بھارت کے حوالے سے امریکی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کی خبر گرم ہے۔ خبر یہ ہے کہ گزشتہ سات برسوں سے امریکہ نے اپنی بھارت پالیسی کو پاکستان اور افغانستان سے الگ رکھا تھا، لیکن اب اس کی کوشش ہے کہ جو افسر اورسفیر پاکستان اور افغانستان کو دیکھتے ہیں‘ وہی بھارت کو بھی دیکھیں، یعنی امریکی ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ کا شعبہ جنوبی ایشیا اب ان تینوں ملکوں کو ایک ساتھ رکھ کر اپنی پالیسی بنائے گا۔ اس شعبے میں سارک کے سبھی ممالک تو آتے ہی ہیں‘ اب وسطی ایشیا کے پانچوں مسلم ممالک بھی آئیں گے ۔ اس نئی پہل کے سبب بھارت کی خارجہ پالیسی کے ماہرین میں کافی اضطراب ہے۔
بھارت کے ریٹائرڈ خارجہ سیکرٹری اور سلامتی مشیر شوشنکر مینن کا کہنا ہے کہ امریکہ کی یہ نئی پالیسی بھارت کے لئے مفید نہیں ہوگی کیونکہ امریکہ چاہے گا کہ پاکستانی مفادات کا تحفظ ہر قیمت پر ہو۔ امریکہ کی یہ پالیسی دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہی چلی آ رہی تھی۔ اسے سرد جنگ کا کھنڈہر بھی کہا جا سکتا ہے۔ بش سرکار نے پہل کی اور اوباما سرکار نے اسے بدلا۔ اسی کے سبب بھارت امریکہ تعلقات میں غیر معمولی اچھال آیا۔ ایٹمی معاہدہ ہوا‘ تجارت بڑھی ‘ پاکستان پر دباؤ پڑا‘ بھارت افغان تعلق بہتر ہوئے اور دہشت گردی پر امریکی رخ سخت ہوا۔ اگر پھر پرانی رسم شروع ہوگئی تواس کا خمیازہ بھارت کو ہی بھگتنا پڑے گا۔
میری رائے اس معاملے میں ذرا مختلف ہے۔ امریکہ اگر طرفداری ترک کر کے کام کرے اور بھارت ‘ پاکستان اور افغانستان سے متعلق پالیسی بنائے تو سارے جنوب ایشیا کا بھلا ہو سکتا ہے۔ اس پالیسی کی وکالت پچھلے کچھ برسوں سے میں لگاتارکرتا رہا ہوں۔ تینوں ملکوں کے خاص لیڈروں سے میں نے کئی بار ذاتی درخواست کی ہے کہ تینوں ملکوں کے لیڈر بیٹھک کریں اور اپنے سبھی فیصلوں پر بڑی قوتوں کی مہر لگوائیں۔ اگر امریکہ دباؤ ڈالے اور پاکستان سے کہے کہ اسے افغانستان میں بھارت کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا تو کیا پاکستان امریکہ کی نافرمانی کر سکتا ہے؟ بھارت اور پاکستان مل کر
دہشت گردی کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ بھارت پاکستان تجارت اربوں روپے کی ہو سکتی ہے۔ بھارت کے لئے وسطی ایشیا کے سبھی ملکوں اور پاکستان کے لیے جنوب ایشیا کے سبھی ملکوں کے لیے زمینی راستے کھل سکتے ہیں۔ ادھر بھارت کے ساتھ امریکہ کے رشتے جتنے گہرے ہوئے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے ہماری وزارت خارجہ کو اب امریکیوں کی منشا پر زیادہ شک نہیں رہ گیا، اس لئے وہ امریکہ کی نئی جنوب ایشیائی پالیسی کی مخالفت نہیں کر رہا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اس نئی امریکی پالیسی کا فائدہ بھارت اور پاکستان دونوں کو اٹھانا چاہیے۔ اگر امریکی پالیسی میں کہیں بھی غلط جھلک دکھائی دے تو بھارت کو اپنے والی پر عمل کرنے سے کون روک سکتا ہے۔
بھارتی مسلمانوں کی پہل
بھارت کے لگ بھگ سبھی مسلم فرقوں کے لیڈروں اور مولویوں نے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ سے مل کر جو بات کہی ہے وہ قابل تعریف تو ہے ہی‘ وہ دنیا کے سارے مسلمانوں کے لیے بھی قابل عمل ہے۔ بھارت کے مسلم لیڈراس معنی میں آج پوری مسلم دنیا کی لیڈر شپ کر سکتے ہیں۔ آج دہشت گردی سے جتنا بھارت پریشان ہے‘ اس سے کہیں زیادہ شام ‘یمن ‘افغانستان اور پاکستان پریشان ہیں۔ وہاں ہزاروں لوگ مارے گئے ہیں اور لاکھوں لوگ اپنے گھر چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ دہشت گردی القاعدہ کے ذریعے پھیلائی گئی۔ اس کو پھیلانے کی ذمہ داری داعش نے لے رکھی ہے۔ اس کے سرغنہ بغدادی نے اعلان کیا ہے کہ وہ کشمیر اور پورے جنوبی ایشیا میں کافروں کو صاف کر کے اسلامی سلطنت قائم کرے گا۔ عرب دنیا میں اتھل پتھل مچانے والے اس گروہ میں کئی ممالک کے مسلمان آجُٹے ہیں۔ بھارت کے 23 رنگ روٹوں کا پتا چلا ہے۔ ان نوجوانوں کو اسلام کے نام پر بہکا لیا جاتا ہے، لیکن گہرائی میں جانے پر پتا چلا کہ ان میں زیادہ تر نوجوان بے کاری کے شکار ہوتے ہیں یا کافی پہلے سے ہی وہ مجرم ہوتے ہیں۔ وہ اسلام کو اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ان مٹھی بھر گمراہ لوگوں کی وجہ سے دنیا کے سارے مسلمان بدنام ہوتے ہیں۔کئی ملکوں میں ان کا جینا محال ہوگیا ہے۔
ایسے مشکل حالات میں بھارت کے سنی اور شیعہ لیڈروں نے ایک آواز سے دہشت گردی کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور ہر مسلمان سے یہ امید کی ہے کہ وہ تشدد اور قتل کی کارروائیوں میںظاہر ی یا باطنی حصہ نہیں لیں گے۔ اب نماز کے بعد مساجد میں دہشت گردی کے خلاف بھی چند لفظ ضرور کہے جائیں گے۔ داعش کے خلاف فتوے تو جاری ہوئے ہی ہیں‘ اب مسلمانوں سے کہا جائے گا کہ انٹر نیٹ پر بھی دہشت گردوں کی باتوں کو حرام مانیں۔ میری رائے یہ ہے کہ سبھی مدارس میں اسلام اور دہشت گردی پر ایک لیکچر ضرور دیا جائے اور وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ جنوبی بھارت اور مشرقی بھارت کے مسلمان عالموں سے بھی فوراً رابطہ کریں۔ بھارت کی اس پہل کا پوری دنیا خیر مقدم کرے گی۔
بڑا بدعنوان کون ؟
ممبئی عدالت کی ناگپور شاخ نے غضب کی بات کہہ دی ہے۔ اس کے جج ارون چوہدری نے بد عنوانی کے معاملے میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ملک میں بدعنوانی اسی طرح جاری رہتی ہے تو عوام کو متحد ہونا چاہیے اور سرکار کو ٹیکس دینا بند کر دینا چاہیے۔ پورے ملک میں اس طرح کی تحریک چھیڑ دینی چاہیے۔ یہ بات چوہدری نے تب کہی ‘جب انہوں نے مہاراشٹر سرکار اور مہاراشٹر بینک کو 385 کروڑ روپے کے غبن میںبغلیں جھانکتے ہوئے پایا۔
ناگپور عدالت کے جج نے اتنی بڑی بات کہہ دی۔ ایسی بات کہنے کی ہمت آج ملک کے ایک لیڈر میں بھی نہیں ہے۔ یہ بات سب سے پہلے مہاتما گاندھی نے کہی تھی اور آج سے لگ بھگ سوسال پہلے انہوں نے انگریزوں کے خلاف اس طرح کی غیر تعاون تحریک چلائی تھی۔ اس کے بعد ایسی انقلابی بات کہنے والا صرف ایک ہی لیڈر اس ملک میں ہوا ہے۔اس کا نام تھا ڈاکٹر رام منوہر لوہیا! انہوں نے 'سول نافرمانی ‘کا نعرہ دیاتھا۔ سرکار کو ٹیکس نہیں دینے کی بات آج کوئی لیڈرکیوں نہیں کرتا؟ کیونکہ سارے لیڈروں کے ٹھاٹھ باٹھ اور عیاشی عوام کے پیسے پر چلتی ہے۔ اسی ٹیکس پر چلتی ہے۔ مال مفت دل بے رحم! ہماری سیاست کی آکسیجن ہے بد عنوانی! اگر بد عنوانی بند ہو جائے تو ہماری سیاست کے دل کی دھڑکن بند ہو جائے گی۔
لیکن صرف سرکار اور لیڈروں کو کوستے رہنے سے کیا بدعنوانی بند ہو جائے گی؟ سب سے زیادہ بدعنوانی کا پریمی کون ہے؟بھارت کے عوام ، ہم اور آپ ۔ اگر ہم رشوت لینا اور دینا بند کریں تو بدعنوانی اپنے آپ ختم ہو جائے گی۔ جوعوام خود بدعنوانی کرتے ہیں‘ وہ بدعنوانی کے خلاف تحریک کیسے چلائیں گے؟ جس ملک کے عوام ایماندار ہوتے ہیں، اس ملک کے لیڈر، جج اور سرکاری افسر بد عنوانی کرنے سے ڈرتے ہیں۔ لیکن اپنے یہاں تو سارے تالاب میں ہی بھنگ پڑی ہوئی ہے۔
پاکستان کی حقیقی جرأت
پاکستانی پارلیمنٹ کے خارجہ معاملات والی کمیٹی کی سفارش کو اگرمیاں نواز شریف سرکار حقیقت میں مان لے تو کرشمہ ہو جائے گا۔
اس کمیٹی نے کہا ہے کہ پاکستان سرکار ان دہشت گرد گروہوں کو ذرا بھی حوصلہ مند نہ کرے ‘جو کشمیر کے نام پر دہشت گردی پھیلاتے ہیں۔اس کمیٹی کی صدارت اویس لغاری کر رہے ہیں۔ اویس پاکستان کے سابق صدر فاروق لغاری کے بیٹے ہیں۔ فاروق لغاری، ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی تھے اور وہ طویل عرصہ تک پیپلز پارٹی کے ممبر رہے۔ اویس لغاری کی اس رپورٹ کی حمایت میاں محمد نواز شریف کی مسلم لیگ پارٹی اور آصف زرداری کی پیپلز پارٹی بھی کر رہی ہے۔اویس لغاری مسلم لیگ (ن) کے رکن پارلیمنٹ ہیں۔ اس رپورٹ میں صرف کشمیر ہی نہیں ‘بھارت پاکستان تعلقات پر بھی غور کیا گیا ہے۔کشمیر کا مدعا برابر اٹھائے رکھنے کی وکالت اس رپورٹ میں ضرور کی گئی ہے، لیکن اس کے لیے تشدد‘ قتل و غارت گری والا راستہ اپنانے سے گریز کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ لغاری رپورٹ کی تعریف میں اس لیے کروں گا کہ پہلی بار پاکستانی پارلیمنٹ نے یہ مانا ہے کہ پاکستان کی سرکاردہشت گردوں کی حمایت کرتی رہی ہے۔ پٹھان کوٹ واقعہ کے بعد میاں نوازشریف نے جس صاف دل سے پاکستان کا کردار قبول کیا تھا ‘یہ رپورٹ اسی کا اگلا قدم ہے۔ اپنی غلطی قبول کرنے کے لیے غیر معمولی جرأت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس غلطی کو قبول کیا گیا ہے ‘امید ہے کہ اسے اب ٹھیک بھی کیا جائے گا۔ جہاں تک کشمیر کاسوال ہے ‘پاکستان مانگ کرتا رہا ہے کہ بھارتی کشمیر کو آزاد کیا جائے اور بھارت مانگ کرتا رہے کہ پاکستانی کشمیر اسے واپس کیا جائے۔ یہ پرانا ڈھرا برابر چلتا رہے۔اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس کمیٹی نے بھارت پاک تجارت ‘ دریائوں کے پانی ‘ مسافروں کے ویزا‘ ثقافتی لین دین اور باہمی بات چیت کو بڑھانے کی بھی اپیل کی ہے۔کمیٹی کی رائے یہ بھی تھی کہ دونوں ملکوں کے بیچ باہمی اعتماد بڑھانا چاہیے اور ساری بات چیت ٹھوس ہونی چاہیے، یعنی اس سے نئے راستے کھلنے چاہئیں۔ اس رپورٹ پر عمل کرنے کا گرما گرم موقع اسی وقت ہے۔ اگر پاکستان سرکارایک دو ہفتوں میں ہی پٹھان کوٹ حادثہ کے گنہگاروں کوپکڑ لے تو مثبت مذاکرات ہونے میں کتنی دیر لگے گی۔