وزیراعظم نریندر مودی نے اچانک لاہور پہنچ کر ایسا سیاسی چھکا مارا کہ ان کے اصلی دوروں پر کسی کی توجہ بھی نہیں گئی ۔نہ لیڈروں کی‘ نہ چینلوں کی ‘نہ اخباروں کی اور نہ ہی عام عوام کی ۔انہوں نے روس اور افغانستان جا کر بھارت کے مفادات کی جوٹھوس حاصلات کیں‘وہ سب دورہ ِلاہور کے آگے پھیکی پڑگئیں۔آپ نوٹنکی کیلئے صرف مودی کو قصور وار نہ ٹھہرائیں ۔ہمارا سارا ملک ہی نوٹنکی کو پسند کرتا ہے ۔
مودی کے لاہور جانے کا میں نے خیر مقدم کیا ہے لیکن اس سے پیدا ہوئی امیدوں کو عملی جامہ پہنانا آسان نہیں ہے۔ اگر مودی کوخارجہ پالیسی کی تھوڑی بھی سمجھ ہو تو انہوں نے اچانک جو چھکا مارا ہے ‘وہ اسے بھارتی سیاست کے ماہرانہ انداز میںبدل سکتے ہیں ۔اگر افغانستان میں بھارت اورپاکستان مل کر کام کرنے لگیں تو سارے جنوب ایشیا کی سیاست میں ایک نئے باب کا آغازہو سکتا ہے ۔اس وقت پاکستان یہ محسوس کرتا ہے کہ افغانستان میں بھارت نے لگ بھگ پندرہ ہزار کروڑ اس لئے خرچ کر دیے ہیں کہ وہ وہاں پاکستان کے اثرکو کم کرنا چاہتا ہے ۔اس لئے مودی کو کابل میں کہنا پڑا کہ بھارت یہاں کسی سے مقابلہ نہیں کرنا چاہتا۔ اصل میں امریکہ اور جاپان کے بعدبھارت نے افغانستان میں سب سے زیادہ پیسہ خرچ کیا ہے ۔بھارت نے دو ایسے کام کیے
ہیں ‘انہیں افغانستان صدیوں تک یاد رکھے گا ۔ایک تو جرنج دلارام سڑک ‘جو افغانستان کو ایران کے ذریعے سمندر سے جوڑتی ہے ۔ اسے زمین سے گھرے ہونے کی مجبوری سے نجات دلاتی ہے ۔ اور دوسرا افغان پارلیمنٹ کی تعمیر ۔افغانستان اس وقت پریشانی میں ہے ۔بیرونی ممالک کی افواج واپس ہو رہی ہے۔ طالبان کا قبضہ بڑھتا جا رہا ہے ۔اقتصادی مشکل بڑھتی جا رہی ہے ۔صدر اشرف غنی اور وزیراعظم ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں ۔ایسے میں اگر بھارت پاک متحدہ پالیسی بن سکے تو کرشمہ ہو سکتا ہے ۔آج پاک فوج کے سربراہ راحیل شریف کابل میں ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ انہیں اپنے مفاد کے علاوہ امریکی مفادات کی بھی حفاظت کرنی ہے۔
بھارت اور روس کے درمیان 16 معاہدے ہوئے ہیں ۔ روس آج کل پاکستان سے بھی دوستانہ تعلقات بڑھا رہا ہے ۔ افغانستان میں اس کی گہری دلچسپی ہے لیکن وہ بھی دہشتگردی سے خوف زدہ ہے ۔شام میں داعش کے ساتھ اس کی زبردست جنگ جاری ہے ۔اگر بھارت اپنی نظر وسیع رکھے اور دور اندیشی سے کام لے تو آج کا افغانستان بھارت کیلئے عالمی قوت بننے کا دروازہ کھول سکتا ہے ۔لیکن اس کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ افغانستان میں امن قائم کرنا لازمی ہواور اسکی دوبارہ تعمیر ہو ۔ وہاں سے دہشتگردی ختم کرنے کیلئے پاکستان کا تعاون ضروری ہے ۔اگر افغانستان میں بھارت پاک ساتھ ساتھ چل سکیں تو ان کے باہمی معاملے بھی اپنے آپ سلجھتے جائیں گے ۔کیا مودی اور نواز ساتھ ساتھ کبھی کابل جا سکتے ہیں ؟
بھارت پہل کرے
نیپالی حدود کی گھیرابندی ہوئے تین ماہ گئے اور نیپال سرکار کی آنکھ اب کھلی ہے۔پچاس لوگ مارے گئے اور لاکھوں لوگوں کا جینا محال ہوگیا ‘تب جاکر نیپال سرکار نے مدھیسیوں کی مانگوں پر رویہ ڈھیلا کیا ۔پہلے اس نے بھارت کے سر الزام لگائے ‘پھر وہ نیویارک اور جنیوا میں جاکر بھارت کے خلاف آوازیں لگاتا رہا ۔ جب اس نے دیکھا کہ چین نے اسے جو لالی پوپ تھمائی تھی ‘اس سے بھی اس کا پیٹ نہیں بھررہا ہے تو اب تک ہار کر اس نے اپنے آئین میں ترمیم کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن اسے مدھیسی لیڈروں نے خارج کر دیا ہے ۔کیونکہ وہ پیش کی گئی ترمیم؟
پہلی‘یہ کہ مدھیسیوں کوپارلیمنٹ میں ان کی مردم شماری کے حساب سے نشستیں دی جائیں گی۔ دوسری‘مدھیسی ‘صوبوں کے سبھی اداروں میں ان کو ان کے عوام کے حساب سے لیڈر شپ ملے گی ۔ مدھیسی لیڈروں نے رعایات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی گیارہ مانگیں تھیں ۔ان میں سے صرف تین پر ہی سرکار نے غور کیا ہے ‘وہ عمل بھی ادھورا ‘واضح اور غیر نظریاتی ہے ۔اس سے مدھیسیوں کو انصاف دلانے کی بجائے بھُلاوے میں رکھنے کا کام ہوگا ۔
چاروں مدھیسی جماعتوںکے لیڈروں نے کہا ہے کہ مردم شمار ی کی بنیاد پرنشستیں بانٹی جائیں گی تو کیا پارلیمنٹ کی نصف نشستیں مدھیسیوں کو ملیں گی؟اچ سدن میں سبھی صوبوں کو ایک برابر نشستیں دی گئی ہیں تو کیا مدھیسیوں کو بھی مناسب تعداد میں نشستیں ملیں گی؟کیونکہ مدھیسیوں کے صوبے تو کم بنیں گے لیکن عوام زیادہ ہوگی ۔سرکاری نوکریوں میں مدھیسیوں کی مناسب لیڈر شپ کیسے ہوگی‘کیونکہ کئی مجموعی ذات والوں کیلئے پہلے سے کئی نوکریاں ریزرویشن ہیں ؟اس کے علاوہ نئی حد بھی مبینہ ہے ‘کیونکہ اس کا فیصلہ بھی لیڈر حضرات ہی کریں گے ۔
مدھیسیوں کے یہ اعتراضات بے بنیاد نہیں لیکن وہ ایسے بھی نہیں ہیں کہ ان کا حل نہ ہو سکے ۔بھارت نے نیپال سرکار کی پیشکش کو 'تعمیراتی‘ کہا ہے ۔اسے بھی چاہیے کہ وہ صرف بیان جاری کرنا ہی اپنا فرض نہ سمجھے۔ دونوں طرفین کو ساتھ بٹھا کر وہ سمجھوتہ کروائے اور گھیرا بندی ختم کروائے۔اگر یہ گھیرا بندی چلتی رہی تو بھارت کی جانب سے نیپال کے جذبات کو ایسا دھکا لگے گا ‘جسے کئی برسوں تک سدھارا نہیں جاسکے گا۔نریندر مودی سرکار نے زلزلے کے دوران نیپال سے جو زبردست احسان پایاتھا‘وہ اثر تقریباًختم ہو چکا ہے۔ بھارت نیپال تعلقات میں اس سے زیادہ گراوٹ آئی تو ہماری سیاست کی عزت سارے جنوب ایشیا میں زخمی ہوگی۔ بھارت صرف دیکھتانہ رہے ‘کچھ متحرک بھی رہے ۔