نیوزی لینڈ میں بھارتی سفیرروی تھاپر کو وزارت خارجہ نے واپس بلا لیا ہے کیونکہ الزام ہے کہ ان کی زوجہ نے ان کے نوکرکو پیٹنے کی حرکت کی ہے ۔اس نوکر کا معاملہ نیوزی لینڈ کے اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر بھی جم کر اُچھلا۔مقامی پولیس نے اس معاملے کا نوٹس لیا‘ اگرچہ تھاپر نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی بیوی پر لگایا گیا الزام بے بنیاد ہے اور وہ بہت تجربہ کار اور سمجھدار خاتون ہیں‘ وہ اپنے گھریلو نوکروں کے ساتھ ایسا سلوک کیسے کر سکتی ہیں ؟
ہمارے سفیروں کے گھریلونوکروں کا یہ پہلا معاملہ نہیں ہے۔ نیویارک میں دیویانی کھوبر گاڑے کوتو پولیس نے گرفتار تک کر لیا تھا‘کیونکہ ان کے نوکر نے تحریری شکایت درج کرائی تھی۔ دیویانی کے اس عمل کے سبب بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں اس وقت تناؤ بھی پیدا ہو گیا تھا۔ایک اور معاملے میں ایک دوسری عورت کو اپنے نوکر کے سبب لاکھوں روپے ہرجانہ بھرنا پڑا تھا۔ اِس وقت ہمارے 27 سفیروں کے خلاف مختلف ممالک میں جانچ چل رہی ہے ۔ان میں بدعنوانی ‘ظلم اور بُرا سلوک جیسے معاملات پچھلے سال کے مقابلے تین گنا ہو گئے ہیں ۔وہ شاید اس لئے بڑھ گئے ہیں کہ ہماری وزارت خارجہ اپنے افسروں کے ساتھ زیادہ سختی سے پیش آ رہی ہے۔
اس طرح کے واقعات کا سب سے گندا پہلو یہ ہے کہ دنیا میں ملک کی بدنامی ہوتی ہے ۔ساری دنیا میںہم عظیم بھارتی ثقافت اور تہذیب کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور ہمارے سب سے زیادہ سدھرے ہوئے اور تعلیم یافتہ مانے جانے والے شہری اپنے نوکروں پر غیر انسانی ظلم کرتے ہیں ۔کسی شخص کے تہذیب یافتہ ہونے کی کسوٹی یہی ہے کہ اس کا اپنے نوکروں کے ساتھ کیسا سلوک ہے ؟ہمارے سفارتکار اپنے نوکروں کے ساتھ برا برتاؤاس لئے بھی کرتے ہیں کہ وہ اپنے دفتروں میں اپنے افسروں سے کافی بے عزت ہوتے رہتے ہیں ۔ایسے سینکڑوں منظر میں نے پچھلے پچاس سال میں خود دیکھے ہیں۔ اونچ نیچ کی برٹش غلام روایت اب بھی جوں کی توں چلی آ رہی ہے ۔افسر اپنی بھڑاس یا تواپنے سے چھوٹے افسروں پر نکالتے ہیں یا اپنے گھریلو نوکروں پر!انہیں یہ بھی دھیان نہیں رہتاکہ وہ جس ملک میں کام کرتے ہیں‘ اس کے قوانین اس کو بخشیں گے نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ایسے معاملات میں ہماری وزارت خارجہ آج کل خاص خبرداری برت رہی ہے لیکن اسے اپنی بنیادی سنسکرتی(اونچ نیچ والی )بدلنے پر دھیان دینا ہوگا۔
ویاپم گھوٹالہ : کچھ سوالات
مدھیہ پردیش میں ہوا ویاپم (پروفیشنل ایگزامنیشن بورڈ) گھوٹالہ کوئی معمولی گھوٹالہ نہیں ہے ۔شاید یہ ملک کا سب سے بڑا گھوٹالہ ثابت ہو ۔اس سے متعلق جو موتیں ہو رہی ہیں ‘اگر ان کا سیدھاتعلق اس گھوٹالے کے ساتھ پایا گیا تو آپ مان لیجئے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا گھوٹالہ مانا جائے گا ۔اگر اس کی جانچ میں دیری ہوئی یا ہیرا پھیری ہوئی تو شوراج سنگھ چوہان کی سرکار تو جائے گی ہی‘ نریندر مودی بھی کہیں منہ دکھانے لائق نہیں رہیں گے‘ حالانکہ اس میں نریندر مودی کا دور دور تک کوئی ہاتھ ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتااور چوہان بھی سینہ ٹھونک کر بار بار کہہ رہے ہیں کہ سانچ کو آنچ کیا؟میں تو جانچ سختی سے کروا رہا ہوں ۔
یہ ٹھیک ہے کہ ایم پی کی ہائی کورٹ نے مخصوص جانچ کمیٹی بٹھا دی ہے۔ اس کے پہلے مخصوص ٹاسک فورس بھی جانچ کر رہی ہے‘ لیکن سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اس گھوٹالے سے متعلقہ 47 لوگوں کی وفات کیسے ہو گئی ۔اتنے لوگ پچھلے دو تین برسوں میں مر کیسے گئے؟ان میں زیادہ تر لوگ جوان اور ادھیڑ عمر ہیں !کیایہ محض اتفاق ہے؟اگر نہیں تو کیا یہ دنیا کا بہت بڑا تعجب نہیں ہے کہ 47 لوگ مر گئے اور ابھی تک ایک بھی موت کا سراغ نہیں ملا کہ یہ کس نے کروائی؟ اس کے پیچھے کون ہے ؟اگر کوئی لیڈر اکیلا یہ سازش کر
رہا ہے تو اسے وہ اب تک کیسے چھپا پا رہا ہے؟ایک حیرانی اور ہے! سرکاری نوکریوں کے امتحان میں لاکھوں امیدواروں کے ساتھ یہ دھاندلی ہوئی ہے اور اس میں ایک بھی نوکر شاہ کا نام نہیں اُچھلا۔کیا نوکر شاہوں کی ملی بھگت کے بنااتنی بڑی دھاندلی کوئی وزیر اعلیٰ یا وزیر تعلیم کر سکتا ہے ؟وزیر تعلیم جیل میں ہیں اور نوکر شاہ موج کر رہے ہیں۔ اس سے بھی بڑا عجوبہ یہ ہے کہ جن غریب اور مڈل کلاس طبقے کے شاگردوں نے نوکری کے امتحان میں پاس ہونے کیلئے رشوتیں دی تھیں ‘وہ جیل میں ہیں اور جن لیڈروں اور نوکر شاہوں نے لاکھوں روپیہ رشوتیں کھائی ہیں ‘وہ مزے کر رہے ہیں ۔رشوت دینے والے لڑکے اور لڑکیاں شرم کے مارے خودکشیاں کر رہے ہیں اور اس لئے بھی کر رہے ہیں کہ جانچ کے دوران پولیس والے اب ان سے اور زیادہ رشوت مانگ رہے ہیں ۔ایم پی سرکار نے سینکڑوں لوگوں کو جیل میں بند کر دیا ہے۔ اور وہ جانچ بھی کرو ا رہی ہے لیکن عام آدمی کا بھروسہ اس پر سے اٹھ چکا ہے ۔ایسے میں بہتر یہی ہوگا کہ ساری جانچ یا توسی بی آئی کرے یا سپریم کورٹ کروائے۔
مدرسوں پر سیاست
مہاراشٹر سرکار نے ایسے مدرسوں کو ماننے سے منع کر دیا ہے ‘جو صرف مذہبی تعلیم دیتے ہیں ۔اس معاملے پر سیاست گرما رہی ہے۔ کئی مسلم لیڈروں نے الزام لگایا ہے کہ یہ تعلیم کا ہندوپنہ ہے۔ یہ مدارس کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ ایک لیڈر نے پوچھا ہے کہ جو ہندو پاٹھشالائیں (تعلیم کے سکول)صر ف سنسکرت اور وید پڑھاتے ہیں ‘سرکار اس کو تسلیم کرتی ہے یا نہیں ؟
مہاراشٹر کے وزیر تعلیم اور اقلیتی معاملات کے وزراء کا کہنا ہے کہ جو مدرسے بچوں کو میتھ میٹکس‘سائنس ‘ادب زبان وغیرہ نہیں پڑھاتے ‘انہیں ہم سکول کیسے مان سکتے ہیں ؟اور ان میں ہندوؤں‘ سکھوں اور عیسائیوں کے بچے نہیں پڑھ سکتے ۔آئین ہر بچے کو تعلیم و تربیت کا حق دیتا ہے لیکن یہ مدرسے زیادہ تربچوں کو اس حق سے محروم کرتے ہیں ۔وزیر کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر کے 1890 مدرسوں میں سے 550 نے طلبا کو چار سبجیکٹ پڑھانا قبول کیا ہے۔ مطلب یہ کہ ان کو مانا جائے گا۔
مدارس پر سیاست غیر ضروری ہے ‘کیونکہ ان مدرسوں کا مقصد کلرک اور بابو پیدا کرنا نہیں ہے ۔ ان کا کام مسلم بچوں کو مذہبی اور روحانی تعلیم سے فیضیاب کر نا ہے۔اگر ان مدارس کو سرکاری منظوری مل بھی جائے تو وہ کس کام کی ہے ؟مدرسے کے بچے سرکاری نوکری کی بھرتی کے امتحان میں پاس کیسے ہوں گے؟ اس کے علاوہ اگر ایسے مدارس کی منظوری نہیں ہے توصرف مذہبی تعلیم دینے والے کسی پنتھ یا پاٹھشالاؤں کو بھی منظوری بالکل نہیں دی جانی چاہیے۔ ہاں‘ سرکاری منظوری کی لالچ میں یہ مدرسے اور پاٹھشالاؤں کے بچوں کو دیگر عنوان بھی پڑھانے لگیں تو ان کا بھی بھلا ہوگا۔پچھلی سرکاروں نے بھی ان مدرسوں کو منظوری نہیں دی تھی ۔ابھی انہیں نئے سرے منظور نہیں کیا جارہا ہے ‘ اسی لئے یہ تکرار ہوا میں تیر چلانے جیسی ہے۔