نیپال کے وزیراعظم کے پی اولی کے دورہِ بھارت سے ایسا لگتا ہے کہ دونوں ملکوں کے زخموں پر مرہم لگنا شروع ہو گیا ہے۔ ہمارے وزیراعظم نے اولی کو باتوں کے کافی میٹھے میٹھے رس گلے پرو س دیے نیپال کے آئین کی تعریف کر دی اور یہ بھی کہہ دیا کہ اس کی ادھوری ترمیم کو پورا بھی کیا جائے ۔سبھی جماعتوں اور طبقات کی رضامندی اور جذبات کا خیال رکھا جائے ۔نیپال کے ساتھ تعلیم ‘ صحت اور بجلی گھر بنانے متعلق نو معاہدے ہوئے ۔بھارت سرکار نے پچیس کروڑ ڈالر دینے کا بھی اعلان کیا ۔
اولی نے سب سے پہلے بھارت کا دورہ کرکے یہ پیغام دیا کہ وہ خو دبھارت کے خلاف چینی کارڈ نہیں کھیل رہے ہیں ۔اکثر ہوتا یہی ہے کہ جب بھی بھارت کے ساتھ تھوڑی ان بن ہوتی ہے ‘چین اپنی پوریاں تلنے لگتا ہے ۔اس نے راجیو گاندھی کے زمانے میں بھی یہی کیا تھا اور گزشتہ چھ ماہ بھی اس کا یہی کھیل چل رہا تھا ۔نیپال کے میدانی علاقوں میں ہوئی گھیرا بندی کے دوران چین نے نیپال پر ڈورے ڈالنے کی بہت کوشش کی لیکن گھٹنے تو ہمیشہ پیٹ کی طرف مڑتے ہیں۔ اولی اور ان کے وزراء کو صدارتی ہائوس میں ٹھہرا کر بھارت نے انہیں خاص عزت دی ۔اولی اور ان کے وزیر خارجہ کمل تھاپا سے میری بات ہوئی وہ تما م خوش دکھائی دیے۔مجھے لگتا ہے کہ دونوں ملکوں کے لیڈر ابھی اسی اصول پر چل رہے ہیں کہ بیتی تاہی بھول دے ۔
اس لئے میں گڑے مردے نہیں اکھاڑنا چاہتا ‘کیونکہ دونوں طرفین کے لیے مجھے کچھ نہ کچھ کڑوی باتیں کہنی پڑیں گی ۔لیکن ایک بات بہت واضح ہے کہ نیپالی لیڈر یہ بھول نہ کر بیٹھیں کہ بھارت کو خوش کر لیں اور اپنے مدہیسیوں کو بھول جائیں ۔نیپال کے نوجواں مدہیسی خود مختار ہیں ۔وہ بھارت کی حمایت ضرور چاہتے ہیں لیکن وہ
اس کے اشاروں پر ناچنے والے نہیں ہیں ۔جب تک انہیں ان کی تعداد کے حساب سے نشستیں نہیں ملیں گی ‘اور جب تک سرکار کے کام کاج میں ان کی ٹھیک ٹھاک حصہ داری نہیں ہوگی ‘نیپال میں تشدد اور بائیکاٹ چلتا رہے گا ۔ابھی جو آئین بنا ہے 'وہ گزشتہ آئینوں کے مقابلے بہت اچھا ہے ۔لیکن اس میں ابھی بھی خامیاں ہے ۔نیپالی لیڈر اگر خود اپنے مسائل حل کرلیں تو بھارت کو دخل اندازی کرنے کی ضرورت ہی کیوں پڑے گی ؟بھارت کے لیے نیپال صرف ہمسایہ ہی نہیں ہمدرد بھی ہے ۔جیسی مدد بھارت نے زلزلے کے وقت کی تھی‘کیا کوئی اور ملک کرے گا؟اولی کے اس دورہ بھارت سے نیپال تعلقات کا نیا باب شروع ہونا چاہیے ۔
جاٹوں نے ٹکوائے گھٹنے
نریندر مودی کی سرکار جاٹ تحریک کے سامنے اتنی جلدی گھٹنے ٹیک دے گی ۔کسی کو امید کسی کو نہیں تھی ۔اگر اس سرکار کی عادت ہی گھٹنے ٹیک دینا ہوتی تو وہ گجرات کی پٹیل تحریک کے سامنے پہلے ہی گھٹنے ٹیک دیتی ۔پٹیلوں کا لیڈر ہاردک پٹیل غداری کے کیس میں جیل کاٹ رہا ہے لیکن مودی سرکار کی مہربانی ہے کہ ایک بھی جاٹ لیڈر کو اس نے چھواتک نہیں !کیونکہ اس کا سبب آپ سمجھے یا نہیں؟ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ پٹیل تحریک بغیر تشدد والی تھی جبکہ جاٹ تحریک پُرتشدد تھی ۔اتنی پرتشدد تھی کہ اس نے ہریانہ کے جاٹ وزراء کو بھی نہیں بخشا،ان کے گھر جلا دیے،کاریں پھونک دیں۔ غیر جاٹوں کے گھر ‘کارخانے ‘دکانیں اور کھیت تو اس تحریک کے شکار ہوئے ہی !جاٹوں کو ہریانہ کے لوگ موٹی عقل کا مانتے ہیں لیکن انہوں نے جس عقلمندی کا باریکی سے تاثر دیا ہے ‘ہریانہ
میں ان سے پہلے کسی نے نہیں دیا ۔وہ ہی پہلا ایسا طبقہ ہے ‘جس نے اس سرکار کی اصلیت کو پہچان لیا۔ اسے پتا چل گیا کہ 56 انچ کی ڈینگ مارنے والی اس سرکار کا سینہ چھ انچ کا بھی نہیں ہے ۔اس چھ انچ کے سینے کا اس نے چھ دن میں ہی کچو مر نکال دیا ۔اس نے گجرات کے پٹیلوں کو ‘راجستھان کے گوجروں اور آندھرا پردیش کے کاپوئوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔ہریانہ کو انہوں نے بیس ہزار کروڑ کے نیچے لا دیا ۔جاٹ تحریک نے مودی سرکار کی عزت کو پیندے میں بٹھا دیا۔ اسے تیار کر دیا ہے کہ اب اگلے تین سال وہ کچھ نہ کرے‘پس ملک کے ہر صوبے میں ذات کی بنیاد پر ریزرویشن کی تحریکوں کے آگے گھٹنے ٹیکتی چلی جائے ۔
سچائی تو یہ ہے کہ جاٹوں نے ملک پر بڑی مہربانی کی ہے۔اب ان سے سبق لے کر ملک کی سبھی دبنگ ذات والے ریزرویشن کے اکھاڑے میں خم ٹھوکنے لگیں گے۔وہ ذات کی شماریات پر اپنا اپنا کوٹا مانگیں گی ۔کیوںنہ مانگیں ؟مالِ مفت ‘دلِ بے رحم !اب پچاس فیصد سے کام نہیں چلے گا ۔سو فیصد نشستیں نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں ریزرو ہو جائیں گی ۔وہ بھی کم پڑیں گی ‘یہ بیچاری سرکار اپنا ہی روزگار نہیں سنبھال پا رہی ہے وہ نئے روزگار کیوں پیدا کرے گی ؟وہ پر تشدد تحریکوں سے کیسے نمٹے گی؟ اگر وہ اسی طرح گھٹنے ٹیکتی رہی تو تھوڑے دن بعد اسکے پاس ٹیکنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا ۔اگر اسکے پاس چھپن انچ سینہ ہوتا تو میں اس سے کہتا کہ وہ سبھی ذات والوں کی ریزرویشن ایک ہی جھٹکے میں ختم کر دیں ۔نوکریوں میں کسی کو کوئی ریزرویشن نہ ہو اور تعلیم سے محروم لوگوں کو سو فیصد ریزرویشن اور ضروری سہولیات دی جائیں ۔
موہن بھاگوت کی سنو!
راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کو داد دینی پڑے گی ۔لگتا ہے ملک کے زندہ دل آدمیوں میں وہ ہی مرد ہیں ‘جو ایمان کی بات کھل کر کر رہے ہیں ۔انہوں نے ابھی پھر کہا ہے کہ ملک ریزرویشن پر دوبارہ غور کرے ۔خود ڈاکٹر امبیدکر نے بھی کہاتھا کہ یہ ریزرویشن ہمیشہ کے لیے نہیں ہے ۔موہن جی کی رائے ہے کہ ریزرویشن کی فہرست میں کسے ہٹایا جائے اور کسے جوڑا جائے ‘اسے سرکار جلداز جلد طے کرے ۔ریزرویشن کی بنیاد پر دوبارہ غورکیا جانا چاہیے ۔اس اہم اور تاریخی کام کے لیے غیر سیاسی لوگو ں کی ایک کمیٹی بنائی جائے !غیر سیاسی لوگوں کی کمیٹی کیوں ؟اس کا جواب موہن جی کیا دیں گے ؟میں دیتا ہوں۔اس لئے غیر سیاسی لوگوں کواس کمیٹی میں رکھا جائے کہ لیڈروں کو پیارے یا تو ووٹ ہیں یا نوٹ ہیں ۔وہ بھی تھوک میں !باقی سب ناٹک ہے ۔وہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے اور نہ ہی سوچیں گے ‘جس سے ان کے ووٹ اور نوٹ کی حاصلات کو دور دور تک کوئی خطرہ ہو ۔اگر وہ اتنا ہی کہہ دیں کہ نچلی ذاتوں کے محروم لوگوں کے ملائی دار طبقوں کو ریزرویشن نہ دیا جائے تو انہیں پتا ہے کہ یہ ملائی دار طبقے ان کا کتنا نقصان کر سکتے ہیں ۔
ہماری سیاسی پارٹیاں ‘دانشمند اور صحافی کتنے دبو ہیں کہ وہ ذات کی بنیاد پر ریزرویشن کے خلاف منہ تک نہیں کھولتے ۔ہمارے مارکس وادی دوست بھی منہ پر پٹی باندھے بیٹھے ہیں ۔انہوں نے بھارت میں مارکس واد کی قبر کھود دی ہے ۔مارکس کے 'طبقہ ‘ کے سینے پر انہوں نے ذات کو سوار کر دیا ہے ۔مارکس کے سر پر لوہیا کو بٹھا دیا ہے ۔لوہیا جی کہتے تھے 'محروم پاویں ،سو میں ساٹھ ‘یعنی کیا ؟ یعنی جو بھی سچ مچ محروم ہے ‘وہ چاہے کسی بھی ذات کا ہے ‘اُسے ہر بچے کی تعلیم میں ریزرویشن ہی نہیں ‘خاص سہولیات بھی ملنی چاہئیں ۔یعنی محروم‘دلتوں اور بیک ورڈ کو سو فیصد ریزرویشن ملنا چاہیے ۔صرف تعلیم اورنوکریوں میں ہی نہیں ۔اس نئے انتظام سے ذات پات کا چکر بھی ختم ہوگا ‘روزگار بھی بڑھیں گے ‘اور مکمل ملک یکجہتی سے آگے بڑھے گا ۔لیکن یہ انقلابی کام کرے گا کون ؟
میں نے لکھ دیا اور موہن جی نے بیان دے دیا ‘اس سے کیا بنے گا؟ کچھ نہیں ۔ضرورت ہے ‘اس مُدّا پر عوام کی بیداری کی زبردست تحریک کی۔ حکمران عوام کے راضی نامہ کی سیاست دان پر محض حکومت کر سکتے ہیں ۔ان کی لغات میں پالیسی نام کا لفظ کافی پھیکی سیاہی سے چھپا ہوتا ہے ۔یہ کام کرنا ہوگا مارکس اور لوہیا کے سچے پیروکاروں کو ‘سنگھ کو ‘آریہ سماج کو‘ سرواُدیہ کو اوران فقیر سادھوسنیاسیوں کو، جو اپنی آرتی اتروانے میں اپنی زندگی مان رہے ہیں ۔