"DVP" (space) message & send to 7575

ڈاکٹر عبدالکلام: فقیر سائنسدان

اس سے اچھی ہجرت کیا ہو سکتی ہے ؟ڈاکٹر عبدالکلام کو وہ خوش نصیبی عطا ہوئی ‘جو آج تک بھارت کے کسی بھی صدر کونہیں ملی۔وہ آخری لمحے تک کام میں مصروف رہے۔صدر کا عہدہ چھوڑنے کے بعد بھی وہ جتنے متحرک رہے ‘کوئی اور صدر نہیں رہا۔ صدر نہ بنتے تو بھی وہ بڑے آدمی تھے ۔وہ بھارت کے پہلے ایسے صدرتھے‘جو سیاست سے کسی بھی طرح جڑے ہوئے نہیں تھے۔ ویسے کوئی شخص اکثر صدر تو ذاتی خوبیوں کے سبب بنتا ہے لیکن صدر بننے کیلئے کئی سیاسی حالات ہی ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ڈاکٹر عبدالکلام اپنے صاف شفاف عمل کے سبب صدر بنے ۔میزائل مین کے طور پر مشہور ہو کر وہ بھارت رتن تو بن ہی چکے تھے‘ ان کے انتقال پر سارے ملک میں جیسا افسوس کا ماحول بنا ہے ‘ وہی بتاتا ہے کہ وہ کتنے ہر دلعزیز تھے۔
ڈاکٹر عبدالکلام اپنے ڈھنگ کی عجیب شخصیت تھے ۔وہ عجیب مسلمان بھی تھے ۔انہوں نے اپنے کردارسے ہندوستان کے مسلمانوں کو نیا فخر عطا کیا ۔اسلام کے فراخ دلی کی صورت دیکھنی ہو توڈاکٹر عبدالکلام کی شاندار شخصیت میں دیکھی جا سکتی تھی۔ ان کی شخصیت میں سائنس اور مذہب کا عجیب میل تھا۔ میں نے کئی بار خو دیکھا کہ وہ جین منی مہا پرگیہ کے ساتھ فلسفے کی گہرائیوں پر بحث و مشورہ کررہے ہوتے تھے ۔اکشر دھام کے پرمکھ سوامی کے ساتھ ہوئی روحانی بات چیت پر بھی ان کی کتاب چھپی ہے۔ انہوں نے 2020 ء کا بھارت کیسا بنے‘اس مدعے پر خوابوں کی تعبیر کو حقیقی جامہ پہنانے کے حوالے سے لکھا ہے۔انہوں نے کئی کتابیں خود مجھے نذر کیں ۔وہ چاہتے تھے کہ بھارتی جمہوریت ایک دم پاک صاف بنے ۔چناوی امیدوار بالکل خالص بے داغ ہوں ۔تعلیم میں ہنر کی تربیت لازمی ہو۔بھارت مضبوطی کے ساتھ مکمل محفوظ ہو۔غریبی دور ہو ۔لیکن یہ سب کون کرے گا؟ ہمارے لیڈر بھی یہی کہتے ہیں لیکن ووٹ اور نوٹ کے چکر میں سب کچھ بھول جاتے ہیں ۔
ڈاکٹر راجیندر پرساد اور ڈاکٹر رام کرشن کے علاوہ تقریباً سبھی صدور کے ساتھ میرا اچھا تعارف رہا ہے ۔ان سب میں مجھے ڈاکٹر عبدالکلام کچھ الگ ڈھنگ کے آدمی لگتے تھے ۔میں جب بھی ان سے ملتا ‘مجھے لگتا کہ میں کسی پڑھے لکھے عارف فقیر سے بات کر رہا ہوں ۔صدر بننے پر انہوں نے اپنی سادگی اور اخلاق کو جوںکا توںبنائے رکھا ۔صدارتی محل کی دعوتوںمیں وہ خود مہمانوں کو پوچھتے تھے۔ ان کا کردار بے داغ تھا۔ اپنے صدارتی دور میں انہوں نے ہمیشہ صحیح بات پر زور دیا ‘حالانکہ بہار سرکار کو برخاست کرنے کے حکم پر انہیں اپنے ماسکو دورے کے دوران دستخط کرنے پڑے ۔سچ پوچھا جائے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ آنے والی نسلوں کو ہمارے صدور کے نام یاد رہیں یا نہ رہیں لیکن بھارت کے عظیم سائنسدان کے طور پر ڈاکٹر عبدالکلام کا نام سدا یاد رہے گا۔انہیں میںخراج عقیدت پیش کرتا ہوں ! 
شادی ایسے بھی ہوتی ہے! 
آج کل شادیوں میں اتنی زیادہ شان و شوکت دکھائی جاتی ہے کہ کئی خوشحا ل خاندان بھی قرض دار ہو جاتے ہیں اور جن میاں بیوی جوڑے کو مبارکباد دینے کیلئے ہزاروں لوگ جمع ہوتے ہیں ‘انہیں ان کا نام تک معلوم نہیں ہوتا ۔میرے کئی دوستوں نے اپنی زمینیں اور زیورات بیچ کراپنی بیٹیوں کے ہاتھوں پر مہندی سجائی۔ ان شادیوں میں صرف شان و شوکت پر ہی پیسہ نہیں بہایا جاتا ‘جہیز کا بھی جم کر لین دین ہوتا ہے ۔میں بچپن سے اس برائی کا گواہ رہا ہوں ۔اب سے لگ بھگ پچپن سال پہلے میں نے اندور میں جہیزکے خلاف تحریک چلائی تھی ۔میرے سیکڑوں نوجوان ساتھیوں نے جہیزلینے کے خلاف ستیا گرہ اور مظاہرے کیے تھے ۔مجھے پکڑ کر ملہار گنج کے پولیس تھانے میں بند بھی کر دیا گیا تھا ۔
میرے خاندان میں اب تک جتنے لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیاں ہوئیں ‘ان میں جہیز کا سوال کبھی اٹھا ہی نہیں ‘کیونکہ جہیز کی مخالفت میں ہمارا خاندان مشہور ہو چکا تھا لیکن ایک دوسری بیماری ہے اور اس میں ہم لوگ پوری طرح مبتلارہے ہیں۔ جب 46 سال پہلے میری شادی کا پروگرام بنا تو میں نے والد صاحب سے گزارش کی کہ میری شادی بالکل سادگی سے ہونی چاہیے اور بارات میں پانچ افراد سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں لیکن ہوا کیا؟بالکل الٹا!ہاتھی پر میرا جلوس نکلا ‘اندور سے سو باراتی دلی گئے اور دلی کے قریب قریب 500 بڑے لیڈر ‘صحافی ‘پروفیسر‘ڈاکٹر وغیرہ شادی میں شامل ہوئے ۔دونوں طرف سے لاکھوں روپے خرچ ہوئے ۔میں نے باراتیوں کو بانٹے جانے والے چاندی کے گلاس واپس کروائے لیکن اندور میں ہوئے پانچ ہزار لوگوں کی کھانے کی دعوت نہیں رکوا پایا۔والد صاحب کے شوق کی وجہ سے ہی میری بیٹی ارپنا کی شادی میں دلی میں لگ بھگ ساڑھے تین ہزار لوگ آئے۔ بھارت میں حیات لگ بھگ سبھی وزرائے اعظم تشریف لائے ‘42 ممالک سے کئی عالم ‘لیڈر اور رشتے دار آئے ۔اندور میں بڑا انتظام ہوا ۔لاکھوں روپے خرچ ہوئے‘ حالانکہ جہیز صفر رہا ۔
گزشتہ دنوں صبح حیدرآباد میں میرے بیٹے سپرن کی شادی ابھیپسا سے ہوئی اور میں ابھی یہ لیکھ لکھ رہا ہوں ۔دلی سے ہم ٹوٹل پانچ لوگ بارات میں آئے اوراندورکی فیملی سے9 لوگ ۔ہم چاہتے تھے کہ یہ شادی کسی آریہ سماج مندر میں ہو یا بہو کی طرف سے کسی مندر میں ہولیکن بہو کے والد صاحب مانے نہیں اور انہوں نے ایک بہت خوبصورت باغ میں یہ انتظام کیا لیکن اسے محدود رکھا‘ایک دم قریبی خاندان تک ہی ۔میں نے اور انہوں نے ہزاروں کارڈ چھپوا کر نہیں بانٹے‘ ان کے ساتھ میوے کے ڈبے نہیں بھیجے اور کوئی دعوت نہیں کی ۔کوئی بینڈ باجا بھی نہیں ۔کسی سے کوئی تحفہ بھی وصو ل نہیں کیا ۔دلی میں منگنی بھی ایک روپیہ اور ناریل سے ہوئی اور شادی کے دن کوئی لین دین نہیں ہو ا۔میں یہ جرأت مندانہ قدم اٹھا ہی نہ پاتا ‘اگر اس میں میری بیوی وید وتی ‘بیٹے سپرن اور بیٹی ارپناکی رضامندی نہ ہوتی۔ پورے ملک اور دنیا بھر میں پھیلے میرے ہزاروں دوستوں کو میں نے شادی کا پیغام بھیجا تھا‘ ای میل اور ایس ایم ایس کے ذریعے ۔مبارکبادوں اور نیک خواہشات کا تانتا بندھا ہوا ہے ۔یہی کافی ہے۔ بھارت میں ایسی شادیاں کیوں نہیں ہو سکتیں ؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں