2016 ء کا سال شروع ہوگیا ہے۔ کیا ہم اس سال کو 2015 ء کی طرح خالی جانے دیںگے؟ ایسا نہ ہو کہ یہ سال خالی اور صرف مبارکباد اور نیک خواہشات کے اظہار کا سال بن کر رہ جائے۔ سرکاروں اور لیڈروں سے ہمیں کام تو لینا ہی ہے۔ انہیں ہم نے کرسیوں پر بٹھایا ہے اور ان کے تحفظ پر ہمارے کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ملک کے کروڑوں با ہوش باشندے عزم کریں اور نئے سال میںکچھ کر دکھائیں۔
سب سے پہلے اور سب سے آسان کام یہ ہو سکتا ہے، سبھی قسم کھائیں کہ دستخط اپنی زبان میں کریںگے۔ اپنی زبان میں دستخط کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ میں نے زندگی میں ایک بار بھی دستخط انگریزی میں نہیں کیے۔ اپنی زبان میں دستخط کریں گے تو دل میں یہ خیال بیدار رہے گا کہ آپ کو انگریزی کی غلامی نہیں کرنی ۔ دوسرا عزم یہ کریں کہ ہرروز کسرت (ورزش) کریںگے۔ تیسرا عزم یہ کریں کہ رشوت لیں گے نہ دیںگے۔ اگر بے حد مجبوری میں رشوت دینی بھی پڑی تو اسے فوراً عیاںکردیںگے۔ چوتھا‘ کسی قسم کا نشہ خود کریں گے نہ کسی کی اس کے لیے مدد کریںگے۔ پانچواں‘اپنا معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی خلوص ذات پات سے ہرگز متاثر نہیں ہونے دیںگے۔ ہو سکے تو اپنے نام کے ساتھ اپنی ذات لکھنا بندکردیں گے اور اپنے دل سے اعلیٰ وادنیٰ کا تاثر نکال پھینکیںگے۔ چھٹا‘ گوشت کھانا کم کردیںگے جس کے سبب صحت میں سدھار آئے گا اور ملک کا اقتصادی فائدہ بھی ہوگا۔ساتواں، زندگی میں اصولوںکی پابنی کریںگے، غیر جانبداری اور انصاف کو اپنے برتاؤکی بنیاد بنائیںگے۔ یہ کچھ کام لوگ خود کریں تو ملک اپنے آپ کافی حد تک سدھر جائے گا۔لیکن سرکاریں اور لیڈرحضرات کیا کریں؟ یہ بتانا بھی لازمی ہے۔ پہلا ‘ ملک کے سارے کام کاج سے انگریزی کا استعمال ختم کردیں۔ جو چاہے اپنی مرضی سے غیر ملکی زبان پڑھے پڑھائے لیکن تعلیم کے حوالے سے انگریزی پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔ جو سرکاریں یہ بندش نہ لگائیں‘انہیں نکال باہرکریں۔
دوسرا ‘ ملک کے تمام وزراء‘ ارکان پارلیمنٹ‘ایم ایل ایز اور ان کی فیملی والوں کا علاج سرکاری ہسپتالوں میں کروانا لازم ہو۔ اسی طرح ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت بھی سرکاری سکولوں اور کالجوں میں ہی ہو۔ تیسرا‘ تمام پارٹیوں کی آمدنی اور خرچ کا حساب ہرسال سرعام کیا جانا چاہیے۔ یہی اصول سارے افسروں پر نافذ کیا جائے۔ چوتھا‘ ریزرویشن صرف تعلیم میں ہو‘ وہ بھی دسویں جماعت تک اور یہ ذات کی بنیاد پر نہیں بلکہ غریبی کی بنیاد پر ہو۔ نوکریوں کی ریزرویشن ختم ہو۔ پانچواں، غریبی کی حد اٹھائیس یا بتیس روپے نہیں بلکہ سو روپیہ ہو۔ خاص طبقہ کا ٹیکس ختم ہو، آمدنی ٹیکس لگائیں۔ ساتواں‘ بھارت سرکار پورے جنوب ایشیا اور وسطی ایشیا میں بڑی یونین بنانے کے لیے کام کرے۔ سرکاروں کو درجنوں دیگر کاموں کے مشورے بھی دیے جا سکتے ہیں، لیکن وہ اتنے ہی پورے کر دیں تو غنیمت ہے۔ اپنے لوگوں اور تمام سرکاروںکودلی مبارکباد !
سردار پٹیل‘ سونیا اور رام دیو
انتہا پسندی کے دو چہرے کل ملک کے سامنے آئے۔ پہلا ممبئی میں اور دوسرا دلی میں! ایک کانگریس درشن رسالے کے معاملے میں اور دوسرا جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں بابا رام دیوکی مخالفت کے ضمن میں۔ پہلے کانگریس درشن! اس رسالے کو سنجے نروپم چلاتے ہیں۔ وہ اس وقت ممبئی کانگریس کے ایک ذمہ دار عہدے پر ہیں اور ایک مشہور صحافی رہے ہیں۔ اس میگزین میں شائع دو لیکھوں پر کانگریسی لیڈر آگ بگولہ ہو رہے ہیں جو ان کی عادت ہے۔ اس میگزین کے مرتب کرنے والے کو فوراً برخاست کر دیا گیا ہے‘ لیکن میں پوچھتا ہوںکہ کیا یہ درجہ اوّل کی انتہا پسندی نہیں ہے؟ اگر اس کانگریسی میگزین میں یہ چھپ گیا کہ '' اگر نہرو جی سردار پٹیل کی صلاح مان لیتے تو تبت اور کشمیر کے مسئلے رہتے ہی نہیں۔اس میں غلط کیا ہے؟ کیا سردار پٹیل کانگریس کے لیڈر نہیں تھے؟ لیکن کانگریس گزشتہ پچاس برس سے پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بن چکی ہے۔ اس میں نہروجی‘ اندرا جی‘ راجیو جی اور سونیا جی پر تبصرہ کرنے کا حق کسی کو بھی نہیں ہے۔ اس کا نقصان کانگریس پارٹی کو ہی جھیلنا پڑ رہا ہے۔ پارٹی کے اندر جمہوریت ختم ہوگئی ہے۔ اب بھاجپا بھی اسی کے نقش قدم پر چلنے لگی ہے جو پورے بھارت میں جمہوریت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ سونیا کے بارے میں 'کانگریس درشن‘ میں جو چھپ گیا‘ اس سے کانگریسی بہت ناراض ہیں۔ اگر سونیا کبھی 'ویٹریس‘ رہی ہیں اور ایئرہوسٹس بننا چاہتی تھیں تو اس میں برائی کیا ہے؟ وہ نریندر مودی سے تو بہتر ہی رہیں۔ وہ تو ریل کے ڈبوں میں چائے بیچتا پھرتا تھا‘ لیکن اس بات پر اسے کبھی شرم نہیں آئی۔ یہ ٹھیک ہے کہ کسی پارٹی میگزین میں اس طرح کی ناپسندیدہ حقیقت کے شائع ہونے پر نگرانی رکھنی چاہیے لیکن تھوڑا بہت برداشت کرنے کی ہمت بھی ہونی چاہیے۔
ایسا ہی معاملہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں بھی سامنے آیا۔ اس کے شعبہ سنسکرت نے ایک بین الاقوامی ویدانت پروگرام کیا۔ اس میں بابا رام دیو مدعو تھے۔ بابا رام دیو اپنی مصروفیات کے سبب یہ دعوت قبول نہ کر سکے‘ لیکن طلبا یونین کی صدر شہلا رشید روشا نے مظاہرے کی دھمکی دے دی۔ رام دیو جی پر ''اقلیتوں کے مخالف‘‘ اور''سخت ردعمل دینے والا‘‘ ہونے کے الزامات لگائے گئے۔ شہلا کو شاید معلوم نہیں کہ ملک کے لاکھوں مسلمان اور عیسائی لوگ رام دیو کے یوگ اور دوائی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے کئی بڑے لیڈروں نے رام دیو جی کو وہاں جا کر پروگرام کرنے کی درخواست کی ہے۔ دلی کے اسلامی سینٹر نے ان کا استقبال کیا تھا۔ رام دیو جی پر''اقلیتوں کا مخالف‘ ہونے کا الزام لگانا لاعلمی نہیں بلکہ بے وقوفی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی(جے این یو) کی عزت کو دھول میں ملانا ہے۔ میں جے این یو کے پہلے بیچ کا پی ایچ ڈی ہوں۔ مجھے اپنی یونیورسٹی پر فخر ہے۔ وہ نظریات کی آزادی کے لیے مشہور ہے۔ کوئی کسی کے خلاف مظاہرہ کرے تو اس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں‘ لیکن کسی کو اپنے خیالات ظاہر کرنے سے روکا جائے تو اس سے بڑھ کر فاشزم کیا ہو سکتی ہے۔
شراب بندی ذرا زور سے
سپریم کورٹ نے کیرالا کی صوبائی سرکار کی طرف سے شراب بندی کی حمایت کی ہے ۔کیرالا کی سرکار نے فائیو سٹار ہوٹلوں کے سوا سبھی ہوٹلوں اور شراب خانوں میں شراب پلانے پر پابندی لگا دی ہے۔ اس سے کیرالا کے تقریباًچارسوشراب خانے بند ہو جائیں گے۔ وہ بیئر اور وائن بھی استعمال نہیںکروا سکتے ۔ پانچ ستارہ ہوٹلوں کو چھوٹ دینے کے دو سبب بتائے گئے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ کل ملاکر جتنی شراب کیرالا میں بکتی ہے وہاں اس کی شرح صرف ڈیڑ ھ دوفیصد ہے جس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ اس کے علاوہ فائیوسٹار ہوٹلوں کی شراب اتنی مہنگی ہوتی ہے کہ مڈل کلاس کے لوگ بھی وہاں پینے کی ہمت نہیںکرتے۔ اگر وہاں پینے کی چھوٹ ہوگی‘ تب بھی کون جاکر پیئے گا۔ پانچ ستارہ ہوٹلوں کو اس لیے بھی چھوٹ دینی ضروری ہے کہ ان میں بیرونی ممالک کے سیاح ٹھہرتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے شراب بندی کی فیور میں جو دلائل دیے وہ بے جوڑ ہیں۔ اس نے کیرالا صوبہ کے لوگوں کی صحت اور خوشحالی کے بارے میں جو خدشات ظاہر کیے وہ البتہ قابل تعریف ہیں۔ اس کے حکم کی فرمان برداری دیگر تمام صوبوں کو بھی کرنی چاہیے۔ لیکن پانچ ستارہ ہوٹلوں کو چھوٹ دینے کی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ قانون تو سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ اس چھوٹ کا مطلب کیا ہوا؟ پیسے والوں کو چھوٹ ہے اورغریبوں پر پابندی ہے۔ پابندی ہو تو سب پر ہو۔ شراب کی عادت تو ایسی ہے کہ اسے پوراکرنے کے لیے غریب ڈاکہ ڈالے گا ‘چوری کرے گا‘جیب کاٹے گا اور پانچ ستارہ میں جاکر پیئے گا۔ ا س طرح جرم بڑھیںگے۔ پانچ ستارہ ہوٹل شراب کے بلیک مارکیٹنگ کے مرکز بن جائیں گے۔ وہ ہوٹل کم شراب خانے زیادہ بن جائیں گے۔
لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا عدالتوں کے فرمان شراب کی بوتلوں کے ڈھکن بن سکتے ہیں؟نہیں۔ اگر بن سکتے ہوتے تو دنیا کے سارے مسلم ممالک میں شراب کا نام و نشاں بھی نہ ہوتا، لیکن ان ملکوں میں‘ میں نے کئی نامی گرامی لوگوں کے گھروں میں باقاعدہ بڑے شراب خانے بنے دیکھے ہیں۔ جہاں قانون سخت ہوتا ہے‘ وہاں لوگ ٹھرا‘ زہریلی شراب ‘سپرٹ اور تیزاب تک پینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ آپ ہوٹلوں اور شراب خانوں پر پابندی لگا دیجئے لیکن جب تک شراب کی خرید و فروخت جاری ہے لوگ گھروں میں بیٹھ کر پئیںگے۔ ضروری یہ ہے کہ شراب بنانے ‘خرید و فروخت کرنے ‘ پینے پلانے یہاں تک کہ رکھنے رکھانے پر بھی سخت پابندی ہونی چاہیے۔ شراب خوری کی وجہ سے سب سے زیادہ نفرت آمیز جرائم ہوتے ہیں۔ شراب بندی کے لیے ملک میں ایک مضبوط مشن کی شروعات ہونی چاہیے۔ شراب انسان کے دماغ کو غافل بنا دیتی ہے۔ انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا ۔انسان کے انسان بنا رہنے کے لیے شراب بندی نہایت ضروری ہے۔