پاک بھارت بات چیت بنا کسی سبب کے رد ہوگئی ‘یہ اتنی فکر کی بات نہیں ہے ‘جتنی یہ کہ دونوں ملکوں میں آج کل جنگ کی ڈھپلیاں بجنا شروع ہوگئی ہیں ۔یہ جنگ کے نگاڑے نہیں ہیں ‘ڈھپلیاں ہیں لیکن بجتے بجتے یہ ڈھپلیاں کب نگاڑے بن جاتی ہیں ‘یہ پتا ہی نہیں چلتا ۔پہلے تو پاکستان کے سرتاج عزیزنے یہ بیان دے دیا کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہیں ۔وہ اپنا دفاع کرنا جانتا ہے ۔پھر پاکستان کے وزیر دفاع نے بھی اسی طرح کی ایک تقریر کر ڈالی ۔بھلا‘بھارت کیسے پیچھے رہتا ؟ہمارے چیف آف آرمی جنرل دلبیر سنگھ سہاگ نے کہہ دیا کہ پاکستان آج کل کشمیر میں نئے ہتھکنڈے اپنا رہا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ اگلی جنگ اچانک ہو سکتی ہے ۔اسے وارننگ تک نہیں مل پائے گی۔جنگ مختصر وقت میں پوری ہو جائے گی ۔یعنی کیا ہوگا؟وہ ایٹمی جنگ ہوگی ۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ دونوں ملکوں کے لیڈر اور فوجیوں کو ہوا کیا ہے ‘جو اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں ؟ہمارے ایک افسر نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ اگر ایٹمی جنگ ہوئی تو بھارت اتنا بڑا ہے کہ وہ کسی نہ کسی شکل میں بچا رہے گا لیکن پاکستان تو پورے کا پورا صاف ہو جائے گا ؟بھلا‘ ایسی نوبت ہم آنے ہی کیوں دیں ؟مجھے خوشی ہے کہ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم اس معاملے میں کافی صبر کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔لیکن وہ اپنی اپنی سرکار کے ذمہ دار لوگوں کو صبر کرنے کو نہیں کہہ رہے ۔اس طرح کے بیانات اور تقاریر سے دونوں ملکوں میں غلط ماحول پیدا ہوتا ہے اور ایسا ماحول ڈھپلیوں کو نگاڑے میں بدل دیتا ہے ۔
بھارت کا یہ عزم ہے کہ وہ آگے ہوکر ایٹم بم کا استعمال کبھی نہیں کرے گا اور کیا پاکستان کو یہ پتا نہیں ہے کہ اگراس نے ایٹم بم کا استعمال کیا تو اس کا انجام کیا ہوگا؟ان حقیقتوں کو جانتے ہوئے بھی دونوں طرف کے ذمہ دار لوگ کیسی کیسی باتیں منہ سے نکال دیتے ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ بات چیت کے رد ہونے کے دوران دونوں ملکوں کے لیڈروں نے جو بے وقوفانہ حرکتیں دکھائی ہیں ‘انہیں وہ اب بھولنے کی کوشش کریں گے اور ازسر نو بات چیت چلائیں گے۔
نیپال کی مدھیسیـ: بھارت کی خاموشی
آج کل نیپال میں کہرام مچا ہوا ہے لیکن ہم بھارتیوں کا دھیان دوسرے پڑوسی ملکوں کی طرف ذرازیادہ جاتا ہے ۔ہمارے لوگ یہ جاننے کی ضرورت بھی نہیں سمجھتے کہ نیپال میں آج کل کئی لوگ روز کیوں مارے جا رہے ہیں ؟وہ زلزلے اور سیلاب کی لپیٹ میں نہیں آئے ہیں بلکہ پولیس والوں کی گولیوں کے شکار ہو رہے ہیں۔کون ہیں ‘یہ نیپالی لوگ ؟نیپال کے یہ باشندے ہندی بولنے والے ہیں ۔یہ میتھل یا اتر پردیش اور بہار کی کئی زبانوں کا استعمال کرتے ہیں ۔یہ لوگ بہار اور یوپی سے جڑی ہوئی نیپال کی حد میں رہتے ہیں ۔یہ میدانی علاقہ ہے۔ اسے ترائی کہتے ہیں۔ان لاکھوں لوگوں کو نیپالی کہنے کی بجائے 'مدھیس‘کہتے ہیں۔یعنی نیپال اور بھارت کے بیچ کا جو ‘حصہ ہے اس میں رہنے والے لوگ۔ان لوگوں کی جدو جہد کافی پرانی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ 'مدھیس ‘ کا علاقہ محروم ہوا تو ہے ہی ‘اس کے باشندوں کو راج کاج میں بھی کوئی خاص مقام نہیں ہے ۔ابھی کچھ سال پہلے نیپالی پارلیمنٹ میں وہ ہندی میں نہیں بول سکتے تھے ۔ان کے ساتھ تھارو ذات کے لوگ بھی ظلم کے شکار ہیں ۔
بادشاہی نظام ختم ہونے کے بعد توقع کی جار ہی تھی کہ ان محروم طبقوں کوانصاف ملے گا ۔کانگریسی اور مارکس وادی لوگ ذات پات ‘ پہاڑ اور میدانی علاقوں کے فرق سے اوپراٹھیں گے لیکن ان سب نے مل کر جو آئین بنایا ہے ‘اس میں مدھیسیوں اور تھارؤں کے خود مختار صوبہ بنانے کی بجائے انہیں سات عام صوبوں کا حصہ بنا دیا ہے ۔ان کے اتحاد کو توڑ نے کی کوشش ہو رہی ہے ۔اقتداریوں کو خوف ہے کہ اگر مدھیسیوں کے الگ صوبے بنا دیے گئے تو وہ کہیں آزاد مدھیسی ملک کی مانگ نہ کرنے لگیں۔ اقتداریوں کا یہ خوف بے بنیاد ہے ؟سری لنکا میں تاملوں کو الگ صوبہ دے دینے سے کیا سری لنکا ٹوٹ گیا؟کیا پختونوں کا الگ صوبہ بننے سے پاکستان ٹوٹ گیا ؟کیا بھارت میں سکھوں اور نگاؤں کوالگ صوبہ دے دینے سے وہ نئے ملک بن گئے ؟اکیسویں صدی میں اتنی زیادہ سیاسی ‘معاشی اور تکنیکی ترقی ہو گئی ہے کہ اب الگ ہونے والی طاقتیں بالکل ہی خاموش ہو گئی ہیں ۔وہ بڑے اتحادیوں کے ساتھ جڑ کر اور بھی بڑے بننا چاہتے ہیں ۔اس معاملے میں بھارت کی خاموشی تعجب خیز ہے ۔بھارت سرکار کو چاہئے کہ وہ چپ چاپ سیاسی مداخلت کرے ‘کیونکہ ترائی میں تشدد پھیل گیا تواس کا سیدھا اثر پٹنہ اور دلی پر زیادہ ہوگا ۔
استعفے : مودی کے کام کا طریقہ کار
وفاقی سرکار کی ایک سینئر افسر وجے لکشمی جوشی نے اپنی نوکر ی سے ہاتھ دھو لیے ہیں ۔وہ بنیادی گجرات کیڈر کی ہیں۔انہوں نے اپنے استعفے کیلئے سبب یہ بتایا کہ ان کے والدین کی طبیعت بہت خراب رہتی ہے ۔انہیں ان کی خدمت کرنی ہے ۔یہ تو بہانہ ہے ۔اصلی سبب یہ ہے کہ وزیر اعظم کا مشن صفائی کامیاب نہیں ہو پا رہا ہے ۔اس کے سبب سرکار کی کافی بدنامی ہو رہی ہے ۔مذاق اڑ رہا ہے ۔ظاہر ہے کہ ایسی باتوں سے سرکار ناراض ہو گی ۔اس مشن کی لیڈر وجے جوشی ہیں ۔جوشی پر وزارت عظمیٰ اور دیہات کی ترقی والی وزارت نے کافی دباؤ بنا رکھا تھا ۔جوشی کا کہنا ہے کہ وہ اس مشن کو چلاتیں لیکن نہ تو اس کے ہدف واضح ہیں اور نہ ہی اس کے طور طریقے۔وزیر اعظم ہر معاملے میں کچھ بھی فیصلہ خود کرلیتے ہیں اور اسے لاگو کرنے کی ذمہ داری افسروں پر ڈال دیتے ہیں ۔
جوشی کا استعفیٰ پہلا نہیں ہے ۔اس کے پہلے وزارت داخلہ کے دو سیکرٹریوں کی چھٹی ہو چکی ہے اور ایک خارجہ سیکرٹری کی !ڈی آر ڈی او کے لیڈر نے بھی اپنا عہدہ چھوڑ دیا ہے ۔اگر سینئر افسروں کے نوکری چھوڑنے کی رفتار یہی رہی تو مودی کے وزیر اعظم رہتے رہتے نصف وزارتیں تو اپنے سینئر افسروں سے محروم ہو جائیں گی۔یہ حالت مودی کے کام کے طریقہ کار پر سنجیدہ سوال کھڑے کرتی ہے ۔ہمارے افسر ضرورت سے زیادہ حکم کی تعمیل کرتے ہیں ۔ان کے مقابلے ہمارے لیڈروں کی قابلیت اور لیاقت چاہے کتنی بھی کم ہو‘وہ ان کے ساتھ ہمیشہ اچھا تال میل بٹھا لیتے ہیں ۔حیرانی ہے کہ گجرات کیڈر کی ایک افسر کا مودی سے تال میل نہیں بیٹھا ۔یہ ہو سکتا ہے کہ مودی کافی مستعدی چاہتے ہوں اور افسر لوگ ان کی رفتار کو پکڑ نہیں پاتے ہوں لیکن استعفیٰ دے دیتے ہیں تو یہ سرکار کیلئے فکر کی بات ہونی چاہیے ۔اگر وہ نا اہل پائے گئے تو سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ پیارے نیتا جی !آپ میں اہل افسروں کو چننے کی اہلیت ہے یا نہیں ؟اس طرح کے واقعات سے ہو سکتا ہے کہ باقی افسر زیادہ خبردار ہو جائیں ۔اس کا الٹااثر بھی ہو سکتا ہے کہ سارے نوکر شاہ ناامید ہو جائیں گے۔نوکر شاہوں کے دم پر چل رہی اس سرکار کو پھونک پھونک کر اپنے قدم اٹھانے ہوں گے۔