کیا مہینہ بھر پہلے کوئی سوچ سکتا تھا کہ ہماری وزیر خارجہ سشما سوراج آج (بروز بدھ) پاکستان میں ہوں گی‘ اور وہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور اپنے پاکستانی ہم منصب سرتاج عزیز سے بات چیت کر رہی ہوں گی؟ سشما دو باتوں پر اڑی ہوئی تھیں۔ ایک یہ کہ اگر دونوں ملکوں کے بیچ کوئی بات ہو گی تو ان دونوں میں ہی ہو گی‘ کسی دوسرے ملک میں نہیں ہو گی۔ لیکن ہوا کیا؟ پہلے روس کے شہر اوفا میں بات ہوئی۔ دونوں وزرائے اعظم اس سے پہلے 2014ء میں کٹھمنڈو میں گُپ چُپ ملے اور اب پیرس میں۔ پیرس نے ہی بنکاک کی راہ کھولی‘ اور بنکاک نے اسلام آباد کے دروازے کھولے۔ یعنی اس کا سبق یہ ہوا کہ خارجہ پالیسی کے معاملے میں آپ وجر آسن (یوگا کی ایک مشق) لگا کر بیٹھ جائیں‘ تو آپ بیٹھے ہی رہ جائیں گے۔ آپ کو طرح طرح کے پینترے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔
دوسری بات جس پر مودی سرکار اور سُشما اڑی ہوئی تھیں‘ یہ تھی کہ دہشت گردی اور بات چیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘ پہلے دہشت گردی بند کی جائے‘ تب بات چیت ہو گی۔ بھاجپا کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا اب بھی یہی بات کہہ رہے ہیں۔ وہ سُشما کے دورہ پاکستان پر کانگریس سے بھی زیادہ تیز اور تیکھی تنقید کر رہے ہیں۔ کانگریس کے لیڈروں نے خود کو مسخرہ
بنا لیا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ سشما اور مودی پارلیمنٹ کو یہ کیوں نہیں بتا رہے کہ وہ پاکستان سے کیوں اور کیا بات کر رہے ہیں؟ کانگریس کی سرکار تو ممبئی حملے کے باوجود پاکستان سے مذاکرات کا سلسلہ چلائے ہوئی تھی‘ اب اس کا لال پیلا ہونا عجیب سا لگتا ہے۔ اگر بی جے پی جیسی پارٹی کے لیڈر پاکستان سے بات چیت چلانے کے لیے مجبور ہو رہے ہیں تو اس کے پیچھے کچھ نہ کچھ حساب کتاب تو ضرور ہونا چاہیے۔
مجھے تو یہ لگتا ہے کہ پاکستان اور بھارت‘ دونوں کے لیڈروں کو امریکہ اور برطانیہ کے لیڈروں نے کافی دبایا ہے۔ یہ دونوں بڑی قوتیں (امریکہ اور برطانیہ) داعش کے خلاف لڑنے کے لیے متفق ہیں۔ اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان تناؤ بنا رہتا ہے‘ تو اس سے دہشت گردی کے خلاف عالمی لڑائی کمزور ہو جائے گی۔ یہ اتفاق کتنا اچھا رہا کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف خود واشنگٹن گئے‘ اور انہوں نے امریکی اعلیٰ حکام سے سیدھی گفتگو کی۔ یہ حقیقت بھی کم اہمیت والی نہیں ہے کہ پاکستان کے قومی سلامتی کے نئے مشیر ناصر خان
جنجوعہ ریٹائرڈ جنرل ہیں۔ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال خفیہ ایجنسی کے سینئر افسر رہے ہیں۔ اس لیے دونوں ملکوں کے سلامتی کے صلاح کاروں سے کوئی بات چھپی نہیں ہے۔ سرتاج عزیز صاحب اب محض خارجہ پالیسی کے صلاح کار ہی نہیں‘ بلکہ ایک طرح سے وزیر خارجہ ہی ہیں۔ یہ ٹیم اتنی مضبوط ہے کہ اگر ان دونوں کے بیچ بات چیت چلتی رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ دوطرفہ تعلقات کافی اونچے مقام پر نہ پہنچ جائیں۔ ناصر خان جنجوعہ جو بھی بات چیت کریں گے‘ اس میں جتنی پاکستانی وزیر اعظم کی رضامندی ہو گی‘ اس سے بھی زیادہ فوج کی ہو گی۔ میرے خیال میں بھارت کے بارے میں پاکستان کی پالیسی طے کرنے میں فوج کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اب بھارت کے متعلق جو بھی پالیسی بنائیں گے‘ اسے فوج کی مکمل حمایت حاصل ہونے کی امید ہے۔
جہاں تک مودی سرکار کا سوال ہے‘ اس نے کافی لچکیلے پن کا تاثر دیا ہے۔ پاکستان سے مذاکرات پہلے اسی نے کیے تھے۔ حریت کے لیڈروں سے پاکستان کے ہائی کمشنر کیوں ملاقات کی‘ یہ اعتراض بالکل بچگانہ تھا۔ لیکن کیا کریں‘ یہ سرکار نوسِکھیوں سے بھری ہوئی تھی۔ اسے پتا ہی نہیں کہ نرسمہا راؤ جی‘ اٹل جی اور ڈاکٹر من موہن سنگھ کا حریت والوں سے رابطہ بنا رہتا تھا۔ پی ڈی پی کے ساتھ مل کر کشمیر میں سرکار چلانے والی پارٹی کی یہ پوزیشن بے ایمانی تھی‘ لیکن مودی سرکار کے لچکیلے پن کی میں داد دوں گا کہ اس نے اوفا میں آگے ہو کر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے بات کی۔ اب بنکاک ملاقات سے خارجہ پالیسی ہی نہیں‘ گھریلو معاملات میں بھی کافی سدھار کی امید باندھی جا سکتی ہے۔ یوں تو سرکار کو زیادہ تر نوکر شاہ ہی چلاتے ہیں‘ وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کو تو اور بھی زیادہ‘ لیکن لیڈروں سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ پالیسی بنانے میں بھی حصہ بٹائیں۔ اپنا سارا وقت نوٹ اور ووٹ
کے چکر میں ہی نہ برباد کر دیں۔ اس کے علاہ سربراہ ہونے کا مطلب نوٹنکی نہیں ہوتا۔
سشما جی پاکستان پہنچی ہیں۔ افغانستان کے معاملات پر غور کے لیے اس وقت ''ایشیا کا دل‘‘ نام سے کانفرنس ہو رہی ہے‘ جس میں قریب قریب تیس اہم ملک حصہ لے رہے ہیں۔ یہ ملک افغانستان کی تعمیر نو اور اس ملک کے مسائل حل کرنے کے موضوعات پر بات کریں گے۔ گزشتہ چالیس برسوں میں افغانستان کے عدم استحکام نے ہی دنیا میں دہشت گردی کو جنم دیا‘ جس کا پاکستان اور بھارت کو سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ بھارت نے اب تک ایک کھرب بیس ارب روپے سے زیادہ افغانستان میں لگا دیے ہیں۔ افغانستان کو بنانے میں اگر سشما جی بھارت پاک تعلق کا کوئی ڈھانچہ کھڑا کر سکیں‘ تو پورے جنوب ایشیا کی حالت ہی بہتر ہو جائے گی۔ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر دونوں ہمسایہ ملکوں کے باہمی تعلقات کو بھی آسان بنایا جا سکتا ہے۔ دونوں ہمسایوں کو ہر مدعے (تنازعے‘ مسئلے) پر کھل کر بات کرنی چاہیے۔ اگر سشما سوراج اپنی قابلیت‘ صلاحیت اور طاقت کا پورا استعمال کر سکیں‘ تو وہ دونوں ملکوں کے بیچ ایک نئے باب کی شروعات کر سکتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔