ابھی پٹھان کوٹ حملے کی سیاہی بھی سوکھی نہیں تھی کہ چارسدہ میں دہشتگردوں نے ہلّہ بول دیا ۔چارسدہ پشاور سے محض چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور وہ خان عبدالغفار خان یعنی باچا خان کا گاؤں ہے۔ باچا خان کو سرحدی گاندھی کہا جاتا تھا ۔انہوں نے گاندھی جی کے مشورے سے پٹھانوں کو بنا تشدد والا سبق پڑھایا تھا۔ آج ان کے گاؤں میں ان کے نام سے بنی یونیورسٹی پر حملہ کر کے دہشت گردوں نے درجنوں طالب علموں کا ہلاک کر دیا ۔پچیس سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں اور ستر لوگوں کے سر میں گولیاں لگی ہیں۔کل تک یہ تعداد بڑھ سکتی ہے ۔اس واقعہ کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے لی ہے۔ یہ حملہ دسمبر 2014ء میں ہوئے پشاور کے فوجی سکول جیسا ہی ہے ۔اس حملے نے پاکستان کا دل دہلا دیا تھا ۔مجھے یقین ہے کہ یہ حملہ اب پاکستان کی فوج کو اس بات کے لیے تیار کرے گا کہ دہشتگردوں کے مکمل خاتمے میں جٹ جائے۔وہ یہ فرق کرنا بند کرے کہ یہ دہشتگرد'ہمارے‘ہیں اور یہ 'تمہارے‘ہیں ۔یہ اچھے ہیں اور یہ برے ہیں ۔پاکستانی فوج نے گزشتہ بر س ضرب عضب نام کا دہشتگردوں کے خلاف زبردست آپریشن چلایا تھا ۔اس آپریشن میں تقریباًدس ہزار دہشتگردوں کو مار گرایا تھا اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے تھے ‘لیکن اس کے باوجود چارسدہ میں اتنی خطرناک واردات کا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی فوج کا بہت ساکام ابھی باقی ہے ۔
اتفاق کی بات ہے کہ اس مشکل وقت میں پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف صاحب سوئٹزرلینڈ میں ہیں اور خیبر پختون خوا ہ صوبہ کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک انگلینڈ میں۔میاں نواز نے کہا ہے کہ جنہوں نے یہ قتل عام کیا ہے ‘وہ مسلمان نہیں ہیں ۔ان کا
مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔ان کا صفایا کیے بنا ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔پاکستان کے لگ بھگ سبھی لیڈروں نے اس حادثے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے ۔لیکن اصلی سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی پاکستان کو یہ سمجھ میں نہیں آیا ہے کہ پشاور اور پٹھان کوٹ ایک ہی سکہ کے دو پہلو ہیں؟
یہ نہیں ہو سکتا کہ بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے خلاف دہشتگردوں کو بھڑکاتے رہیں اور اپنے خلاف جو دہشتگرد ہیں ‘صرف انہیں مار گرانے کی کوشش کریں ۔دہشتگرد کسی کے سگے نہیں ہوتے۔ دہشتگردپہیہ دار توپ کی طرح ہوتے ہیں ۔اس توپ کا منہ آج میری طرف ہے توکل آپ کی طرف ہوسکتا ہے ۔اس لیے اب پاکستان کی فوج ‘آئی ایس آئی اور سرکار کو دہشتگردوں کے مکمل خاتمے کیلئے فیصلہ کرنا ہوگا ۔یہ ناممکن نہیں کہ چارسدہ میں یہ حملہ اس لئے ہوا ہے کہ اس وقت پاکستانی سرکار پٹھان کوٹ پر بھارت کے ساتھ تعاون کرتی ہوئی دکھائی پڑ رہی ہے ۔پاکستانی سرکار کو سبق سکھانے کے لیے کیا گیا یہ حملہ شاید طالبان کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہو ۔پٹھان کوٹ سے تو پٹھانوں کا نام جڑا ہی ہوا ہے ‘چار سدہ اور پشاور بھی پٹھانوں کا گڑھ ہے ۔
ایران کی دوسری آزادی
ایران کے خلاف لگی کئی بین الاقوامی پابندیوں کے اٹھ جانے پر ایسا لگ رہا ہے ‘مانو ایران کو دوسری آزادی ملی ہے ۔ایران کے ساتھ امریکہ کے اتنے گہرے تعلقات تھے کہ شہنشاہ کے زمانے میں ایران کو ایشیا میں امریکہ کا چوکیدار مانا جاتا تھالیکن جیسے ہی ایران میں اسلامی انقلاب کی ہوا بہنے لگی ‘آیت اللہ خمینی نے امریکہ کو بڑا شیطان کہنا شروع کر دیا تھا۔اسلامی ایران اورامریکہ کے درمیان ایسی ٹھن گئی کہ اس کے قونصلیٹ کو ایرانی سرکار نے 'جاسوس خانہ ‘کہنا شروع کردیا ۔دونوں ملکوں کے سیاسی تعلق رد ہوگئے اور گزشتہ کچھ برسوں سے مغربی ملک ایران پر یہ الزام لگانے لگے کہ ایران چوری چھپے ایٹم بم بنانے لگا ہے ۔اسی بنیاد پر ایران کے خلاف طرح طرح کی پابندیاں لگا دی گئی تھیں ۔
اب ویانا کی عالمی ایٹمی ایجنسی نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ ایران نے اپنے ایٹم بم کے مشن کو ترک کر دیا ہے ۔اس نے اپنے چودہ ہزار سینٹری فیوزوں کو ایجنسی کے حوالے کردیا ہے ۔اس نے اپنے یورینیم کا98 فیصد حصہ نقل مکان کردیا ہے ۔اس نے عراق میں قائم اپنی بھاری پانی کے بھٹیوں کو سیمنٹ سے ڈھک دیا ہے۔ اب جوہری بم بنانے کا کوئی خطرہ نہیں ہے ۔اب پابندیاں ہٹ جانے سے ایران کے تیس بلین ڈالر کے ضبط شدہ مال کی واپسی
ہوگی۔امریکہ بھی ایران کی ضبط دولت بیاج سمیت واپس کرے گا۔ اب ایران کی عالمی تجارت پھر زوروں سے شروع ہو جائے گی۔ بھارت کو کافی سہولت ہو جائے گی ۔ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ایران کے لیے یہ سنہرا دن ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ ایران سبھی ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلق اور امن کا خواہش مند ہے ۔
لیکن اب بھی سعود ی عرب اور اسرائیل جیسے ملک ایران کو خطرہ بتا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ چوری چھپے ایٹم بم ضرور بنائے گا۔ امریکہ کے کچھ ریپبلکن لیڈرایران پر اب بھی شک کر رہے ہیں ۔ امریکہ کے پاس مغربی ایشیا میں سعودی عرب کے مقابلے ایک آپشن کھڑا ہو گیا ہے ۔ایران کے ذریعے وہ مسلم دنیا کے کروڑوں شیعہ لوگوں کو متاثر کرے گا ہی ‘وہ افغانستان اور پاکستان کے دہشتگردوں کو بھی قابو کرنے میں ایران کی مدد لے گا ۔امریکہ کے ساتھ ایران کے تعلقات اچھے ہونے کا فائدہ بھارت کو تو ملے گا ہی ملے گا۔
کیمرون کی غلط پہل
برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے سر عام دھمکی دی ہے کہ جو لوگ شادی ہو جانے پر پانچ سال کا ویزا لے کر برطانیہ آتے ہیں‘ انہیں انگریزی سیکھنی ہی پڑے گی ۔اگر ڈھائی سال بعد بھی انہوں نے ٹھیک سے انگریزی نہیں سیکھی تو ان کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے گی ۔ان کا اشارہ خاص طورسے پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والی مسلم خواتین کی طرف ہے ۔انہوں نے نام لے کر کہا کہ آج بھی برطانیہ میں ایسی دو لاکھ عورتیں ہیں جنہیں اے بی سی بھی نہیں آتی ۔ایسے لوگوں کو انگریزی سکھانے کے لیے انہوں نے دو کروڑ پائونڈ خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔
یوں تو اپنے باشندوں میں اپنی زبان کے علم کی بات قاعدے کے مطابق فائدے مند ہے لیکن کیا کسی بھی جمہوریت میں اسے تھوپنا مناسب ہے ؟خود برٹش کے آئرش اور ویلزلوگ انگریزی ٹھیک سے نہیں جانتے۔انہیں اس کا کام چلائوعلم ہوتا ہے ۔وہ اپنی پارلیمنٹ اور عدالتوں میں انگریزی کا بائیکاٹ کرتے ہیں ۔ایسے میں اپنے پرانے غلام ملکوں سے آنے والے لوگوں پر بھی انگریزی تھوپنا کہاں تک جائز ہے؟جب انگریز بھارت میں رہے تھے تو کیا انہیں ہندی جاننا لازمی کیا گیا تھا ؟جو مسلم یا ہندو عورتیں انگریزی نہیں جانتیں‘ ان کی دنیا اپنے لوگوں تک ہی محدود ہوتی ہے ۔انگریزی سے ان کا رابطہ بہت کم ہوتا ہے۔ایسے میں انہیں انگریزی سیکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کر نے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے ‘لیکن تھوپنے کی بات سلوک میں نہیں آتی ہے ۔
اس طرح مسلم قانون کے کئی قاعدوں پر کیمرون کو سخت اعتراض ہے ۔کسی زمانے میں وہ عرب ممالک میں ٹھیک تھے لیکن اب انہیں ڈنڈے کے زور سے ہٹانے کے انجام شاید ٹھیک نہیں ہوں گے ۔بہتر تو یہ ہوگا کہ برٹش سرکار اپنے مسلم باشندوں کو سمجھانے کی کوشش کرے تاکہ کئی پرانی روایات کو وہ خود ہی چھوڑ دیں ۔کیمرون کے بیان کی ابھی سے مخالفت شروع ہوگئی ہے ۔اس مدعے کیلئے یہ وقت ٹھیک نہیں ہے۔ مغربی ممالک کو کسی نئی مصیبت میں الجھنے کی بجائے اس وقت مسلم ملکوں میں پھیلی دہشتگردی سے لڑنے پر اپنا دھیان مرکوز کرنا چاہیے۔