الہ آباد ہائی کورٹ کے جج سدھیر اگروال نے تعلیم بارے نہایت ہی انقلابی فیصلہ دیا ہے ‘جو کام سرکار کو کرنا چاہیے ‘جو کام وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کو کرنا چاہیے ‘جو کام ملک میں تعلیم کا نقشہ بدل دے گا ‘اُسے اکیلے جج سدھیر اگروال نے کر دیا ہے۔ انہوں نے جو کیا ہے ‘وہ ابھی صرف اتر پردیش پر لاگو ہوگا لیکن بھارت کے وزیر اعظم اور سبھی وزرائے اعلیٰ کو چا ہیے کہ وہ اس فیصلے سے نصیحت لے کر اسے سارے ملک پر لاگو کریں ۔
یہ فیصلہ کیا ہے ؟فیصلہ یہ ہے کہ جتنے بھی سرکاری ملازم ہیں‘جتنے بھی وزیر ‘پارلیمنٹ ممبر،ایم ایل ایز‘بیوروکریٹس اور جتنے بھی ججز ہیں اور جتنے بھی لوگ سرکار سے سیدھے یا بالواسطہ جڑے ہوئے ہیں ‘ان سب کے بچے سرکاری سکولوں میں ہی پڑھیں گے۔ اگر وہ اپنے بچے سرکاری سکولوں میں نہیں بھیجیں گے تو انہیں سرکار کو ہر ماہ اتنا ہرجانہ دینا ہوگا ‘جتنی فیس وہ پرائیویٹ سکولوں میںادا کرتے ہیں ۔ان افسروں کی انکریمنٹ اور ترقی بھی روک دی جائے گی ۔اس قانون کو لاگو کرنے کیلئے یوپی سرکار کو چھ مہینے کی مہلت دی گئی ہے ۔
یہ فیصلہ بالکل ویسا ہی ہے ‘جیسا میں نے کچھ ماہ پہلے اپنی تحریر میں مشورہ دیا تھا ۔میرے لئے ہی نہیں ‘یہ ہر مفکر کیلئے فخر کا عنوان ہے ۔ہمارے خیالات ایٹم بم سے بھی زیادہ طاقتور ہوتے ہیں ۔دنیا کو بدلنے کیلئے تصور کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہے ۔میں نے بھی یہی لکھا تھا کہ شروعاتی اور مڈل سکولوں میں انگریزی کی پڑھائی پر قانوناً پابندی ہونی چاہیے ۔
اس فیصلے کو اگر اتر پردیش کی اکھلیش سرکار نافذ کر دے تو اُن کا نام بھارت کی تاریخ میں روشن ہو جائے گا اور انہیں لیڈر ماننا سبھی لیڈروں کی مجبوری ہو جائے گی۔ تعلیم میں انقلاب ہی قومی طاقت ہے۔ ملک کی ترقی کیلئے اس بڑے کام کی بنیاد رکھنے والا اکھلیش‘ لیڈروں کا لیڈر کہلوائے گا لیکن مجھے آثار الٹے ہی نظر آرہے ہیں ۔جس استاد ‘شوکمارکی درخواست پر یہ فیصلہ آیا ہے‘ الٹے سیدھے الزام لگا کر اسے معطل کر دیا گیا ہے۔ میری رائے میں جج سدھیر اگروال اور ٹیچرشوکمار کو ملک کے اعلیٰ اعزازوں سے نوازا جانا چاہیے ۔
سَنگھ بھاجپا ریموٹ کنٹرول
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور بی جے پی سرکار کے بیچ تین دن میٹنگ جاری رہی ‘کیا اسے 'ریموٹ کنٹرول ‘کہا جا سکتا ہے؟ کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی نے اس عمل کو یہی کہا ہے اور اسے غیر جمہوری بتایا ۔ان دونوں پارٹیوں سے اسی تنقید کی توقع تھی‘ کیونکہ یہ دونوں ہی 'ریموٹ کنٹرول ‘ کی شکار رہی ہیں ۔ایک اندرا گاندھی خاندان اور دوسری سوویت یونین کے ریموٹ کنٹرول کی !لیکن اصلیت کیا ہے ؟آج نریندر مودی کی سرکار اتنی اہل ہے کہ سنگھ اسے گرا نہیں سکتی اور سنگھ اتنی خود مختار ہے کہ سرکار اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی ۔مطلب‘ کوئی کسی کے کنٹرول میں نہیں ہے ۔سنگھ سنگھ ہے ‘پارلیمنٹ نہیں ہے ۔سنگھ جیسی کسی بھی جماعت کے ساتھ اگر وزیر اعظم اور اس کے وزیر بات چیت کرتے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے ؟یہ تو جمہوریت کو اور مضبوط بنانا ہے۔یہ سوال بھی ہو سکتا ہے کہ بات چیت صرف سنگھ سے ہی کیوں ؟ یہ سوال مناسب ہے‘ اس کا جواب بھی واضح ہے ۔سنگھ سے بی جے پی کا کھلا تعلق ہے‘اس میں کچھ بھی چھپا نہیں ۔سنگھ کے علاوہ بھی کئی تجارتی اور تہذیبی جماعتوں کے ساتھ وزرا سر عام صلاح‘ مشورے میں حصہ لیتے ہیں ۔امید ہے ‘ یہ سرکار کبھی بھولے بھٹکے اپنے 'مارگ درشک منڈل ‘ کو بھی یاد کرے گی ۔
مودی جیسے وزیر اعظم کی سرکار کیلئے اس طرح کی بات چیت تو تحفہ ہے ۔کوئی طاقت (مثلاً آر ایس ایس)ملک میں ایسی تو ہے‘ جو اس سرکار کو ٹھیک پٹڑی پر چلنے کی نصیحت کر سکتی ہے ۔جو دانشمند‘ صحافی اور سماج کی خدمت کرنے والے‘ مودی پرجم کر تنقید کیا کرتے تھے آج کل ان کی ہوا کھسکی ہوئی ہے‘ان کی قلم اور زبان لڑ کھڑاتی رہتی ہے ۔ایسے میں اگر سنگھ کے سربراہ اور پرچارکوں نے وزرا کو عوام کی آوازدو ٹوک ڈھنگ سے سنائی تو جمہوریت مضبوط ہوئی‘یا کمزور؟مارکس وادی اصطلاح میں اسے سیاسی تنقید کہا جاتا ہے ۔تین دن کی بیٹھک میں اندر کیا کیا ہوا‘ اس کا پتا لگانے میں ہمارے صحافی حضرات ناکام رہے لیکن جو کچھ بھی تھوڑا بہت باہر آیا‘ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مودی اور وزیروں کو اچھی طرح بتا دیا گیا ہے کہ سرکار کی عوام میں مقبولیت دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے‘ کیوں کہ ٹھوس نتائج سامنے نہیں آ رہے ہیں ۔سنگھ نے صرف اپنا حساب کتاب پیش کیا ہے ‘اب اس سے سبق لینا نہ لینا سرکار پر منحصر ہے ۔اگر سرکار کا ڈھرا اسی طرح چلتا رہا تو عین ممکن ہے کہ سنگھ بھی ہاتھ کھڑے کر دے ۔سنگھ کا عوام سے سیدھا تعلق ہے ۔اسے ابھی امید ہے کہ یہ سرکار گزشتہ سرکاروں سے بہتر ہوگی ۔
ون رینک ون معاملہ پنشن
ریٹائرڈ فوجیوں کا معاملہ موٹے طور پر حل ہو گیا ہے۔ وزیراعظم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ جن فوجیوں نے اپنی مرضی سے ریٹائرمنٹ لی ہے ‘انہیں بھی سارے فائدے ملیں گے ۔اس اچھے فیصلے کے باوجود کئی باتیں سوچنے لائق ہیں ۔پہلی یہ کہ اس معاملے کو نمٹانے میں سو اسال کیوں لگ گیا؟چنائو کے دوران اور جیت کے بعد بھی سرکار نے وعدہ کیا تھا کہ وہ برابر عہدے والوں کو برابر پنشن فوراً دے گی۔ اس دیری نے اس شاندار اعلان کا مزہ کر کرا کر دیا ۔دو ڈھائی ماہ تک ہمارے ریٹائرڈ فوجی بھوک ہڑتال پر بیٹھے رہے ۔اتنا ہی نہیں ‘ فوجی ہوکر بھی انہوں نے پولیس کی مار کھائی۔شاید ایسے صابر اور ڈسپلن والے فوجی دنیا میں کہیں نہیں ہوں گے ۔اگر سرکار یہ سوچ رہی ہے کہ یہ تیس لاکھ فوجی اب خوش ہوکر بی جے پی سرکار کے متوالے بن جائیں گے اور اسے اپنا ووٹ دیں گے تو یہ خوش فہمی ہی ہوگی ۔اگر فوجی لوگ تحریک نہیں چلاتے تو کالے دھن کی واپسی کی طرح یہ معاملہ بھی ایک 'جملہ ‘ بن کر رہ جاتا۔
اس میں شک نہیں کہ 42 سال پرانا یہ معاملہ اس لئے بیچ میں لٹکا ہوا تھا کہ ایک تو اربوں روپے کا بوجھ سرکاری خزانے پر بڑھ جاتا اور پھر فوج سے چھوٹی عمر میں ریٹائرہونے والے لوگ کسی نہ کسی کام پر لگ جاتے ہیں ۔اب اس سوال پر بھی غور ہونا چاہیے کہ جوانوں کو تیس پینتیس سال کی عمر میں ریٹائر کیوں کیا جائے ؟کیا ریٹائر ہونے کے بعد بھی ان سے کوئی کام لیا جا سکتا ہے؟ اس کے علاوہ سرکار نے جو اعلان کیا‘ یہ بھی جلد بازی میں کیا ہے ‘جیسے کہ نگا معاہدہ میں بھی ہو گئی تھی ۔اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اس سرکار میں سوچ کی تنگی ہے‘ خیالات منتشر ہیں‘ یا تو یہ ہڑ بڑی میں کچھ بھی اعلان کر دیتی یا پھر یہ پرچار کی اتنی بھوکی ہے کہ اسے کسی بھی اعلان کی گہرائی میں جانے کا صبر ہی نہیں۔ اس لئے اب بھی کئی ریٹائرڈ فوجی کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنی تحریک جاری رکھیں گے ۔اب تحریک جاری رکھنے کی کوئی تُک نہیں بلکہ انہیں تو بی جے پی سرکار کا احسان مند ہونا چاہیے کہ اس نے فوجیوں کا اتنا دھیان رکھا ہے ۔یہ ٹھیک ہے کہ انہیں ان کا حق ملا‘ لیکن وہ یہ نہ بھولیں کہ جو نوکر شاہ ان سرکاروں کو چلاتے ہیں یا ان کے اصلی مالک ہوتے ہیں ‘ان کی رائے کو نظرانداز کر کے اس سرکار نے ان کی طرف داری میں یہ فیصلہ کیا ہے ۔