سلامتی کونسل کے پانچوں ممبرممالک اور جرمنی کے ساتھ ایران کا جوہری معاہدہ ایک ایسا واقعہ ہے ‘جسے بین الاقوامی سیاست کی تاریخ میں لمبے وقت تک یاد کیا جائے گا۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ پہلا‘ایران ایک ایسا بہادر ملک ہے ‘جس کے سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی امریکہ کو بڑا شیطان اور سوویت روس کو چھوٹاشیطان کہا کرتے تھے ۔ایسی جرأت دنیا کے کسی بھی لیڈر یا ملک نے کبھی نہیں دکھائی؟ امریکہ اسے 'پاپ کی دُھری‘ کہا کرتا تھا۔ جمی کارٹر کی سرکار نے ایران میں فوجی مداخلت کی کوشش بھی کی تھی۔ افواہیں ایسی بھی تھیں کہ اسرائیل ایران پر ایٹم بم کا استعمال کر سکتا ہے۔ اتنے خراب تعلقات ہوتے ہوئے بھی ایران اور امریکہ نے آج اپنے رشتے بہتر کر لیے ہیں ۔اس جوہری معاہدے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے بیچ پچھلے چالیس سال سے کھنچی کھائی پٹنے کے پورے امکانات ہیں۔ دوسرا‘ اس معاہدے کے سبب اب ایران ایٹم بم نہیں بنا ئے گا کیونکہ اس نے اپنے سبھی ہتھیاروں کے ٹھکانوں پربین الاقوامی نگرانی قبول کر لی ہے ۔ تیسرا‘چھ بڑی طاقتوں نے جوہری بم نہ بنانے کیلئے جتنا دبایا ہے ‘اس سے ان سب ملکوں کو سبق ملے گا‘جو چوری چھپے جوہری بم بنانا چاہتے ہیں، یعنی جوہری بم کے پھیلاؤکے نظر یہ سے یہ تاریخی قدم ہے۔ چوتھا‘ایران کے ساتھ امریکی تعلق اچھے ہو جانے کے سبب اب پورے جنوب ایشیا میں امریکہ ‘بھارت اور ایران مل کر کام کر سکتے ہیں۔ وہ مشترکہ پالیسی ‘مشترکہ سرمایہ کاری اور مشترکہ تجارت کر سکتے ہیں۔ پانچواں ‘ایران امریکہ تعلقات بہتر ہونے کے سبب اب بھارت کو نئی پہل کرنے کے زیادہ مواقع ملیں گے۔ بھارت ایران کی چاہ بہار بندر گاہ بنا ہی رہا ہے ۔وہاں سے سیدھے وسطی ایشیائی ملکوں تک رسائی حاصل ہوگی اور ان ممالک میں بھارت کا اثر بڑھانے میں امریکہ متحرک مدد کر سکتا ہے۔چھٹا‘بھارت‘ ایران اور امریکہ مل کر اب افغانستان اور پاکستان کے طالبان کامقابلہ کر سکتے ہیں ۔وہ افغانستان کو مضبوط اور مستحکم بنا سکتے ہیں ۔ساتواں ‘ بھارت کے سعودی عرب ‘اسرائیل اور ایران ‘تینوں سے بہتر تعلقات ہیں۔ اب بھارت کوثالث توازن کی نئی پالیسی ایجادکرنا ہوگی۔جو کام امریکہ کو بڑے پیمانے پر کرنا ہے ‘وہی کام بھارت کو علاقائی سطح پر کرنا ہوگا۔ آٹھواں ‘ایرانی تیل اب عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کو گرا دے گا۔ بھارت اپنا 80 فیصد تیل باہر سے خریدتا ہے۔ اسے اب اربوں روپے کا فائدہ ہوگا۔ اس کے علاوہ اب ترکمانستان سے گیس اور ایران سے تیل کی پائپ لائن کو بھارت لانا آسان ہو گا۔ نواں‘ ایران پر سے بین الاقوامی پابندیاں ہٹیں گی تو ایران کی اقتصادیات نئی بلندی کو چھوئے گی۔ وہ نئی طاقت بن کر ابھرے گا۔ وہ عراق‘شام‘ لبنان اور دیگر مغرب ایشیائی ملکوں میں متحرک ہو گا۔ اندرونی مخالفت بھی ہوگی۔ ایسے میں بھارت کو نیا کردار بھی نبھانا پڑ سکتا ہے۔
کشمیر پر دُم کیوں دبائیں ؟
بھارت پاک تعلقات بھی اپنے آپ میں ایک پہیلی ہے۔چار دن پہلے توایسا لگ رہا تھا ‘جیسے دونوں ملکوں کی رکی ہوئی بگھی پھر سے دوڑنے لگی ہے، لیکن اب دونوں ملکوں کے دفاعی صلاح کاروں کے بیان پڑھ کر لگتا ہے کہ یہ چاندنی محض چار دن کی تھی۔ کیا پھر اندھیری رات شروع ہو گئی ہے ؟
اگر دونوں ملکوں کے لیڈروں میں جرأت نہیں ہے تو مان لیجیے کہ اوفا میںجو طے ہوا تھا ‘وہ سب ملیا میٹ ہو گیا ہے ۔نہ ممبئی کے حملہ آور اب سزا پائیں گے اور نہ ہی سمجھوتہ ایکسپریس کے! دونوں ملکوں کے دفاعی صلاح کاروں کے بیچ مذاکرات بھی شروع نہیں ہو ں گے ۔جیسے خارجہ سیکرٹریوں کی بات چیت کھونٹی پر ٹنگی ہوئی ہے‘ویسے ہی یہ بھی ٹنگ جائے گی ۔نریندرمودی اب سارک کانفرنس میں جاکر بھی کیا کریں گے ؟من موہن سنگھ کی طرح وہ بھی اپنا وقت بِتا کر خالی ہاتھ گھر بیٹھ جائیں گے۔ میاں نواز شریف اور نریندر مودی دونوں ہی واضح اکثریت کے لیڈر بن کر ابھرے تھے۔ ان کا آغاز بھی بہت اچھا تھا لیکن جنہیں شیر کی طرح دھاڑنا چاہیے تھا‘وہ اب بکریوں کی طرح ممیا رہے ہیں ۔
وہ کس کے آگے ممیا رہے ہیں ؟اپنے اپنے مخالفین کے آگے! میاں صاحب نے پاکستانی عوام کوکھل کر یہ کیوں نہیں بتایا کہ فی الحال ہم انہی معاملات پر بات کریں گے ‘جن پر فوراً رضامندی ہوتے دکھائی پڑ رہی ہے، دہشت گردی ویسا معاملہ ہے اور کشمیر ویسا نہیں ہے۔ اسی لئے کشمیر پر بات ہوگی لیکن بعد میں! سرتاج عزیز
صاحب نے یہ ٹھیک کہا کہ کشمیر‘ سرکریک اور سیاچن ہم ٹریک 2 کے حوالے کریں گے لیکن حیرانی ہے کہ بھارت سرکار نے فوراً اس کو رد کردیا!کیا خوب اندازِسیاست ہے‘ ہمارا؟پاکستان کے خبرچیوں اور اپوزیشن لیڈروں نے اس معاملے کو لے کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔اب سرتاج عزیز صاحب کو کہنا پڑا کہ کشمیر پہلے اور سب کچھ بعد میں ۔پتا نہیں بھارت کشمیر پر بات کرنے سے کیوں ڈرتا ہے؟ ہمارے لیڈر یا تو بالکل دبو ہیں یا پھر وہ نہیں جانتے کہ بات کیسے کرنی ہے ؟کشمیر کے سوال پر وہ اپنی دُم دبائے رکھتے ہیں۔ اگر ان میں ہمت ہے تووہ آگے ہوکر راگ کشمیر چھیڑیں۔ پاکستان اور ہندوستان ‘دونوں کے اپوزیشن پارٹی کی بولتی بند ہوجائے گی۔
والد کے بدلے والدہ کا نام کیوں نہیں ؟
بھارت کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک انقلابی فیصلہ دیا ہے ۔اس نے ایک غیر شادی شدہ والدہ کی اس اپیل کو قبول کر لیا ہے کہ اس کا بچہ اپنے والد کے بجائے اپنی والدہ کا نام لکھے ۔اب ایسے بچوں کو اپنے والد کا نام لکھنا یا بتانا ضروری نہیں ہو گا۔
عدالت کا یہ فیصلہ پڑھتے ہی میرے دماغ میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ ہم سب بھارتی ہر جگہ اپنی ماں کا نام لکھیں ؟والد صاحب کا نام جنہیں لکھنا ہے ‘ضرور لکھیں لیکن کسی بھی سرکاری اور غیر سرکاری دستاویزپر ماں کا نام لکھنا لازمی کیوں نہیںہونا چاہیے؟کسی بھی اولاد کیلئے والدین کا نام ہونا ضروری ہے لیکن والدہ کی حقیقت تو مستند
ہوتی ہے۔ ہم حقیقت کے بدلے اندازے کو زیادہ اہمیت کیوں دیتے ہیں؟ کیوں کہ ہمارا سماج والد کو ہی اولیت دیتا ہے۔ ماں تو عورت ہے۔ عورت تو دوزخ کا دروازہ ہے ۔وہ تو آدمی کی جائیداد ہے ۔ اس کے کوئی حقوق نہیں ہیں ‘صرف فرض ہی فرض ہیں۔ اگر کوئی اولاد سماج میں جانی جائے تو فقط وہ والد کے نام سے ہی جانی جائے ۔یہ زہریلی رسم مشرق اور مغرب دونوں میں موجود ہے۔
لیکن ہم ذرا پلٹ کر دیکھیں ۔بھارت میں بہادروں کو ان کی والدہ کے نام سے ہی جانا جاتا تھا۔کُنتی کے بیٹوں کو کونتییہ کہا جاتا تھا اور سمترا کے بیٹے لکشمن کو سومتر کہاجاتا تھا ۔جابالا کے بیٹے ستیہ کام کوجابال کے نام سے جانا جاتا تھا ۔ہم سیتا رام اور رادھا کرشن کیوں بولتے ہیں ؟سیتا کو رام کے پہلے اور رادھا کو کرشن کے پہلے مقام کیوں دیتے ہیں؟ بھارت کے لوگ اپنی جنم بھومی (جگہ پیدائش) کو 'فادر لینڈ‘ نہیں کہتے ہیں۔ اسے وہ 'ماتر بھومی ‘(مادر وطن)کہتے ہیں۔ ویدوں میں دھرتی کو ماں کہا گیا ہے۔ جب بچوں کے اساتذہ کی گنتی ہوتی ہے تو اس میں والد اور استاد کے پہلے ماں کا نام آتا ہے 'ماتر مان ‘پترمان ‘آچاریہ وان پرشو وید‘۔ ایسا کیا ہوا کہ مغربی سماج کی طرح ہم نے بھی ماں کو پیچھے دھکیل دیا؟
اگر بھارت کا ہر باشندہ اپنے گارڈین کی جگہ والدہ کا نام لکھنے لگے تو ملک میں بہت بنیادی معاشرتی انقلاب شروع ہو جائے گا۔ اس متعلق میں نے اپنے چھوٹے بھائی کے برابر ڈاکٹر سورت سنگھ سے بات کی ہے ۔وہ مشہور وکیل ہیں اور ہارورڈیونیورسٹی میں انہوں نے قانون کی پڑھائی کی ہے ۔ہم کوشش کریں گے کہ سپریم کورٹ میں جلد ایک اپیل دائر کریں اوروالد کے بدلے والدہ کانام لکھنا ضروری کروا دیں۔