یعقوب میمن کی پھانسی پر جیسی سیاست بھارت میں چلی ہے ‘کیا کسی دوسرے ملک میں چل سکتی ہے ؟یہ جمہوریت کی بڑائی ہے کہ ملک کے لوگ انہیں بھی برداشت کر رہے ہیں ‘جو یعقوب کی پھانسی کی مخالفت کر رہے تھے۔ یعقوب کے جسد خاکی کو اس کے بھائی کے سپرد کیا گیا اور اُسے سر عام دفنانے دیا گیا ‘کیا یہ فراخ دلی مثالی نہیں ہے ؟ یعقوب کا انجام وہ نہیں ہو ا‘جو افضل گرو اور اجمل قصاب کا ہو اتھا۔ یعقوب میمن کو 1993ء میں ممبئی حملوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں پھانسی دی گئی۔ ان حملوں میں 257 افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
یعقوب کی سزا کو فرقہ پرستی کے زہر سے رنگ دیا گیا تھا، اسے ہندو مسلم کا مدعہ بنا دیا گیا تھا۔اسی لیے ہزاروں لوگ اس جنازے میں شامل ہو گئے ۔کچھ مسلم لیڈروں کا یہ الزام بے بنیاد ہے کہ یعقوب کواس لیے پھانسی دی گئی کہ وہ مسلمان تھا ۔1993 ء میں جن لوگوں نے ممبئی میں جگہ جگہ بم بلاسٹ کیے تھے ‘وہ کون تھے ؟وہ سب مسلمان ہی تھے۔ انہیں پھانسی کیوں نہیں دی گئی ؟کیونکہ انہوں نے وہ بم مجبوری میں لگائے تھے ۔وہ غریب اور ان پڑھ تھے جبکہ یعقوب ‘ٹائیگر میمن ‘دائود ابراہیم وغیرہ لوگ مال دار اور تعلیم یافتہ تھے۔ ان لوگوں نے نادان مسلم مزدوروں کو اپنی توپ کا بھوسہ بنایا تھا ۔ان بم لگانے والوں کو عمر قید ہوئی اور اس کی سازش کرنے والوں کو پھانسی۔ مسلمان تو دونوں ہی ہیں ۔عدالت کے فیصلے مذہب کی بنیاد پر نہیں، جرم کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اگر قاتل یا دہشت گرد ہندو ہیں تو قانون کی چکی انکا بھی آ ٹا بنائے گی ۔انہیں بھی چھوڑے گی نہیں ۔مہاتما گاندھی اور اندرا گاندھی کے قاتل تو مسلمان نہیں تھے، انہیں کیوں لٹکایا گیا ؟بے قصوروں کا جو بھی قتل کرے ‘اسلام یا ہندوازم یا سکھ مذہب کے نام پر ‘وہ اپنے مذہب کو بدنام کرتا ہے۔
ملک کے کچھ خاص لوگوں اور وکلاء برادری نے یعقوب کو بچانے کے لیے اپنی ساری طاقت اور قابلیت داؤ پر لگا دی ۔کیا وہ مسلمان تھے ؟انہوں نے اپنے دلائل کی بنیاد مذہب کو نہیں بنایا لیکن رحم کو بنایا۔میں ان لوگوں کو ملک کا غدار اور نادان کہنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ ان کے دلائل میں کچھ دم ہے۔ان کا یہ کہنا درست ہے کہ یعقوب میمن اگر اس سازش کے راز نہیں کھولتا تو بھارت سرکار ہوا میںہی لاٹھی چلاتی رہتی ۔یعقوب کا کہنا تھا کہ اس نے خود سپردگی کی تھی ، اسے گرفتار نہیں کیا گیا تھا ۔ یعقوب کی حمایت میں ایک تحریر کا کافی ذکر ہو رہا ہے ۔وہ لیکھ 2007ء میں 'را‘کے سینئر افسر بی رامن نے لکھا تھا ۔اس کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ یعقوب مخبر بن گیا تھا ‘اس لیے اسے چھوڑ دیا جانا چاہیے تھا ۔یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ رامن جیسے آدمی نے وہ لیکھ 2007ء میں ہی کیوں نہیں شائع کروایا؟رامن تو ریٹائرڈ ہو چکے تھے ۔انہیں کیا ڈر تھا ؟اور اب چھپنے والا یہ لیکھ کتنا مستند ہے؟ اسکے علاوہ جب یعقوب پر مقدمہ چلا تو بھارت سرکار نے یہ کبھی نہیں کہا کہ اسے اس نے مخبر مان کر معاف کر دیا ہے ۔جہاں تک عدالت کا سوال ہے ‘اس نے یعقوب کو انصاف دلانے کے لیے 22 سال تک جیسی قواعد کی ہے ‘ویسی تو آج تک کسی بھی مجرم کے لیے نہیں کی ۔پھانسی کی صبح تک پوری رات عدالت چلتی رہی ۔ 2013ء میں سپریم کورٹ نے 800 صفحات پر مشتمل یعقوب کی کارستانیاں کو بیوروثبوتوں کے ساتھ پیش کیا تھا ۔اگر اس بیورو کو کوئی عام آدمی بھی پڑھے تو اسکے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ رحم کی خیرات مانگنے والا یعقوب کس طرح قاتلوں کو متاثر کرتا تھا ‘ان کے لیے روپیہ کا انتظام کرتا تھا ‘انکے پاسپورٹ اور ویزا بنواتا تھا ‘انہیں بم لگانے کی تکنیک سکھاتا تھا اور اپنی نیلی گاڑی میں اٹھا کر بم سارے ممبئی شہر میں پہنچواتا تھا۔ وہ کیسے ممبئی سے کراچی بھاگا‘کراچی سے کیسے کٹھمنڈو آیا اور بچنے کے لیے پھر وہ کراچی بھاگنے والا تھا ۔دلی پولیس نے پھر اسے کیسے گرفتار کر لیا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ جلد بازی میں نہیں ہو ا۔
جو لوگ سزائے موت کے خلاف ہیں،انہوں نے بھی یعقوب میمن کی پھانسی کی مخالفت کی تھی ۔گوڈسے اور سنت ونت کو بھی پھانسی نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن ان سجنوں سے میں پوچھتا ہوںکہ وہ کچھ ملکوں کی اندھی نقل کوہی عقل سمجھتے ہیں یا ان کے پاس کوئی ٹھوس دلائل بھی ہیں ،انہیں یہ کیسے پتا کہ موت کی سزا، کا جرم کرنے والے مجرموں پر کوئی اثر نہیں ہوتا ؟اگر سزائے موت کے باوجودقتل ہوتے رہتے ہیں تو چوری اورڈکیتی کی سزا کے باوجودچوری ڈکیتی ہوتی رہتی ہے یا نہیں ؟اگر ہاں ‘تو پھر سزا نام کی چیز ہی ختم کر دینی ہوگی ۔اس کے علاوہ قاتل کو موت کی سزا نہیں دینا قاتلوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے ۔خونی کون ہوتا ہے ؟ طاقتور ہوتا ہے ‘ہتھیاربند ہوتا ہے ‘بم رکھنے والا ہوتا ہے اور جس کا قتل ہوتا ہے ‘وہ کمزور ہوتا ہے ۔آپ طاقتور کی حمایت کرتے ہیں اور کمزور کو مرنے دیتے ہیں ۔کیسی انسانیت ہے‘ آپ کی؟آپ قاتل کو انعام دیتے ہیں ‘مارے گئے لوگوں کی جانب آپ پتھر دل ہو جاتے ہیں۔یہ انصاف نہیں‘ ناانصافی ہے ۔یہ جمہوریت کے خلاف ہے ۔ یعقوب میمن ‘ٹائیگر میمن اور دائود ابراہیم جیسے لوگ تو تھوک قاتل ہیں‘دہشت گرد ہیں اور غیر ملکیوں کے ایجنٹ ہیں ۔وہ خود کش بمبار ہیں‘ملک کے غدا رہیں ۔انہوں نے ملک اور مذہب کا جو نقصان کیا ہے ‘وہ قتل کے جرم سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے ۔ایسے مجرموں کو موت کی سزا ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں دینی چاہیے اور اس کی ٹی وی اور نیٹ پر سیدھی نشریات کی جانی چاہیے تاکہ جرم کا ارادہ رکھنے والوں کی ہڈیوں میں کپکپی دوڑ جائے۔
گھو سی کی معطلی
سماج وادی پارٹی نے ایسی کارروائی کی ہے ‘جس سے لوگوں کوحیرانی ہوگی ۔یعقوب میمن کی پھانسی پر ہماری ساری سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی پوریاں تل رہے ہیں ۔کوئی پارٹی اپنا ہندو ووٹ بینک مضبوط کر رہی ہے اور کوئی پارٹی اپنا مسلم ووٹ بینک!انہیں اس کی فکر نہیں ہے کہ ان کے اس کہنے سے بھارت کے اندرونی ووٹ بینک کا دیوالیہ ہو رہا ہے لیکن میں سماج وادی پارٹی اور اسکے سربراہ ملائم سنگھ کو داد دیتا ہوں کہ بڑی ہمت سے کام کر رہے ہیں ۔انہوں نے اپنی پارٹی کے مہاراشٹر کے نائب صدر محمد فاروق گھوسی کو معطل کر دیا ہے ۔ انہیں اس لئے معطل کیا گیا کہ انہوں نے پارٹی کے صدرکو ایک چٹھی لکھی اور اسے اخباروں میں چھپوایا۔ اس چٹھی میں انہوں نے مانگ کی کہ یعقوب میمن کی بیوہ کو سماج وادی پارٹی راجیہ سبھا میں بٹھا دے ۔گھوسی کی رائے ہے کہ یعقوب کی بیوہ راحین بے سہارا ہے ۔اسے بھی جیل میں رہنا پڑ گیا تھا لیکن عدالت نے اسے بے گناہ پایا اور بری کر دیا تھا۔ گھوسی کے دل میں اگر سچ مچ انسانی ہمدردی کی بات ہے تو اسے کون برا کہہ سکتا ہے لیکن راحین کی راجیہ سبھا میں بٹھانے کی بات کے پیچھے اصلی سوچ کیا ہے ؟کیا ان کے سوچ میں سے یہ بو نہیں آتی کہ وہ راحین کو یعقوب کاسیاسی معاوضہ دلواناچاہتے ہیں؟یہی سبب ہے کہ مہاراشٹرکی سماج وادی پارٹی کے صدر اسیم اعظمی نے انہیں فوراً برخاست کر دیا ۔گھوسی کی برخاستگی نے سماج وادی پارٹی کو ہونے والے نقصان سے بچایا ‘حالانکہ گھوسی کو پورا حق ہے کہ وہ اپنے دل کی بات کھل کر کہیں۔ اگر راحین کو کسی بھی طرح کی مدد کی ضرورت ہے تو جو لوگ مدد کرنا چاہیں ‘ضرورکریں لیکن ان کے کندھے پر سیاست کی بندوق رکھنے کی کوئی تُک نہیں ہے ۔وہ خود گھوسی کی پہل کو مسترد کر دیں گی ۔اتنے بڑے حادثے کے بعد وہ امن اور گمنامی کی زندگی جینا زیادہ پسند کریں گی ۔
گھوسی کی معطلی سے لوگوں کو حیرانی اس لیے ہو رہی ہے کہ ملک کو غیر بھاجپائی اور غیر کانگریسی پارٹیاں یا تو ذات کی بنیاد پر مدار رکھتی ہیں یا فرقہ پرستی ووٹ پر !یعقوب میمن کے بہانے فرقہ پرستی ووٹ پٹانے کی لالچ ان سب پارٹیوں کو ہے لیکن سب کو پتا ہے کہ اس مدعہ پر عام ہندوستانی کا رویہ کیا ہے ‘اس لیے وہ ہر قدم پھونک پھونک رکھ رہی ہیں۔
دہشت گرد ی کی ذات!
وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بڑے پتے کی بات کہہ دی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی نہ کوئی ذات ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی مذہب ہوتا ہے۔کانگریس نے' ہندودہشت گری ‘کا نعرہ دے کر ملک کا بڑا نقصان کیا ہے ۔یعقوب میمن کی پھانسی پر کانگریس دو زبانوں سے ایک ساتھ بولتی رہی کانگریس کے ہی اقتدار میں ممبئی بم دھماکوں میں 257 لوگ مارے گئے تھے اور اس کے بعد کانگریس سرکار میں ہی میمن کو پھانسی کی سزا ہوئی تھی لیکن اب جبکہ میمن کو لٹکایاگیا تو کانگریس مسلم ووٹوں کی لالچ میںپھسل گئی۔سارے معاملے کو ہندو مسلم کا رنگ پہلے ہی دیا جا چکا تھا ۔کانگریس نے اس ماحول کا فائدہ اٹھانے کے لیے 'ہندو دہشت گردی‘ کا راگ چھیڑ دیا ۔اس نے مانگ کی کہ سمجھوتہ ایکسپریس اور دیگر مقامات پر بم دھماکہ کرنے والے ان دہشت گردوں کو بھی موت کی سزا کیوں نہیں دی جاتی جو ہندو ہیں ۔کانگریس کی یہ بات ٹھیک ہے لیکن سزا دینے کا کام تو عدالت کا ہے ‘سرکار کا نہیں۔ یہ سوال کانگریس نے پہلے بھی اٹھایا تھا اور وہ اب بھی اس لیے اٹھا رہی ہے کہ اسے مودی سرکار کی ٹانگ کھچائی کرنی ہے۔
اس لالچی سوچ کاجو جواب راج ناتھ سنگھ نے دیا ‘ا س سے بہتر جواب کیا ہو سکتا ہے ‘جیسے ہماری عدالتیں انصاف کرتے وقت مذہب اور ذات کا خیال نہیں کرتیں ‘ویسے ہی لیڈروں کو بھی نہیں کرنا چاہیے لیکن عدالتوں کو تو ووٹ نہیں چاہیے جبکہ لیڈر تو ووٹ کے بنا زندہ رہ ہی نہیں سکتے ۔ایسی حالت میں کانگریس نے صحیح پینترا مارا ہے لیکن ایسے پینترے ملک کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ اب بھار ت کا مسلمان اتنا سادہ نہیں رہ گیا ہے کہ وہ کانگریس کی اصلی نیت کو نہیں سمجھ پائے ۔