"DVP" (space) message & send to 7575

کارگل پر نوازشریف کی صاف گوئی

پاکستان کے وزیراعظم میاں نوازشریف کو میں دل سے داد دیتا ہوں کہ کارگل لڑائی کے بارے میں حقیقت بیان کردی۔ کارگل لڑائی چھیڑنے میں پاکستانی سرکار اور وزیراعظم کی بالکل بھی دلچسپی نہیں تھی۔ یہ لڑائی چھیڑی گئی فوج کی پہل پر۔ جنرل پرویز مشرف کی پہل پر۔ میاں نوازشریف نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ کارگل جنگ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو پشت میں چھرا گھونپنے کے برابر تھی۔ یہ جنگ ہوئی تھی1999ء میں اور اٹل جی پاکستان گئے تھے 1998ء میں! اٹل جی نے اپنے دورہ ِپاکستان کے دوران 'مینار ِپاکستان‘ پر جاکر سرعام کہا تھا کہ بھارت پاکستان کے وجود کو تسلیم اور قبول کرتا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات بنانا چاہتا ہے۔ دونوں ملکوں کے بیچ باہمی رشتوں کو سدھارنے کے لیے کئی پہل کی گئیں۔ اٹل جی کے دورے کے ایک ڈیڑھ ہفتہ پہلے لگ بھگ چالیس ارکان پارلیمنٹ کا ایک وفد پاکستان بھی گیا تھا۔ وہاں میں نے بلرام جاکھڑ‘ سشما سوراج اور ملکانی جی جیسے کچھ خاص ارکان پارلیمنٹ کو وزیراعظم نوازشریف سے ذاتی تعارف کروایا تھا۔ سبھی کے دل میں یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ بھارت پاک تعلقات کا اب نیا باب شروع ہونے والا ہے۔ لیکن کارگل نے ساری چوپڑ الٹ دی۔
جب کارگل جنگ چل رہی تھی تو ایک اتوار کی صبح میاں نواز کا اسلام آباد سے مجھے کئی بار فون آیا۔ اس دن کرول باغ، آریہ سماج میں میری تقریر چل رہی تھی۔ میری اہلیہ نے ان کے سیکرٹری کو کرول باغ آریہ سماج کا نمبر دے دیا۔ وہ اتنے جلدی میں تھے کہ تقریر روک کر مجھے ان کا فون سننا پڑا۔ ان کی ایک ہی بات تھی کہ میں اپنے دوست اٹل بہاری واجپائی صاحب سے گزارش کروں کہ جنگ رُکے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یا تو آپ آجائیے یا میں سرتاج عزیز صاحب کو بھیجتا ہوں۔ وزیر خارجہ سرتاج عزیزکئی صحافیوں کولے کر بھارت آئے اور صحافیوں کو میں نے لنچ پر بھی بلایا۔ دونوں ملکوں کے لیڈر جنگ نہیں چاہتے تھے۔
ایک بات اور! جنرل پرویز مشرف، صدر فاروق لغاری کے بعد آرمی چیف بنے۔ کارگل کے بعد جب میں سابق صدر (لغاری) سے جوکہ میرے پرانے دوست تھے ملا، تو انہوں نے بتایا کہ ایک دن وزیراعظم نوازشریف اور جنرل مشرف دونوں ایوان صدر آئے۔ مشرف نے اپنی کارگل تجویز بتانی شروع کی، نقشے پر ڈنڈی ہلا ہلا کر، لیکن میاں نواز نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ وہ سینڈ وچ کھاتے رہے اور ڈکاریں لیتے رہے۔ آخر کار مشرف نے ان کا تختہ الٹ دیا۔کارگل جنگ میں اپنے رویے کا خمیازہ میاں نوازکو جھیلنا پڑا۔
مجھے خوشی ہے کہ میاں نواز نے پٹھان کوٹ حملے کے معاملے میں یہ بیان دیا۔ اس سے باہمی بات چیت کا درست ماحول تیار کرنے میں مدد ملے گی۔
مذہب کیوں بنے فضول کا اڑ نگا؟
آج ایسے دو واقعات سامنے آئے جن سے پتا چلا کہ مذہب یا دھرم یا فرقے کو فضول ہی اڑنگا بنایا جاتا ہے۔ یہ دو واقعے ہیںکیرالا اور میرٹھ کے! کیرالا کے ایک گرلز کالج میں ہندو لڑکی نیرجا پڑھتی ہے۔ اس کالج کو 'مسلم ایجوکیشن سوسائٹی‘ چلاتی ہے۔ اس کالج نے نیرجا کا کالج میں آنا اس لئے بند کر دیا کہ اس نے محمد رمیز نام کے ایک لڑکے سے شادی کر لی ہے۔ یہ شادی دونوں نے کورٹ میں کی کیونکہ دونوں کے والدین ناراض تھے۔ دونوں نے شادی تو کی ہے لیکن ان میں سے کسی نے اپنا مذہب نہیں بدلا۔ تعجب ہے کہ ایک ہندو لڑکی ایک مسلمان کے گھر میں گئی اور اس کی مخالفت ایک مسلم کالج کر رہا ہے۔ کالج مسلمانوں کا ہے تو اسے خوش ہونا چاہیے کہ ان کی تعداد بڑھی۔
لیکن وہ خوش نہیں ہیں۔ شاید اس لئے کہ اس لڑکی نے اپنا مذہب نہیں بدلا، وہ ہندو ہی رہی۔ اس سے بھی بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کالج انتظامیہ ڈر گئی ہو۔ انہیں لگ رہا ہو کہ ان کے کالج کی ایک ہندو لڑکی اگر مسلمان کے گھر بیٹھ گئی تو کہیں کیرالا کے ہندو ان پر ٹوٹ نہ پڑیں۔ ان کے کالج میں پڑھ رہی ساری ہندو لڑکیوں کے والدین ان کو کالج سے نکال نہ لیں۔ سبب جو بھی ہو، نیرجا اور رمیز نے جو کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذہب یا دھرم کے مقابلے میں پیار بڑی چیز ہے۔ جس نے خالص محبت کا جام پیا ہو اس کے لیے مذہب کیا چیز ہے؟ وہ مندر یا مسجد کی اونچی اونچی دیواروںکو پلک جھپکتے ہی پار کر لیتا ہے۔ اس کے سامنے ساری دنیا ایک کھلونا بن جاتی ہے۔ دونوں پریمی ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرتے ہیں لیکن انہیں وہ اپنے رستے کا کانٹا نہیں بننے دیتے۔ ایسے لوگ ہی حقیقت میں انسان ہوتے ہیں۔ وہ مذہب ہی کیا جو انسان اور انسان میںفرق پیدا کرے ؟
یہی بات میرٹھ میں بھی دیکھنے میں آئی۔ وہاں نابینوں کا ایک سکول ہے جس میں سات سال کی ایک بچی رِدا زہرہ پڑھتی ہے۔ وہ دیکھ نہیں سکتی‘ لیکن سن سکتی ہے اور بول بھی سکتی ہے۔ اس نے سن سن کر گیتا کے شلوک اس طرح یا د کر لیے ہیں جیسے کہ وہ انہیں پڑھ کر سنا رہی ہو۔ اس کے استاد پروین شرما نے ایک پروگرام (شلوک کے مقابلے کا) اس کے لیے تیا رکیا تھا۔ ردا سے جب کسی نے پوچھا کہ تم اللہ کو مانتی ہو یا بھگوان کو؟ تو اس کا جواب تھا میںتو اندھی ہوں، میں تو اسے کبھی دیکھ نہیں پائوں گی۔ میں تو اس کی پوجا (عبادت) کرتی ہوں گیتا اور قرآن دونوں پڑھ کر۔ ردا زہرہ کے والد رئیس حیدر نے کہا ''میں چاہتا ہوں کہ پڑھ لکھ کر بڑی بنے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ قرآن پڑھتی ہے یا گیتا؟ اگر وہ دوسرے مذہب کے بارے میں بھی جانکار ہے تو اور بھی اچھی بات ہے‘‘۔ اس معاملے میں بھی مذہب آڑے نہیں آ رہا ہے۔ لیکن ہماری مذہبی سیاست میں پھنسے لوگوں کو انسانیت کا یہ مذہب بالکل ناگوار گزرتا ہے۔ انہیں لگتا ہے اگر لوگ اسی طرح ڈھیل لینے لگے تو ہماری دکانوں کا کیا ہوگا؟ 
کیا ڈاکٹر ایسے بھی ہوتے ہیں؟ 
آج کل میں مالوہ کے سفر پر ہوں۔کئی تقاریر اور سفرختم کر کے جیسے ہی آج صبح اندور پہنچا‘ میں نے ایک خاتون ڈاکٹر کے بارے میں پڑھا۔ میں اتنا متاثر ہوا کہ میں نے سوچا کہ اندورکی ان ڈاکٹر صاحبہ کے بارے میں ملک کے سبھی ڈاکٹروں اور اپنے پیارے اخبار پڑھنے والوں کو بھی بتائوں۔ ان کی عمر 91 برس ہے۔ ان کا نام ہے ڈاکٹر بھگتی یادو ہے! یہ گزشتہ پندرہ سال سے اندور کی کلرک کالونی کے ایک کلینک میں مفت علاج کرتی ہیں۔ یہ نسوانی بیماریوں کی ماہر ہیں۔ انہوں گزشتہ 68 سال میں تقریباًایک لاکھ سے بھی زیادہ عورتوں کی ڈیلیوری کروائی ہے۔ یہ عورتیں اندورکے مزدور علاقے میں رہنے والی ہیں۔ جب وہ ڈاکٹر بھگتی یادو کے پاس آتی ہیں تو انہیں پتا ہوتا ہے کہ انہیں ڈیلیوری کے لیے کوئی فیس نہیں چکانی۔ اتنا ہی نہیں‘ جب بڑے بڑے ہسپتال جواب دے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بچہ پیدا کرنے کے لیے آپریشن ضروری ہے‘ تب تھکی ہاری دولت مند خواتین بھی ڈاکٹر بھگتی یادو کی پناہ میں آجاتی ہیں۔ اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر وہ بنا کسی چکاس(آپریشن) کے ہی ڈیلیوری کروا دیتی ہیں۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر رمن یادو نے مجھے بتایا کہ آنکڑے (اعداد و شمار) اکٹھے کروا رہے ہیں، ان کے ذریعے کی گئی ڈیلیوریوں کی تعدد سوا لاکھ سے اوپر ہوگئی ہوگی۔ وہ اب91 سال کی عمر میں بھی چاہے ان کے ہاتھ کانپتے رہیں‘ وہ عورتوں کا برابر علاج کرتی ہیں۔
ڈاکٹر بھگتی جی نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنی ڈاکٹری کی پڑھائی شروع کی تو 1947ء میں اندور کے میڈیکل کالج میں وہ پہلی اور اکیلی لڑکی تھی۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے والد نے آپ کو وہاں کیسے بھیج دیا؟ تب پتا چلا کہ ان کے والد ونایک کویشور تھے اور ان کے بھائی پروفیسر گجانن ونایک کویشور۔ پروفیسر گجانن ونایک خود بڑے عالم تھے۔ وہ ہولکر کالج میں پڑھاتے تھے اور میں کرسچیٔن کالج میں پڑھتا تھا۔ اب سے پچا س پچپن برس پہلے کئی بار اندور میں ہم ساتھ ساتھ تقریر کرتے تھے۔ ڈاکٹر بھگتی کویشور نے ڈاکٹر چندر سنگھ یادو کے ساتھ لو میرج کی۔ مجھے یہ بھی اب معلوم پڑا کہ میرے ماما (عمر88برس) جو آج کل امریکہ میں رہتے ہیں‘ وہ ڈاکٹر بھگتی کے کلاس فیلو تھے۔ ڈاکٹر بھگتی کی ولادت اجین کے پاس مہید پور میں ہوئی۔گروٹھ اور اندور میں انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ والد کی وفات چھوٹی عمر میں ہو گئی تھی۔ بڑی مشکل سے ڈاکٹر بنیں۔ بھگتی جی نے ڈاکٹری جیسے پیشہ کو خالص عبادت اور خدمت میں بدل دیا۔ بھگتی جی جیسے کتنے ڈاکٹر ہندوستان میں ہیں؟ بھگتی جی صرف ڈاکٹر نہیں ہیں‘صرف عورت نہیں ہیں، ہو بہو دیوی ہیں۔ بھارت کا کوئی بھی اعزاز اس کے لیے بڑا نہیں ہے۔ وہ سو سال کی ہوجائیں بلکہ سوا سوسال کی ہو جائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں