روس کے شہر اوفا میں نریندر مودی او رمیاں نواز شریف کی ملاقات پر بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں میں مخالفین تنقیدکر رہے ہیں لیکن یہ تنقیدبالکل بے بنیاد ہے ۔سب سے پہلے ہم پاکستان کی سیاسی پارٹیوں ‘اخباروں اور ٹی وی چینلوں کی بات کرتے ہیں ۔مودی نے نواز کو بلایا ۔مودی نے پہل کی ‘اس پر سب چپ ہیں لیکن وہ اس بات کو طول دے رہے ہیں کہ مودی جس کمرے میں نواز سے ملے ہیں ‘وہ کافی بڑا تھا اور نواز کو مودی کے سامنے کافی چلنا پڑا۔یہ بات ٹھیک ہے ۔لیکن انہوں نے یہ کیوں نہیں دیکھا کہ نواز جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئے‘ مودی ان کے استقبال کے لیے اٹھ کر کھڑے ہوئے اور نواز سے ہاتھ ملانے کے لیے آگے بھی بڑھے ۔اگر مودی بات چیت کے بارے میں سنجیدہ نہ ہوتے تو پونے گھنٹے کی بات چیت ڈیڑہ گھنٹے تک کیسے چلتی ؟میں پاکستان کے اپوزیشن لیڈروں اور میڈیا کے دوستوں سے التجا کرتا ہوں کہ وہ تھوڑا صبر کریں اور بند گلی کے کھلنے کا خیر مقدم کریں ۔مجھے یقین ہے کہ میاں نواز شریف ایسا کوئی کام نہیں کریں گے ‘جس سے پاکستان کی ناک نیچی ہو۔
اس کے علاوہ پاکستانی میڈیااور لیڈروں کو سب سے بڑا اعتراض اس بات پر ہے کہ دونوں ملکوں کے مشترکہ بیان میں کشمیر کا ذکر کیوں نہیں ہے؟ اس کا صحیح جواب پاکستان کے مشیر دفاع سرتاج عزیز نے دے دیا ہے ۔انہوں نے اسلام آباد لوٹ کر واضح کر دیا کہ کشمیراور سیاچن جیسے معاملات پر ٹریک 2 میں بات چیت ہوگی۔جب دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹری اور سرحد کے فوجی افسر ملیں گے تووہ سبھی متنازع معاملات پر بات کریںگے ۔جہاں تک کشمیر کا سوال ہے ‘بھارت میں بھی یہی سوال پوچھا جا رہا ہے کہ نریندر مودی جیسا وزیر اعظم پاکستانی قبضے والے کشمیر پرچپ کیوں ہے ؟ظاہر ہے‘ فی الحال ایک بیان دے دینے سے کشمیر کا تنازع حل ہونے والا نہیں ہے ۔یہ معاملہ اب لگ بھگ ستر سال پرانہ ہو گیا ہے اور پتا نہیں ‘ابھی مزید کتنے سال الجھا رہے گا۔ اس وقت دہشت گردی جیسے معاملات پر فی الفور بات ہونی چاہیے۔باہمی تجارت بڑھانے پر معاہدہ ہونا چاہیے ۔ایک دوسرے کی سرحد عبور کر کے دونوں ملکوں کو اگلے ملکوں میں جانے کی سہولت ہونی چاہیے ۔اگر ان معاملات پر اتفاق ہو جائے تو باہمی اعتماد میں اتنااضافہ ہوگاکہ کشمیر جیسے معاملات پر بھی کوئی نہ کوئی راہ نکل آئے گی۔
جہاں تک کانگریس اور شوسینا کی جانب سے کی گئی تنقید کا سوال ہے ‘کانگریس کی مجبوری ہے اور اسے سب سمجھتے ہیں ۔لیکن شو سینا کا رویہ بالکل ہوا میں لاٹھیاں چلانے جیسا ہے۔ اس کے لیڈروں کی آنکھ پر مراٹھی پرستی کا چشمہ چڑھا ہوا ہے ۔یہ اچھا ہے کہ پورے ملک کی سطح پراسکے لیڈروں کے رائے کی اتنی ہی قیمت ہے‘جتنی کہ ہونی چاہیے۔
وزارت خارجہ میں باہر کے لوگ
وزارت خارجہ کے اس فیصلے پر آج جم کر بحث چل رہی ہے کہ اب اس میں انڈین فارن سروس (آئی ایف ایس) کے علاوہ باہر سے بھی لوگوں کو بھرتی کیا جا ئے گا۔وہ لوگ جو بیرونی ملکوں کے معاملات کے ماہر ہوں گے اور کسی بھی ملک پرایم فل کے ڈگری کے مالک ہوں گے‘ وزارت خارجہ میں افسر بن سکیں گے ۔اس فیصلے کا ہدف یہی ہے کہ وزارت خارجہ میں پالیسی سازوں کی استعداد کو بڑھایا جائے ۔ہماری وزارت خارجہ میں سول سروس کے جو لوگ چنے جاتے ہیں ‘انہیں بھارت کی سرکاری ملازمت میں سب سے بڑا مانا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے لیکن یہ بھی محسوس کیا جاتا ہے کہ یہ افسر کسی عہدے پرتین سال سے زیادہ نہیں رہتے ۔اسی سبب سے یہ کسی بھی ملک کی خاص جانکاری حاصل نہیں کر پاتے ۔اگر باہر سے ماہر آئیں گے تووہ ان کی مدد کریں گے۔
یہ بات سننے میں اچھی لگتی ہے لیکن کیا مودی سرکار اس کی مشکلات سے واقف ہے ؟پہلی بات تویہ ہے کہ ایم فل کی کیا اہمیت ہے ؟ایک دوسال میں کوئی طالب علم یا محقق کسی ملک کو کتنا جان سکتا ہے ؟یہاں تک کہ پی ایچ ڈی کیے ہوئے لوگوںکی بھی جانکاری کتنی زیادہ ہوتی ہے۔ اصل جان کاری تو تجربے سے آتی ہے؛البتہ باہر سے ماہر لائے جائیں تو وہ پروفیسر یا ریڈر سطح کے ہونے چاہئیں۔ لیکن پھر یہ سوال کھڑا ہوگا کہ ان میں اور آئی ایف ایس افسروں میں ٹکر ہوگی اور وزارت خارجہ میدان جنگ بن جائے گی۔ اس کا حل جو مجھے سُوجھتا ہے ‘وہ یہ ہے کہ ملک کے جانے مانے تجربہ کار ماہروں کو مشیر کے طور پر تعینات کیا جائے اور ہمیشہ کے لیے کیا جائے ۔اس وقت بین الاقوامی سیاست کے 100 مشیروں کو کھوجنا بھی مشکل ہے ۔
کئی وزرائے اعظم اور وزیر خارجہ ایسے مشیران سے اکثر صلاح لیتے رہتے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ نیازمندی سے صحیح راستے پہ چلنے کی نصیحت لیتے ہیں۔ ہاں ‘اب اگر ہمارے یہ قابل لیڈر ان مشیروں کو اپنانوکر بنانا چاہتے ہیں تو دوسری بات ہے ۔یہ ضروری ہے کہ لیڈروں میں صلاح لینے کی بھی صلاحیت ہو۔اگر یہ نئی بھرتیاں کر کے افسروں کی تعداد بڑھانے یا اپنے اپنوں کو ریوڑیاں بانٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں تویہ ملک کیلئے مفید نہیں ہو گا۔ ابھی ہمارے پاس 900 آئی ایف ایس اور 4000 دوسرے افسر وزارت خارجہ میں ہیں ۔200 دیگرماہروں کو بھرتی کر لینے سے وزات خارجہ کی تعداد میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوگا۔خارجہ پالیسی میں آج کل اقتصادیات، ماحولیات ‘تجارت اور صنعت وغیرہ کے ماہرین کی اہمیت کافی بڑھ گئی ہے ۔ان شعبوں کی وزارتوں کے افسروں سے مشورہ کیوں نہیں لیا جا سکتا؟ ریٹائرڈ آئی ایف ایس افسر بھی اعلیٰ مشیر ہو سکتے ہیں ۔
چین کا اٹ پٹا رویہ
برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم کے بہانے وزیر اعظم نریندر مودی کی دوطرفہ ملاقاتیں کافی کامیاب دکھائی دیتی ہیں۔ وہ چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمر پیوٹن سے اور پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف سے مل چکے ہیں۔ ان ملاقاتوں میں وہ معاملات کھل کر اٹھائے جا سکتے ہیں جنہیں تنظیموں کے سٹیج پر اٹھانا مناسب نہیں ہوتا۔ مودی نے اس موقع کا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے چینی صدر شی جن پنگ سے اپنے دل کی بات کہہ دی۔ ممبئی حملے کے ماسٹر مائنڈ ذکی الرحمان لکھوی کی رہائی کا مسئلہ انہوں نے زوروں سے اٹھایا ۔انہوں نے چینی صدر سے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ چین نے لکھوی کی گرفتاری میں دوبارہ اڑنگا کیوں لگایا؟جب اقوام متحدہ میں دیگر سبھی بڑی قوتیں گرفتار کرنے کی مانگ کر رہی تھیں تو چین نے اپنا 'تکنیکی ویٹو‘کیوں استعمال کیا ؟چین کے اس قدم پر بھارت کے لوگ بہت غصے میں ہیں ۔اسی
طرح چین کی طرف سے پاکستان میں 46 ارب ڈالر سے اقتصادی راہداری کی تعمیر کے بارے میں میں بھی مودی نے چینی صدر سے کئی خدشات کا اظہار کیا۔ یہ سب باتیں ہماری وزارت خارجہ کے افسروں نے مودی کے ساتھ گئے صحافیوں کو بتائیں‘ لیکن چینی ترجمان نے ان کا خاطر خواہ خیرمقدم کیا یا نہیں اس کا ابھی تک پتا نہیں چلا۔ جب بھارتی صحافیوں نے خارجہ سیکریٹری جے شنکر سے پوچھا کہ مودی کی ناراضگی پر چین کا رد عمل کیا تھا تو انہوں نے کہا کہ ہماری گفتگو سے چینی کافی متاثر ہوئے ۔ضرور ہوئے ہوں گے لیکن اس کا صحیح صحیح پتا تو تب چلے گا‘جب وہ کچھ بولیں گے۔ وہ پہلے بھی کچھ نہیں بولے تھے‘ مودی نے ہی ان کو فون کیاتھا۔ جب اقوام متحدہ میں چین نے اڑنگا لگایا تو وزارت خارجہ نے صحافیوں کو یہ تو بتایاکہ مودی نے فون کیا تھا لیکن یہ معلوم نہیں ہوا کہ چین کی طرف سے کس نے بات کی تھی اور ان سے انہوں نے کیا کہا تھا ۔
اگر چین پاکستان کے قبضے والے کشمیر‘ جموں کشمیر ‘ نئی شاہراہ ریشم اور لکھوی کے بارے میں اپنی دو ٹوک رائے بنا سکے تویہ مودی سرکار کی تاریخی کامیابی ہوگی۔ یہی بھارت چین دوستی کی اصل کسوٹی ہوگی ۔تب بھارت کو چین سے درخواست نہیں کرنی ہوگی کہ آپ ہمیں سلامتی کونسل میں بٹھائیے۔اگر چین سچ مچ بھارت سے دوستانہ تعلق رکھتا ہے تووہ ہمارا قرض سود سمیت ادا کرے گا ۔ماؤ کے چین کو اقوام متحدہ کا ممبر بنوانے کے لیے بھارت نے زبردست کردار ادا کیا تھا‘ چین اس کو بھولا نہیں ہو گا ۔ہمارے سرحدی تنازع کے باوجود چین کے ساتھ بھارت کے تجارتی تعلقات سب سے وسیع اور گہرے ہوتے جا رہے ہیں‘ لیکن اب بھی دونوں ملکوں میں باہمی اعتماد کی کمی ہے ۔اگر یہ کمی پوری ہو جائے تو 21 ویں صدی کو ایشیا کی صدی ہونے سے کوئی روک نہیںسکتا۔