وزیراعظم نریندر مودی کا حالیہ بیرونی دورہ اب تک ہوئے ان کے سبھی دوروں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔وہ اپنے پہلے سال میں ہی امریکہ ‘چین ‘جاپان‘جرمنی اور فرانس جیسے طاقتور ملکوں میں ہو آئے۔ وہ دورے کامیاب رہے ‘جیسے کہ سدا رہتے ہیں لیکن میری یادداشت میں وہ ایسے پہلے بھارتی وزیر اعظم ہیں ‘جو وسطی ایشیا کے پانچوں جمہوری ملکوں میں ایک ساتھ جا رہے ہیں ۔یہ پانچوں جمہوری ملک قزاقستان ‘ازبکستان‘ ترکمانستان‘کرغستان اور تاجکستان ہیں۔ ہمارے کئی وزرائے اعظم اور وزراء خارجہ کو ان کے نام بھی نہیں معلوم ہوتے تھے ۔یہ پانچوں ملک سوویت یونین کے صوبے تھے ۔جب سوویت یونین بکھرا تویہ ملک آزاد ہوئے ۔وزیر اعظم نرسمہا راؤ وہاں گئے ضرور لیکن ان سبھی ملکوں میں جانا ضروری نہیں سمجھا‘کیونکہ ایک تو یہ بہت پچھڑے ہوئے تھے ‘دوسرا ان تک پہنچنے کیلئے کوئی سیدھا زمینی راستہ نہ تب تھا اور نہ اب ہے ‘تیسرا ہم روسیوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے اور چوتھا امریکہ اور چین ‘روس کی جانب سے خالی کی گئی اس جگہ کو بھرنے کیلئے بے تاب تھے ۔اس وقت بھارت ان بین الاقوامی مقابلوںکے پچڑے میں پڑنا نہیں چاہتا تھا۔
لیکن میں نئے خارجہ سیکرٹری جے شنکر کو شاباشی دیتا ہوں کہ وہ اپنا دھیان اس علاقے پر مرکوز کررہے ہیں ۔مودی کا یہ وسطی ایشیا ئی دورہ پچھلے سبھی غیر ملکی دوروں سے زیادہ اہمیت والا اس لئے ہے کہ یہ علاقہ دنیا کا سب مالدار علاقہ ہے اور لگ بھگ اَن ٹچ ہے ۔ان پانچوں ملکوں میں اتنا تیل‘لوہا‘گیس‘سونا‘تانبا اور قیمتی معدنیاتی چیزیں ہیں کہ پورے جنوب ایشیا کی سیکڑوں برسوں تک کی ضرورت
کو وہ پورا کر سکتے ہیں ۔کچھ ملک ایسے ہیں ‘جن کا رقبہ بھارت سے بھی بڑا ہے اور ان کی آبادی مشکل سے ہمارے دوتین اضلاع کے برابر ہے ۔اگران ممالک میں بھارت متحرک ہو جائے تو اسے روس‘چین اور امریکہ سے بھی زیادہ کامیابی ملے گی ۔بھارت کے لاکھوں نوجوانوں کو فوراً روزگار مہیا ہو سکے گا ۔دوسری طاقتوں کے مقابلے سینٹرل ایشیا میں بھارت کے کامیابی کے امکانات اس لئے زیادہ ہیں کہ اس علاقے کے لوگوں اور بھارت کے لوگوں کی تہذیب بنیادی طور پر ایک جیسی ہی ہے ۔میں پچھلے پچاس برسوں سے ان جمہوری ملکوں میں سٹڈی کرتا رہا ہوں اور وہاں کئی بار جا کر رہا بھی ہوں ۔میں مانتا ہوں کہ اس کے چھ کروڑ باشندوں کے دلوں کے قریب جتنا بھارت ہے ‘دنیاکا کوئی ملک نہیں ہے ۔
حالانکہ ان جمہوری ملکوں کے قریب قریب سبھی باشندے اسلام کو مانتے ہیں لیکن انکا اسلام بالکل سطحی ہے‘کیونکہ روس کے کمیونسٹ حکمرانوں نے انہیں اتنا دبا کر رکھا تھا کہ وہ اپنی مذہبی پہچان لگ بھگ کھو چکے تھے ۔اس کے باوجود ان کی تہذیبی پہچا ن برابر قائم رہی ۔یہ تہذیبی کڑی انہیں بھارت سے جوڑتی ہے ۔وہ اپنے آپ کو آریہ ونشی مانتے ہیں ۔ان کی زبان ‘لباس‘کھان پان وغیرہ پر آریوں کاگہرا اثر ہے۔ کچھ جرمن عالم تو یہ مانتے ہیں کہ روسی علاقے کے آئے ہوئے آریوں نے بھارت کو بسایا ہے جبکہ
بھارت کے کتابی دلیل یہ ثابت کرتے ہیں کہ آریہ لوگ ‘سنسکرت زبان اور بودھ مذہب اسی علاقے کے ذریعے ساری دنیا میں پھیلے۔ مودی نے اپنی تقاریر میں اسی بھارتی وراثت کی پکار لگائی ہے ۔
مکمل وسطی ایشیاکے لوگ روس سے آزاد تو ہوئے لیکن ایک نئے مقابلے میں پھنس گئے تھے۔روس‘چین اور امریکہ کے اسی مقابلے کو اب وہ ایک اور نئی شکل میں دیکھیں گے ۔شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ہونے والے نئے ممبروں‘ بھارت اور پاکستان کے مقابلے کی شکل میں ۔یہ ایسی ایشیائی تنظیم ہے‘جس میں امریکہ نہیں ہے لیکن روس اورچین ‘دونوں ہیں ۔ان دو ایٹمی طاقتوں کے ساتھ اب دوایٹمی طاقتیں اور جڑنے والی ہیں ۔بھارت اور پاکستان ۔ساری دنیا میں شاید ہی کوئی دوسرا علاقائی اتحاد ہے ‘جس میں چار چار ایٹمی طاقتیں ایک ساتھ ہوں۔ اس میں تاجکستان کے علاوہ باقی چاروں وسطی ایشیائی جمہوری ملک بھی ہیں۔ ان جمہوری ملکوں کے لوگ اسلامی کٹر واد کے خلاف ہیں۔ انہیں 'آئی ایس آئی ایس ‘کے کٹر تاثرات سے
بچانا بھی اس اتحاد کی ذمہ داری ہے۔ پتا نہیں ‘اب اس تنظیم کا مستقبل کیسا ہو گا؟ ابھی تک تو اس تنظیم نے بیان بازی کرنے کے سوا کوئی ٹھوس کام نہیں کیا لیکن اگر پاکستان چاہے تواسے بہت کار آمد بنا سکتا ہے ۔اگر وہ چاہے تو بھارت کیلئے زمینی راستہ کھول سکتا ہے ۔پاکستان اور افغانستان سے ہوتا ہوابھارت اگر سنٹرل ایشیا تک سیدھا پہنچنے لگے تو سارے جنوب ایشیا کی قسمت چمک اٹھے گی ۔ویسے بھارت نے ایران افغانستان سرحد پر 'جرنج دلآرام ‘سڑک بنادی ہے ۔فارس کے خلیج سے افغانستان ہوتے ہوئے اب بھارت زمینی راستے سے سینٹرل ایشیا سیدھے پہنچ سکتا ہے۔اب وہ پاکستان پر انحصار نہیں رکھتا لیکن یہ راستہ کافی لمبا ہے ۔شنگھائی تعاون تنظیم اس لمبائی کو کم کر سکے تو کیا کہنے ؟سارک میں جیسے بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کھنچے رہتے ہیں ‘ویسے ہی اس تنظیم میں کھینچ تان کرتے رہے تو وہ اس کا بھی بھٹہ بٹھا دیں گے ۔نریندر مودی نے بڑی ہمت کی ۔انہوں نے نوازشریف سے ملنے کی پہل کی ۔یہ بھول سدھار قابل تعریف ہے۔ انہوں نے ہی بات توڑی تھی ۔اب انہوں نے ہی جوڑی ہے۔ دونوں کی ملاقات سے اب ٹوٹا تار جڑ گیا ہے ۔کئی چھوٹے موٹے مدعوں پر اتفاق ہوا ہے ۔اگر دنوں ملک وسطی ایشیا کے بارے میں تعاون کا رویہ بنا لیں تو پاکستان بیٹھے بٹھائے مالامال ہو جائے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ سارک وسیع ہو۔اس میں سینٹرل ایشیا کے پانچوں جمہوری ملک ‘ایران ‘برما اور ماریشیئس کو بھی جوڑا جائے۔ اگر ان سبھی ملکوں کا ہم مشترکہ بازار‘مشترکہ فیملی‘مشترکہ بڑی تنظیم کھڑی کرسکیں تو وہ یورپی یونین سے بھی زیادہ طاقتوراور خوشحال علاقہ بن سکتا ہے۔ اگرچہ سارے ملک قبول کریں تو اسے 'آریانہ ‘بھی کہہ سکتے ہیں۔ افغانستان کا قدیم نام یہی ہے ۔
'ایس سی او‘اور 'برکس ‘ کے بہانے مودی کی ملاقات چین اور روس کے صدورسے بھی ہوگئی۔ایرانی اور افغان سربراہوں سے بھی ملاقات ہوئی ۔ظاہر ہے کہ ایسا موقع پچھلے ایک سال میں پہلی بار آیا۔ مودی نے جم کر اس کا استعمال کیا ہے ۔لیکن چین اپنی بات پر بضد ہے۔ وہ لکھوی کے معاملے میں اب بھی پاکستان کے ساتھ ہے۔ دہشت گردی کے سوال پر بھی سبھی لیڈر تقریریں تو بہت اچھی کرتے ہیں لیکن کوئی مضبوط قدم نہیں اٹھاتے۔ امریکی واپسی کے وقت میںافغانستان کا مستقبل کیا ہوگا‘اس مدعے پر کوئی پُر امید بات نہیں ہوئی ہے ۔ایران اور روس کے خلاف عائد بین الاقوامی پابندیوں کا حل ڈھونڈنے میں بھارت اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔بھارتی پالیسی میکروں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اس 'بہتر سارک‘ کے دفاع اور خوشحالی کی ذمہ داری آخر کاربھارت کو سنبھالنی ہے۔بھارت کی تہذیب اور بھارت کی جمہوریت سارے ایشیائی ملکوں کے لئے نمونہ ہے۔ بھارت کی اقتصادیات کا مستقبل بھی روشن ہے ۔اگر بھارت کی خارجہ پالیسی اپنے اڑوس پڑوس سے ٹھیک رہے گی تودنیاوی طاقتیں اپنے آپ جھک جائیں گی ۔مودی نے آریانہ کی دہلیز پر دستک تو دے دی ہے لیکن بھارت کیلئے وہ تبھی کھلیں گے ‘جبکہ ہم دوراندیشی اور صبر سے کام لیں گے ۔