بھارت سرکار نے تین ٹی وی چینلوں کو نوٹس بھیجا ہے۔اس نے آج تک‘ این ڈی ٹی وی 24-7اور اے بی پی پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے یعقوب میمن کی پھانسی کے دوران بھارت کے صدر اور سپریم کورٹ کی توہین کی ہے۔ وہ پندرہ دنوں کے اندر بتائیں کہ ان کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی جائے ؟
ان پر الزام ہے کہ انہوں نے میمن کے وکیل اور چھوٹے شکیل کے انٹر ویوکیے‘جن میں انہوں نے میمن کو بے گناہ بتایا اور عدالت پر الزام لگایا کہ اس نے میمن کی چار رحم کی درخواستیں ایک دن میں ہی خارج کر دیں۔ان چینلوں پر الزام ہے کہ انہوں نے ایسا کر کے ٹیلی ویژن کے کئی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ظاہر ہے کہ اس سرکاری نوٹس میں جو دلائل دیے گئے ہیں ‘وہ اتنے کمزور ہیں کہ سرکارکچھ بھی نہیں کر پائے گی۔جب کسی کو ٹی وی کی سکرین پر جلد بازی میں دکھایا جائے گا تو آپ کوکیا پتا کہ وہ کیا بولے گا؟زیادہ ضروری یہ ہے کہ آپ بولنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔ان چینلوں کے خلاف اگر سرکارکوئی کارروائی کرے گی تو اس کا اثر الٹا ہی ہوگا۔سرکار زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتی ہے کہ ان چینلوں سے وہ اپنا عدم اتفاق درج کروادے۔ان ذمہ دارچینلوں کے لئے یہی کافی ہے۔ اس کے علاوہ سرکار کے پاس اپنے کئی چینل ہیں، ان پر وہ ناکارہ باتوں کی فوراً تردیدکیوں نہیں کرتی؟
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے ٹی وی چینل بے لگام ہو جائیں۔آج کل ٹی وی چینلوں پر جس طرح کی زبانی جنگیں ہوتی ہیں ‘چلا چوٹ مچتی ہے‘ تو تو میں میں ہوتی ہے‘ اسے دیکھ کر ٹی وی کو 'پاگل بکسہ‘ کہنے کو دل کرتا ہے۔اب سے لگ بھگ پچاس سال پہلے جب میں نیویارک میں پڑھتا تھا تو ٹیلی ویژن کو ہمارے پروفیسر'ایڈیٹ باکس‘ کہا کرتے تھے۔اپنی پی آر بڑھانے اور اپنے مالکوں کو پیسہ کما کر دینے کی مجبوری اچھے اچھے صحافیوںکو'دنیا کے سب سے پرانے دھندے‘ میں دھکیل دیتی ہے۔کچھ ٹی وی چینل اور ٹی وی کے کچھ صحافی اپنے آپ کو اس تجارت سے بچائے ہوئے ہیں۔ وہ مبارک کے حقدار ہیں۔کروڑوں ناظرین کی عزت اور بھروسہ انہیں حاصل ہے۔انہیں کسی سرکاری ڈائریکشن کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ان کے خیالات سرکاروں کو ہدایات دیا کرتی ہیں۔ان کا خود پر اعتماد ہی ان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
تبدیلیٔ مذہب
ہریانہ کے بھگانہ نام کے گائوں میں ایک عجیب و غریب واقعہ ہوا ہے۔ اس گائوں کے لگ بھگ ڈیڑہ سودلتوں نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا۔ وہ ہندو سے مسلمان بن گئے۔انہوں نے ایسا اس لئے کیا کہ گزشتہ تین سال سے وہ بہت دکھی تھے۔ ان کے گائوں کی اونچی ذات کے لوگوں نے ان کی زمینوں پر قبضہ کر لیا تھا ‘ان کی بہو بیٹیوں کی عصمت لوٹتے تھے‘انہیں کنویں سے پانی نہیں بھرنے دیتے تھے اور قریب قریب ڈھائی سودلتوںکوگائوں سے نکال دیا تھا۔یہ دلت لوگ چار بار ہریانہ کے وزیر اعلیٰ سے مل چکے تھے۔انہوں نے پولیس میں شکایت بھی درج کروائی تھی، لیکن ان کوانصاف ملنے کے بجائے گرفتاری اور پٹائی ملی۔اب یہ جنتر منتر پر بھی دھرنا دے رہے تھے۔ جب مرکزی سرکار اور دیگر سیاسی لیڈروں نے بھی ان کو ناامید کیاتو انہوں نے مجبور ہوکر اسلام قبول کر لیا۔ایک مولانا نے انہیں کلمہ پڑھا دیا۔
یہ کہانی صرف ایک گاؤں کی نہیں اور صرف آج کی نہیں، یہ پورے ہندوستان کی ہے اور صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ ہندو وادی کا جھنڈا لہرانے والے لوگوں کے پاس اس بیماری کا کوئی علاج نہیں، وہ ہندوئوںکو متحد کرنے پر زور دیتے ہیں جو ٹھیک ہے، لیکن ان کے پاس کوئی ترکیب نہیں کہ وہ ہندوئوںکو سدھاریں، ان میں برابری اوراتحاد پیدا کریں، نفرت کو جڑ سے ختم کریں، ذات کی بے کار رسومات کی جم کر مخالفت کریں۔ روٹی اور بیٹی کا رشتہ سب لوگوں کے بیچ کھلا ہو۔ جب تک اس طرح کی معاشی تہذیبی انقلاب کی کوئی زبردست تحریک شروع نہیں ہوگی ‘ مذہب کی تبدیلی ہوتی رہے گی، اسے کوئی بھی روک نہیں پائے گا۔
لیکن جنہوں نے اپنا مذہب تبدیل کیا ہے اور جنہوں نے وہ کروایا ہے‘ ان سے بھی مجھے کچھ کہنا ہے۔ غصے میں آکر اچانک مذہب تبدیل کر لیا تو اس سے کیا فرق پڑگیا؟کیا اب آپ کو بھگانہ گاؤں کے اونچی ذات والے وہاں واپس رہنے دیں گے یا اب آپ دگنے اچھوت ہو جائیں گے؟کیا بھارت کے مسلمان آپ کے ساتھ روٹی اور بیٹی کا رشتہ رکھیں گے؟بالکل نہیں رکھیںگے۔ ذات پات کے زہر نے بھارت کے اسلام کو بھی ڈس رکھا ہے۔
جس مولوی نے ان دلتوں کو کلمہ پڑھایا ہے‘ کیا اس نے نقلی مسلمانوں کی تعداد نہیں بڑھائی؟ یہ اسلام کی عزت افزائی ہوئی یا توہین؟اچھا تو یہ ہوتا کہ صوبائی اور وفاقی سرکاریں بھگانہ کے ان دلتوں کو انصاف دلاتیں اور یہ دلت لوگ اسلام کی آڑ میں چھپنے کی بجائے اپنے حق اور عزت کے لئے جی جان سے لڑتے۔
ملائم کی پہل : کانگریس کی دھینگا مشتی
سماج وادی پارٹی کے 'سپریمو‘ ملائم یادو نے بڑے موقعے کی پہل کی ہے۔انہوں نے پارلیمنٹ کی کارروائی کو ٹھپ کرنے کی زبردست مخالفت کی ہے۔ اب تک وہ کانگریس کا ساتھ دے رہے تھے۔ جب کانگریس کے پچیس ارکان پارلیمنٹ باہر نکالے گئے تو انہوں نے دیگر پارٹیوں کی طرح کانگریس کا ساتھ دیا، لیکن اب انہوں نے کانگریسی لیڈروں کو صاف صاف کہہ دیا کہ پارلیمنٹ کو چلنے دیجیے اور آپ کو جو بھی مخالفت کرنی ہے ‘ وہ پارلیمنٹ میں کیجیے۔ ملائم سنگھ کے ساتھ کئی صوبائی پارٹیاں بھی تیار ہوگئی ہیں۔ راجیہ سبھا میں متفق رائے سے 'جی ایس ٹی‘ بل بھی پیش ہو گیا ہے۔ اگر دونوں ایوانوں میں کانگریس الگ تھلگ پڑ گئی تواس بل کو دوتہائی سے پاس کرنا مشکل نہیں ہوگا۔کانگریس کے لئے یہی بڑی بے عزتی کی بات ہوگی کیونکہ ایک تو ایوان میں دھینگا مشتی کے سبب اس کا دنیا میں مذاق اڑایا جا رہا ہے اور دوسرا یہ بل خاص اسی کا تیارکیا ہوا تھا۔
ملائم سنگھ نے پہل کر کے اپنا قد اونچا کیا ہے۔اس وقت ملک کے متحرک بزرگ لیڈروں میں وہ سب سے زیادہ بزرگ ہیں۔ان سے یہی توقع کی جاتی تھی کہ وہ پارٹی بازی سے اوپر اٹھ کر ملکی مفاد کا سوچیں۔ یہ کام تو کانگریس کو ہی کرنا چاہیے تھا لیکن ملک کی اس مہان پارٹی کے پاس آج نہ تو کوئی مضبوط لیڈر ہے اور نہ ہی کوئی منشور! انتخابات کے دوران اس کے لیڈر اپنے بھوندوپن کے لئے مشہور ہوگئے تھے۔ اب وہ دھاندوپن پر اتر آئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں شور مچاتے رہنا ہی سیاست ہے۔ وزیر خارجہ سشما سوراج پر ناٹک کرنے اور للت مودی سے پیسہ لینے کا الزام لگانا خالص اوچھا پن ہے۔ سیاست کو نچلی سطح پر لے جانا چاہیے ۔ پارلیمنٹ میں دھینگا مشتی کرنے کے بجائے اگر کانگریس سنجیدہ بحث چلائے تو اس کا اثر عوام پرکافی اچھا پڑے گا۔
اقتداری لوگوں پر الٹے سیدھے اور بے بنیاد الزامات لگانے سے کانگریس کی لیڈروں کی اپنی عزت خراب ہوتی ہے۔اس میں شک نہیں ہے کہ مودی سرکار کی جانب عوام کا جوش گھٹتاجا رہا ہے، لیکن کانگریس کی کارستانیوں کے سبب اس کا فائدہ ہو رہا ہے۔
عام آدمیوںکا دھیان کانگریس کی دھما چوکڑیوں پر زیادہ جا رہا ہے اور مودی کے استحکام پرکم۔