بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا یہ دوسرا دورہِ امریکہ‘ بھارت میں بہت لہریں اٹھا رہا ہے ۔پہلے دورے سے بھی زیادہ!ہمارے ٹی وی چینل اور اخباروں پر مودی چھائے رہے ۔اس دورے کے دوران مودی جتنے بیرونی صدور اور وزرائے اعظم سے ملے‘ اتنوں سے شاید بھارت کا کوئی بھی وزیراعظم نہیں ملا ۔اتنا ہی نہیں‘ امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیوں‘جن کا بجٹ کئی ممالک کے بجٹ سے بھی بڑا ہوتا ہے ‘ کے مالکوں نے مودی سے خوشی سے ملاقاتیں کیں اور کھل کر باتیں کیں ۔مودی امریکہ پہنچے ‘اس سے پہلے لگ بھگ بیس ہزار کروڑ روپے کے ہیلی کاپٹر بھارت نے امریکہ سے خریدے ۔امریکہ کے لیڈروں کے ساتھ دہشتگردی کو لگام دینے اورعالمی آب و ہواسدھارنے کے بارے میں بھی عزم ظاہر کیا گیا۔اس کے علاوہ مودی نے جی فور یعنی جرمنی‘ جاپان ‘برازیل اور بھارت کے منچ سے اقوام متحدہ کے دروازے بھی کھٹکھٹائے۔اقوام متحدہ کانفرنس میں بھی ان کی تقریرمتاثرکن ہوئی‘لیکن خاص سوال یہ ہے کہ اس دھواں دار دورے سے نکلے گا کیا؟کیا بھارت کو کچھ ٹھوس کامیابیاں حاصل ہوںگی‘یا گزشتہ کئی دوروں کی طرح یہ بھی صرف ایک پبلک ریلیشن مشن بن کر رہ جائے گا؟مودی عوامی رابطے کے مہا پنڈت ثابت ہوئے ہیں‘ اس میں ذرا بھی شک نہیں ہے۔انتخابات کے دوران ملک کے لوگوں پر مودی کا جیسا نشہ چڑھا ہوا تھا ‘ایسا نشہ میں نے نہرو اور اندرا کے زمانے میں بھی نہیں دیکھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ کانگریس کی
بدعنوانی اور اس کے لیڈروں کے لجلجے پن نے عوام میں دلچسپی ختم کر دی تھی ‘لیکن مودی کو کریڈٹ جاتاہے کہ انہوں اس موقع کو کانگریس کی شکست میں بدل دیا۔مودی کا یہ کرشمہ اب بھی جاری ہے ۔وہ اپنے بیرونی دوروں میں اب سواسال بعد بھی انتخابی مشن پر ہی رہتے ہیں ۔آئر لینڈ میں انہوں نے آئرش بچوں کے سنسکرت منتروں کی تعریف کی ‘بالکل ٹھیک کیا‘ لیکن وہ وہاں بھی 'سکیولرزم‘کو گھسیٹ لے گئے ۔وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ وہاں صرف بی جے پی کی نہیں ‘سارے ملک کی نمائندگی کر تے ہیں۔بیرونی ملکوں میں جا کر بھارت کے اندرونی جھگڑوں کو اچھالنا کہاں تک زیب دیتا ہے ؟جب بھارت کاوزیراعظم کسی بیرونی ملک میں ہوتا ہے تو وہ ہر بھارتی کا وزیراعظم ہوتا ہے ۔وہ اپنے مخالفین کا بھی لیڈر ہوتا ہے ۔
مودی نے اقوام متحدہ میں کئی بیرونی لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔میں نے ان کی فہرست پر غور کیا توپتا چلا کہ کچھ اتنے چھوٹے ملکوں کے سربراہوں سے بھی ملے جو بھارت کے کسی ضلع سے بھی چھوٹے ہیں ۔وہ بھارت کی مدد کیسے کریں گے ؟وہ بھارت کو اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت کیسے دلائیں گے ؟ان میں سے زیادہ تر تو امریکہ وغیرہ کی جیب میں رہتے ہیں۔ایسے میں ان کے لیڈروں سے ملنے کا مقصد کیا ہے؟کیا صرف پرچار؟پرچار بھی کیسا؟امریکی میڈیا کے کسی کونے میں تھوڑی بہت جگہ مل گئی تو غنیمت سمجھیں ۔
اسی طرح جرمنی ‘جاپان اور برازیل کے ساتھ مل کرمشترکہ بیان جاری کرنے میں کوئی برائی نہیں‘ لیکن یہ تینوں ملک بھارت سے بھی زیادہ معذور ہیں ۔سلامتی کونسل میں بھارت کو بٹھانے کی صرف پاکستان کھلی مخالفت کرتا ہے ‘کئی دوسرے ملک بھی مخالفت کرتے ہیں‘لیکن ان تینوں ملکوں کے خلاف تو کئی ہیں۔ سلامتی کونسل کے پانچوں ارکان...امریکہ ‘روس‘برطانیہ ‘فرانس اور چین کی مکمل حمایت کے بغیراقوام متحدہ کے ڈھانچے میں کوئی سدھار نہیں ہو سکتا اور انہیں کیا پڑی ہے کہ یہ کوئی سدھار کریں؟ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں نے دنیا کی سیاست کو بدلا تھا اور اس بدلاؤ کے نتیجے میں لیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ جیسی تنظیمیں پیدا
ہوئیں۔کیا ایسا بدلاؤ اب بھی دکھائی دیتا ہے ؟اگر نہیں تو ریگستان میں کشتی چلانے کی بجائے بھارت کو چاہیے کہ وہ اپنی کوششوں سے حقیقی عظیم قوت بنے تاکہ اقوام متحدہ خود آ کر بھارت سے درخواست کرے کہ آپ سلامتی کونسل کی زینت بڑھائیے۔اس میں شک نہیں کہ امریکی کمپنیوں کے مالکوں سے ہوئی مودی کی ملاقات سے بھارت کو کچھ نہ کچھ فائدہ تو ضرور ہوگا۔اگر بھارت کے پانچ لاکھ گاؤں میں انٹر نیٹ پہنچ جاتا ہے‘ اگر پانچ سو سٹیشنوں پروائی فائی کی سہولیات ہو جاتی ہیں ‘اگر کروڑوں لوگوں کو سستے موبائل مل جاتے ہیں اور شمسی توانائی گھر گھر پہنچ جاتی ہے تو ملک میں رابطے کا غیر معمولی اچھا ل آئے گا ‘لیکن یہ آسان نہیں ہے۔پہلی بات تو یہی کہ یہ کمپنیاں پیسہ کمانے کیلئے بیٹھی ہیں یا خدمت کرنے کیلئے ؟یہ بھارت آئیں گی تو پہلے یہ جانچ کریں گی کہ وہ یہاں سے کتنا مال بٹور کر لے جاسکتی ہیں۔دوسری بات یہ کہ بھارت میں سرمایہ کاری کرنے والوںنے وہاں مودی کے منہ پر ہی کہہ دیا کہ بھارت میں سرمایہ کاری کے لیے حالات موزوں نہیںہیں‘ یعنی مودی صاحب! پہلے آپ بھارت کی حالت ٹھیک کیجئے پھر ہمیں سرمایہ کاری کے لیے کہیے۔تیسری بات‘کیا میک ان انڈیاسے بھارت کے عام آدمی کو روٹی ‘کپڑا ‘ مکان‘ تعلیم اور دوا کے معاملے میں کچھ سہولت ہوگی؟ ایسا کوئی اشارہ ان بیرونی دوروں سے نہیں ملتا۔
بھارت کے وزیراعظم ایسے نعرے دیں ‘جن سے ملک کے
تقریباً ستر کروڑ محروم لوگوں کا کوئی براہ راست فائدہ ہوتا دکھائی نہ دے تو تعجب ہوتا ہے کہ 'میک ان انڈیا‘ کا کیا مطلب ہے ؟بھارت آکر کیا بناؤ؟ ہوائی جہاز‘کاریں ‘کمپیوٹر ‘ایئرکنڈیشنر ‘ریفریجریٹر؟ ان چیزوں سے ملک کے ستر کروڑ لوگ ‘جن کی آمدنی سوروپیہ روز بھی نہیں ہے ‘ان کا کیا لینا دینا ؟اسی طرح 'ڈیجیٹل انڈیا وغیرہ جیسے دل لبھانے والے نعروں سے ملک کے تمام مسائل کی طرف سے ہماری توجہ ہٹتی جارہی ہے۔'سکل انڈیا‘کا نعرہ بہت اچھا ہے ‘لیکن یہ نعرہ لگانے والے لیڈر سے کوئی پوچھے کہ جن کیلئے یہ مشن ہے ‘کیا وہ مزدور لوگ اس نعرے کا مطلب بھی سمجھتے ہیں ؟ڈیڑھ سال ہونے کو آیا ‘کیا ہماری سرکار نے سکولوں اور کالجوں میں بچوں کو کام دھندے یا ہنر دینے کی تربیت کا کوئی انقلابی قدم اٹھایا ؟مجھے ڈر ہے کہ ہمارے وزیراعظم کے بیرونی دورے کہیں صرف مور کا ناچ ثابت ہوکر نہ رہ جائیں۔پنکھ بہت خوبصورت اور پھیلے ہوئے‘ لیکن پاؤں کمزور اور بدصورت !امریکہ اور فرانس جیسے ملک ہمارے لیڈروں۔ اور افسروں کے سامنے اس لیے بھی پلکیں بچھا دیتے ہیں کہ ہم ان سے اربوں روپے کے جہاز‘ہیلی کاپٹر اور ہتھیار فوراً خرید لیتے ہیں ۔وہ ہمیں چوسنے کیلئے سلامتی کونسل کی گولی بھی دے دیتے ہیں‘ مودی جی کی تعریف کے پل بھی باندھ دیتے ہیں اور دہشتگردی کے خلاف کافی جمع زبانی خرچ بھی کر دیتے ہیں ۔اس عمل میں عالمی رابطے کے مشن تو عجیب ہو جاتے ہیں‘ لیکن ملک کا فائدہ کتنا ہوتا ہے ‘یہ کوئی نہیں جانتا۔