بھارت میں رشوت کا کتنا بول بالا ہے‘ اس کا اندازہ ایک عالمی ادارہ کی کھوج کی رپورٹ سے لگتا ہے ۔اس ادارے نے یہ تو بتایا ہے کہ رشوت خوری کے معاملے میں بھارت کا مقام یانمبر کافی آگے ہے لیکن اس سے بھی زیادہ فکر کی بات یہ بتائی ہے کہ بھارت میں جوٹوٹل لین دین ہوتا ہے ‘ اس کا پچاس فیصد حصہ رشوت ہوتا ہے ۔
رشوت کے بارے اچاریہ چانکیہ نے لکھا ہے کہ حکومت میں رشوت کے بنا کام چل ہی نہیں سکتا ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مچھلی پانی میں رہے اور پانی نہ پیئے؟لیکن اصلی سوال یہ ہے کہ رشوت کی حدکتنی ہو؟آٹے میں نمک کے برابر یا نمک میں آٹے کے برابر؟ اگر نصف آٹااور آدھا نمک ہو تو روٹی کا ذائقہ کیسا ہوگا ‘یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔بھارت میں روٹی آٹے کی ہے یا نمک کی ‘ یہ بتانا مشکل ہے ۔
رشوت خوری روکنے کے لیے طرح طرح کے دستور ‘قاعدے اور قانون بنے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی وہ رکتی نہیں ہے ۔کیوں ہوتا ہے‘ ایسا؟اس کی سب سے بڑی وجہ اوپر کے لوگ ہیں ۔جب بڑے لیڈروں کو چھوٹے لیڈر اور افسر رشوت لیتے ہوئے ‘ دلالی کرتے ہوئے ‘بلیک میل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ بھی پیچھے کیوں رہیں ؟ وہ بھی ہاتھ صاف کرنے سے نہیں چوکتے ؟کیا ہمارے ملک کا ایک بھی لیڈر ایسا ہے ‘جو سینہ ٹھوک کر کہہ سکے کہ اس نے کبھی رشوت نہیں لی؟ نہرو اور شاستری کے علاوہ کیا ایک بھی وزیراعظم بھارت میں ہوا ہے ‘جس نے رشوت نہیں کھائی ہو یا اپنے ساتھیوں کو رشوت نہیں کھانے دی ہو ؟رشوت کے بنا سرکار چل ہی نہیں سکتی ۔ملک میں جتنے
بھی رشوت کھانے والے ہیں ‘ان سے زیادہ رشوت کھلانے والے ہیں ۔جولیڈر اور افسر ایماندار ہوتے ہیں ‘انہیں بھی بدعنوان بنانے کا کام ہم عام عوام کرتے ہیں ۔ ہم مالک ہیں ۔لیڈر اور افسر ہمارے نوکر ہیں ۔جب مالک ہی بے ایمانی پر اتاروہے ‘ تو بیچارہ نوکر کیا کرے گا ۔اسی لئے رشوت پر روک صرف قانون سے نہیں لگ پائے گی ۔ اس کے لیے تو ملک میں ایک عوامی تحریک چلانی چاہیے ‘جس کے تحت ملک کے کم ازکم دس کروڑ اچھے لوگ وعدہ کریں کہ ہم نہ رشوت لیں گے اور نہ ہی دیں گے ۔
پوپ اور بلاول کی فراخ دلی
آج کی خبروں نے دل خوش کر دیا ۔ایک خبر روم سے آئی ہے اور دوسری پاکستان کے صوبہ سندھ سے !روم کے پاس قائم ایک قصبے میں پوپ فرانسس نے ایک ہندو ‘ایک مسلمان اور اور ایک بلیک سجن کے پہلے پائوں دھوئے اور پھر انہیں چوما۔ یہ گڈ فرائیڈے کے ایک دن پہلے جمعرات کو کیا گیا ۔ بالکل یہی عجیب کام اب سے دوہزارسال پہلے عیسیٰ مسیح نے صلیب پر لٹکنے سے پہلے کیا تھا ۔انہوں نے اپنے طالبوں ‘دوستوں اور مہربانوں کے پائوں دھوکر ان کو چوما تھا ۔یہ اپنے آپ میں نہایت ہی پاک اور محبت بھرا عمل ہے ۔پوپ نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ سبھی مذاہب کے ماننے والے لوگ اسی ایک خدا کی اولاد ہیں ۔پوپ کا یہ پیغام بہت ہی نازک موڑ پر آیا ہے۔ برسلزحملہ کے سبب پورا یورپ غمگین ہے۔ ایسے ماحول میں پوپ نے پریم کی گنگا بہا دی ہے۔ مذہبی محبت کی یہ زبردست مثال ہے ۔اس کے علاوہ پوپ کے اس عمل کو میں مغروری سے نجات کا کامیاب طریقہ بھی مانتا ہوں ۔
بادشاہوں سے بڑی حیثیت کسی کی رہی ہے تو وہ پوپ کی رہی ہے۔ پوپ کے دارالحکومت ویٹیکن کو تو خودمختار ہی مانا جاتا ہے ۔ ایسے بادشاہ پوپ کا غرور کتنا گھنا ہو سکتا ہے‘اس کا اندازہ ہم آسانی سے کر سکتے ہیں ۔ہمارے ذریعے چنے گئے ہمارے خدمتگاروں ‘وزراء اور وزرائے اعلیٰ اور وزرائے اعظم کے غرور کا ننگا ناچ ہم آئے دن دیکھتے ہی رہتے ہیں لیکن خدا کا ‘زمین پر ایک واحد نمائندہ پوپ اگر کسی عام آدمی کے پائوں دھوئے اور انہیں چومے تو سمجھ لیجئے کہ وہ اپنے غرور کو کس حد تک لے جا سکتا ہے ۔
دوسری خبر بھی غیر معمولی ہے ۔اسلامی ملک پاکستان کی مذہبی انتہا پسندی ساری دنیا میں مشہورہے ۔ مانا یہ جاتا ہے کہ ‘ اہل کتا ب (بائبل اور قرآن )کو ماننے والے لوگ کبھی کسی دوسرے مذہب کی عزت نہیں کرتے۔ لیکن اب دیکھئے کہ پاکستان بھارت سے بھی آگے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی ایسا قانون بنائے گی جو جبراً مذہب کی تبدیلی پر روک لگائے گی۔بلاول نے سندھ میں اس بار ہندوئوں کے لیے ہولی کی عام تعطیل کا اعلان بھی کیا۔ پاکستان میں یہ پہلی بار ہوا۔پاکستانی پارلیمنٹ کے ہندو ممبران نے مانگ کی ہے کہ ہولی اور دیوالی کو ملکی تیوہار مان کر ان دنوں چھٹی کااعلان کیا جائے ۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ہولی اور دیوالی موسم کے متعلق تیوہار ہیں ۔انہیں ہندو دھرم سے بعد میں جوڑ دیا گیا ہے۔ جیسے بسنت اور نوروز ‘افغانستان اور پاکستان میں بھی منائے جاتے ہیں ۔ایسے ہی ہمارے جنوبی ایشیا میں ہولی اور دیوالی ‘ سبھی مذہبب کے لوگ منا سکتے ہیں ۔ پاکستان میں یہ ٹولرنس کی نئی لہر بہہ رہی ہے ‘ وہ دنیا کے سارے ممالک کے لیے مثال ہے اور اس کے نقش قدم پر چلنا چاہیے ۔
برخاست نہ کرتے توکیا کرتے ؟
اتراکھنڈ کی سرکار کو صدرمملکت برخاست نہیں کرتے تو کیا کرتے؟یوں تو 28مارچ کو اکثریت ثابت کرنی چاہیے تھی۔ وہ طریقہ بہترہے ‘یہ طے کرنے کا کہ کسی بھی سرکار کی اکثریت ہے یا نہیں‘ لیکن یہ طریقہ تو 18 مارچ کو ہی لاگو ہو گیا تھا ۔ہریش راوت کی سرکار کا خزانہ بل ضرور گر جاتا ‘کیونکہ نو کانگریسی ممبران نے اپنی حمایت ہٹا لی تھی ‘لیکن سپیکر نے دھاندلی کر دی ۔اس نے اس بل کو آواز کے ذریعے پاس کروا لیا۔اسمبلی میں چل رہے ہو‘ہلے کے بیچ 'نرو وا کنجرو وا‘کا نعرہ لگا اورسپیکر کنجوال نے ہاری ہوئی سرکار کو جیتا دیا ۔ڈوبی ہوئی سرکار کی کشتی پار لگا دی ۔
یہاں اصلی سوال یہ ہے کہ گورنر کے کے پال نے سرکار کو اپنی اکثریت ثابت کرنے کے لیے دس دن کیوں دیے؟ 28 مارچ ہی اکثریت ثابت کرنے کادن کیوں رکھا ؟اٹھارہ مارچ کو ہی راوت سرکار کو برخاست کیوں نہیں کیا ؟راوت سے استعفیٰ کیوں نہیں مانگا؟کیا انہیں پتا نہیں تھا کہ اس دن کے اس وقت میں اپنی سرکار بچانے کے لیے کوئی بھی وزیراعلیٰ زمین آسمان ایک کر دے گا؟وہی ہوا؟راوت نے پہلے الزام لگایا تھا کہ بھاجپا نے لاکھوں کروڑ وں روپیہ بہا کر ان کے کانگریسی ایم ایل ایز کو توڑ لیا ہے۔ اسی الزام کو کانگریس کے نوسکھئے اور بھوندو لیڈر نے دہرایا لیکن میاں کی جوتی میاں کے سر آ ن پڑی ۔خود وزیراعلیٰ راوت کی ایک سی ڈی پکڑی گئی ‘جس میں وہ ایم ایل ایز کو روپیہ کھلا کر توڑنے کی کوشش کر رہے تھے ۔اسی سی ڈی نے ان کی کمر توڑ دی ۔ گورنر اور صدر مملکت مجبور ہو گئے اس سرکار کو برخاست کرنے کے لیے ۔
اب کانگریس کہہ رہی ہے کہ وہ عدالت جائے گی ۔عدالت کیا کرے گی ؟وہ سی ڈی دیکھ لے گی تو اس کے بھی ہوش فاختہ ہو جائیں گے ۔سپریم کورٹ کا فیصلہ تو 18 مارچ کو ہی لاگو ہو گیا تھا۔ عدالت چاہے تو سپیکر کی شکایت کر سکتی ہے یا اسے بدنیتی کی سزا دے سکتی ہے ۔اروناچل اور اتراکھنڈ میں جو کچھ ہواٗ ‘وہ افسوس ناک ہے لیکن اس کے لیے مودی سرکار کو کوسنے کی بجائے کانگریس کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے ۔بی جے پی بھی کانگریس کی طرح اقتدار کے کھیل میںماہر ہے ۔اس سے یہ گرتی ہوئی کانگریس ایسی امید کیوں کرے کہ وہ اسے سہارا لگائے گی ۔