"DVP" (space) message & send to 7575

نیپال: بھارت پھونک پھونک کر چلے!

نیپال میں نئے آئین کے اعلان کا دن ویسا کیوں نہیں ہو سکتا تھا‘ جیسا کہ دیگر ملکوں میں سدا ہوتا ہے؟ نیپال کے نئے آئین کے اعلان کے پہلے روز چالیس لوگ مارے گئے‘ اور ابھی مدھیس میں مظاہروں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ صدر رام برن مادھو خود مدھیسی ہیں۔ انہوں نے اس آئین کو سر آنکھوں پر رکھا‘ اور اس پر دستخط کیے۔ پھر بھی کیا وجہ ہے کہ آئین سبھا کے 601 ممبروں میں سے صرف 85 فیصد ممبروں نے اس کی حمایت میں ووٹ دیا‘ جبکہ سبھی مدھیسی اور تھارو 60 ممبروں نے اس کا بائیکاٹ کیا؟
اس بائیکاٹ کی تین خاص وجوہ ہیں۔ پہلی: اس آئین میں پورے نیپال کو صرف سات صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اگر صوبوں کی تعداد بڑھا دی جاتی تو یہ آئین حقیقت میں زیادہ طاقتور بن جاتا۔ اب تک محروم رہنے والوں کو لگتا کہ اقتدار میں ان کا بھی حصہ ہے۔ دوسری: جو سات صوبے بنائے گئے ہیں ان کی حدود میں بھی ایسی کاٹ چھانٹ کی گئی ہے کہ پہاڑیوں کے مقابلے مدھیسیوں کو اور تھاروں کی آدم شماری برابر ہونے پر بھی ان کو نشستیں کافی کم ملیں گی۔ تیسری: ریزرویشن نشستوں میں کچھ گھپلے کا شک ہے۔ جو سیٹیں صرف محروموں کے لیے رکھی جانی تھیں‘ ان میں کچھ پہاڑی ذات والوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ نیپال میں پہاڑی لوگ سب سے طاقتور اور خوشحال ہیں۔
اگر مدھیسی اور تھارو لوگوں کو انصاف نہیں ملے گا‘ تو نیپال میں کہرام مچ جائے گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ اقلیتی ہیں‘ لیکن وہ بھی مائو وادیوں کی طرح تشدد کا راستہ پکڑ سکتے ہیں۔ وہ جس علاقے میں بسے ہوئے ہیں یعنی ترائی کا علاقہ‘ وہ بھارت سے لگا ہوا ہے۔ اگر تشدد کے سبب ہجرت ہوتی تو لاکھوں لوگ بہار اور یو پی میں بھر جائیں گے۔ بھارت کے لیے نیا سر درد کھڑا ہو جائے گا۔ اسی لیے خارجہ سیکرٹری کو وزیر اعظم نریندر مودی نے نیپال بھیجا تھا۔ ان حالات میں انہیں تو خالی ہاتھ واپس لوٹنا ہی تھا۔ کوئی افسر کتنا ہی قابل ہو‘ لیڈروں کے آگے ان کی حیثیت کیا ہوتی ہے؟ ظاہر ہے کچھ بھی نہیں۔ اس لئے بھارت سرکار کو نئے نیپالی آئین کا گرم نرم خیر مقدم کرنا پڑا ہے۔ نریندر مودی اور سشما سوراج کو چاہیے تھا کہ وہ نیپالی لیڈروں سے خود بات کرتے‘ یا ایسے لوگوں کو کٹھمنڈو بھیجتے‘ جو تجربہ کار ہوتے۔ جو نیپالی لیڈروں کو اچھی طرح سے جانتے ہوتے اور ان سے کسی بھی معاملے میں دوٹوک بات کر سکتے۔ اب بھی وقت ہے کہ اس سلسلے میں کچھ ٹھوس کر لیا جائے۔ نیپال میں سات صوبوں کو اگلے برس حقیقی شکل دی جائے گی۔
بھارت چاہے تو ایک مددگار ثالث کا کردار نبھا سکتا ہے۔ اگر ہم نے اس سلسلے میں مناسب طور پر خبردار ہو کر کام نہ کیا‘ تو ہمارے سر پر 'مداخلت کار بھارت‘ کا کالا داغ لگا دیا جائے گا‘ جسے صاف کرنا آسان نہ ہو گا‘ اس لیے بھارت کو نیپال میں آئین کے نفاذ کے معاملے میں پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھانا ہوں گے۔
ریزرویشن: بھاگوت کا درست مشورہ 
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے بیان کا میں تہ دل سے خیر مقدم کرتا ہوں۔ انہوں نے وہی بات کہنے کی ہمت دکھائی‘ جو میں گزشتہ کئی برسوں سے لکھ رہا ہوں‘ اور کہہ رہا ہوں۔ موہن بھاگوت جی نے یہی تو کہا ہے کہ ریزرویشن پر دوبارہ بحث ہو تاکہ حقیقی اور محروم لوگوںکو اس کا فائدہ ہو۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ریزرویشن ہی ختم کر دو۔ ان کی بات کو ذرا دھیان سے سمجھیں تو اس کا مطلب یہی نکلے گا کہ ریزرویشن کو ضرور بنائو تا کہ وہ ضرورت مند لوگوں کے لیے مفید ثابت ہو سکے۔ انہوں نے جیسا کمیشن بنانے کی بات کہی ہے‘ وہ دانش مندانہ ہے۔ انہوں نے ریزرویشن سے سیاسی فائدے اٹھانے کو غیر واجب بتایا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ اس میں موہن جی نے غلط کیا کہا ہے؟ یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ موہن جی کی بات سے سب سے زیادہ مرچی کس کو لگی ہے؟ ملائی دار لیڈروں کو! محروموں کے ملائی دار طبقوں میں سب سے زیادہ ملائی مارنے والے لیڈر بوکھلا گئے ہیں۔ انہیں خوف محسوس ہو رہا ہے کہ کہیں ان کی دکانوں پر تالے نہ پڑ جائیں۔ ان کی دکان میں صرف ایک ہی سڑی ربڑی بکتی ہے‘ جس کا نام ہے ذات پات۔ اگر ذات پات ختم ہو گئی تو یہ لیڈر بیچارے بھوکے مر جائیں گے۔ انہیں ووٹ کون دے گا؟ ان کی طرف توجہ کون کرے گا؟ یہ اپنی 'ایمانداری‘ سادگی اور اہلیت کے حوالے سے سارے ملک میں مشہور ہو چکے ہیں۔ محروموں‘ جنگلوں میں رہنے والوں اور شیڈول کاسٹ والوں کو بھی پتا چل چکا ہے کہ ان کے لیے پیدا ہونے والے مواقع پر جھپٹا مارنے والا طبقہ کون سا ہے؟ وہ جان چکے ہیں کہ ان کے لیڈر ہی ان کی پشت پر چھرا بھونکنے کا کام کر رہے ہیں۔ وہ لوگ کسی کے رحم اور خیرات پر زندہ نہیں رہنا چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس لائق بنیں کہ نوکریاں خود چل کر ان کے پاس آئیں۔ یہ تبھی ہو سکتا ہے جب ان کے بچے تعلیم یافتہ ہوں گے۔ اگر تعلیم میں انہیں سو فیصد ریزرویشن ملے گا‘ تو نوکریاں انہیں اپنے آپ ملیں گی۔ اگر وہ تعلیم حاصل نہیں کریں گے تو انہیں ریزرویشن والی نوکری بھی کون دے گا؟ تعلیم میں ریزرویشن ان سب کو ملے گا‘جو غریب ہیں‘ محروم ہیں‘ ضرورت مند ہیں۔ ذات کی بنیاد پر نہیں‘ ضرورت کی بنیاد پر ریزرویشن ملے گا۔ اس نئے انتظام میں کوئی دلت‘ کوئی جنگلی‘ کوئی محروم‘ کوئی بیک ورڈ کلاس چھوٹے گا نہیں۔ ان میں صرف جو ملائی دار لوگ ہیں‘ وہ چھوٹ جائیں گے۔ موہن جی تو اتنے دور بھی نہیں گئے ہیں۔ انہوں نے تو صرف اشارہ کیا ہے۔ نئی سوچ کی ضرورت بتائی ہے۔ گجرات میں پٹیلوں‘ مہاراشٹر میں مراٹھوں‘ ہریانہ میں جاٹوں اور راجستھان میں گوجروں کی تحریک نے بھی اس ضرورت کو محدود کیا ہے۔ ریزرویشن کی اٹ پٹے بندوبست کے سبب بھارت کی مختلف ذات پات والوں کے بیچ کہیں خانہ جنگی نہ پیدا ہو جائے‘ اس خطرے کو پیش نظر رکھ کر سرکار اور سارے ملک کو موہن جی کے مشورے پر دھیان دینا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں