے اور انہیں ہندووادی چشمے پہنا رہی ہے ۔جیسے سردار پٹیل‘مدن موہن مالویہ اور اب نرسمہا راؤ جی !راؤ صاحب پر الزام ہے کہ انہوں ایودھیاکی بابری مسجد مسمار کروائی۔اس سے بڑھ کر جھوٹ کیا ہو سکتا ہے ؟چندر شیکھر اور راؤ صاحب نے مسجد و مندر مسئلے کے حل کیلئے کافی کوششیں کیں ۔ان کی اندرونی داستان کبھی الگ سے لکھی جائے گی لیکن یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں‘جو اپنے اچھے اعمالوں کے باعث اونچی منزل کو اٹھ جاتی ہیں کہ انہیں ملک ‘ذات یا مذہب کے دائروں میں قید کرنا ناممکن ہو جاتا ہے ۔جس دن نہرو ‘فیروز گاندھی (گاندھی نہیں )خاندان سے کانگریس کا پنڈ چھوٹے گا ‘اسی دن یہ سبھی ہندووادی لیڈر اپنے آپ وطن پرست بن جائیں گے ۔سبھاش چندر بوس کوبھی انصاف ملے گا۔ویر ساورکر ‘بھگت سنگھ ‘چندر شیکھر آزاد ‘رام پرساد بسمل ‘اشفاق اللہ خان جیسے وطن پرستوں کو بھی یاد کیا جائے گا۔تاریخ پر سے خاندان پرستی کا چشمہ اتر جائے گا۔
گھوڑا ہمار اور لگام ان کی
وزیر اعظم نے ' ڈجیٹل انڈیا‘پروگرام کا کافی دھوم دھڑاکے سے افتتاح کر دیا ہے ۔اگر آسان ہندی میں کہا جائے تواسے ہم اطلاع کا انقلاب کہہ سکتے ہیں لیکن ہماری سرکار میں بیٹھے مہان دیش بھگت لیڈروں کو 'ڈجیٹل انڈیا‘ کیلئے بھارتی زبانوں کا کوئی لفظ نہیں ملا ۔یہ ان کی معذور عقل ہے ۔مجھے ڈر ہے کہ ایک لاکھ کروڑ روپیہ کے اس بڑے پروگرام کو یہ عقل کی معذروی گھیرے رہے گی ۔'میک ان انڈیا‘اور 'سمارٹ سٹی ‘جیسے انگریزی الفاظ کے ساتھ اب دماغی غلامی کا یہ نیا لفظ 'ڈجیٹل انڈیا‘ بھی جڑ گیا ہے ۔اس پروگرام کے تحت سرکار ملک کے عوام کو انٹر نیٹ کی سہولیات مہیا کروائے گی ۔ملک کے دور دراز گاؤں کو ایک دوسرے سے اور شہروں سے جوڑے گی ۔تقریباًہر ایک بھارتی کو موبائل فون سے جوڑے گی ۔لوگ اپنے فون سے ہی کئی کام گھر بیٹھے بیٹھے مکمل کر لیں گے ۔ٹکٹوںکا ریزرویشن کروا لیں گے ‘چیز خرید وفرخت کر سکیں گے ‘درخواستیں بھر کر فون یا کمپیوٹر سے ہی بھجوا سکیں گے ‘لین دین کیلئے انہیں بینک جانے کی ضرورت نہیں ہو گی ۔دنیا بھرکی جانکاری وہ گھر بیٹھے ہی حاصل کر سکیں گے ۔اس میں شک نہیں کہ یہ اطلاعات کا انقلاب ہوگا۔بھارت میں اب نئے دور کا آغاز ہوگا۔ لیکن ڈر یہی ہے کہ ہماری سرکار کے مہا پنڈت لیڈر اسے سائنسی انقلاب کہنے لگیں گے ۔انہوں نے ایسا کہنا شروع بھی کر دیا ہے ۔وہ اطلاع کو سائنس سمجھتے ہیں ۔یونانی فلاسفرسقراط سائنس کو بڑ ااچھا مانتے تھے لیکن ذرا پوچھا جائے کہ امریکہ اور یورپ کے ملکوں کا ‘جہاں یہ اطلاعات کا انقلاب مکمل ہو چکا ہے ‘کیا حال ہے ؟کیاوہاں کے لوگ اچھے ہو گئے ہیں ؟ان ممالک میں جتنے جرائم ‘زیادتیاں ‘عیاشیاں ‘قتل ‘اغوا وغیرہ ہوتے ہیں ‘اتنے دنیا کے کئی بیک ورڈ کہے جانے والے ملکوں میں نہیں ہوتے ۔اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہم نئی نئی تکنیک نہیں اپنائیں۔ ضرور اپنائیں لیکن ان کے خطروں سے بھی آگاہ رہیں۔ انٹر نیٹ کی وجہ سے اس ملک میں ننگاپن کا پرچار پچھلے دس بیس سالوں میں جتناہوا ہے ‘شاید پچھلی دس بیس صدیوں میں نہیں ہوا۔ہماری مکمل انٹر نیٹ کو چلانے والا کون ہوتا ہے ؟غیر ملکی کمپنیاں !گوگل ‘مائکرو سافٹ ‘ایپل ‘یاہو‘سکائپ ‘فیس بک اور واٹس اپ وغیرہ ۔گھوڑا ہمارا ہے اور لگام ان کی ہے ،یہ کمپنیاں کروڑوں روپیہ کا منافع ہم سے کماتی ہیں ۔ہماری جاسوسی بھی اپنے آپ ہو جاتی ہے ۔ای کامرس کے ذریعے روز کروڑوں اربوں کا کھیل ہو رہا ہے لیکن روزگار کتنے لوگوں کو مل رہا ہے ؟ہماری خون پسینے کی کمائی کے اربوں کھربوں یہ مالدار ملک کیوں اڑا لے جاتے ہیں ؟ہم اپنے کمپیوٹر 'سرور‘ کیوں نہیںلگا سکتے ؟ہم سپر موبائل کیوں نہیں بنا سکتے ؟ ہم گوگل اور مائکروسافٹ جیسی کمپنیاں کیوں نہیں کھڑی کر سکتے ؟ملک کے صرف پچیس کروڑ لوگوں کو ملنے والی اطلاع کی اس سہولت سے باقی سو کروڑ لوگ محروم کیوں ہیں اور ذرا سرکار یہ تو بتائے کہ وہ انگریزی کے ذریعے عام عوام تک اس پروگرام کو کیسے پہنچائے گی ؟جب تک بھارتی زبانیں اس پروگرام کا ذریعہ نہیں بنیں گی ‘اس پروگرام کی فزیکل معذوری بڑھتی چلی جائے گی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں