"DVP" (space) message & send to 7575

مودی کی ڈگری اصلی یا نقلی؟

دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجری وال نے وزیر اعظم نریندر مودی کی بی اے اور ایم اے کی ڈگریوں کو لے کر ان پر جو الزام لگائے تھے‘ انہیں اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر جگہ تو مل رہی تھی‘ لیکن اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ نہیں تھا۔ سب لوگ اسے لگاتار چلنے والی نوٹنکی کا حصہ سمجھ رہے تھے‘ لیکن آج جب بھاجپا صدر امیت شاہ اور وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے مودی کی ڈگریوں کو صحافیوں کے سامنے پیش کر دیا‘ تو اس معاملے نے طول پکڑ لیا۔ عآپ پارٹی کی لیڈروں نے فوراً شاہ اور ارون کا جواب دیا۔ انہوں نے پریس کانفرنس کی‘ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مودی کی دونوں ڈگریاں فرضی ہیں‘ شاہ اور جیٹلی ملک کو گمراہ کر رہے ہیں‘ وہ جعلی ڈگریوں کا جرم کر رہے ہیں۔
شاہ اور جیٹلی نے مودی کی بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں‘ اور ایم اے کی مارکس شیٹ بھی صحافیوں کو دکھائی۔ اس پر عآپ پارٹی کے لیڈر آشوتوش نے دو الزام اور عائد کر دیے۔ ایک تو انہوں نے یہ پوچھا کہ بی اے کی ڈگری میں مودی کا نام نریندر کمار لکھا ہے‘ اور ایم اے کی ڈگری میں صرف نریندر لکھا ہے‘ یہ فرق کیوں؟ دوسرا‘ ان کی ایم کی ڈگری 1978ء کی ہے لیکن اس کی مارکس شیٹ پر 1977ء لکھا ہے‘ ایسا کیوں؟ انہوں نے اپنے نام کے آگے سے کمار ہٹایا تو انہوں نے عدالت میں حلف نامہ کیوں نہیں دیا؟ آشوتوش ان دلیلوں کی بنیاد پر مودی کو مجرم نہیں ٹھہرا سکتے۔ نام لکھنے میں ہمارے دستاویزات میں اکثر غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ میرا نام وید پرتاپ ہے‘ لیکن میرے پنجابی دوست مجھے اکثر 'وید پرکاش‘ بنا دیتے ہیں۔ جہاں تک مارکس شیٹ اور ڈگری کے سال میں فرق ہونے کا سوال ہے‘ امتحان 1977ء میں ہو سکتا ہے‘ اور ڈگری 1978ء میں مل سکتی ہے۔ یہ کون سی بڑی بات ہے؟
اگر سچ مچ مودی نے یہ امتحان پاس نہیں کیے ہیں‘ اور اپنی چنائوی دستاویزات میں غلط اطلاع دی ہے‘ تو یہ فکر کی بات ہے اور اگر شاہ اور جیٹلی نے اس جھوٹ کو ڈھکنے کی کوشش کی ہے‘ تو یہ اور بھی سنگین گناہ بن جاتا ہے۔ اتنا سنگین کہ یہ اس سرکار کو ہی لے بیٹھے گا‘ لیکن مجھے لگتا ہے کہ مودی‘ شاہ اور جیٹلی اتنا بڑا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ امکان یہی ہیں کجری وال کے الزام کچے اور بے بنیاد نکلیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو کجری وال کی ساکھ برباد ہو جائے گی۔ کجری وال اور ان کے ساتھی‘ جو اچھا کام کر رہے ہیں‘ وہ بھی بیکار ہو جائے گا۔ آج کل کجری وال آگسٹا ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹر کے معاملے میں مودی اور سونیا کی ملی بھگت کا جو الزام لگا رہے ہیں‘ وہ بھی ایک دم مذاق بن جائے گا۔ بہتر یہی ہو گا کہ عآپ پارٹی کے لیڈر اپنا دھیان ترقیاتی کاموں میں لگائیں‘ تا کہ ملک میں لیڈرشپ کا جو زیرو ابھر رہا ہے اسے وہ بخوبی بھر سکیں۔
سوکھے پر سب کی آنکھیں گیلی
سپریم کورٹ نے وفاقی سرکار کو جیسی مار لگائی ہے‘ ویسی کم ہی لگائی جاتی ہے۔ دس صوبوں میں سوکھے سے پیدا ہوئی صورتحال پر ججوں نے کہا ہے کہ سرکار کا رویّہ شتر مرغ کی طرح ہے۔ وفاق نے سنگھ کے انتظامات کی ریت میں اپنا سر چھپا لیا ہے اور سوکھے میں مبتلا صوبوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ 33 کروڑ لوگ سوکھے سے متاثر ہیں‘ لیکن سرکار ان علاقوں کو سوکھے سے نجات دلانے کے لئے کوئی اعلان نہیں کر رہی۔ عدالت نے سرکار کو ہدایت دی ہے کہ وہ ملکی قحط پر قابو پانے کے لیے ایک ماہ میں رقوم کا بندوبست کرے‘ اور تین ماہ میں قحط میں مبتلا لوگوں کی تکالیف دور کرے۔ عدالت نے موجودہ سرکار کی کھنچائی کرتے ہوئے اس پر کئی احکامات کی حکم عدولی کا الزام بھی لگایا۔ عدالت وفاقی سرکار سے خاصی رنجیدہ دکھائی دیتی ہے‘ کیونکہ سرکار نہ تو سارے معاملے کو چھپا رہی ہے‘ اور نہ ہی اس نے شتر مرغ کی طرح اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ وزیر اعظم سوکھے کے معاملے میں آئے دن متاثرہ صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے بات کرتے رہتے ہیں۔ وفاقی سرکار نے تقریباً تیرہ ہزار کروڑ روپے کی امداد صوبوں کو بھجوا دی ہے۔ سبھی صوبے سوکھے سے نمٹنے کے لیے کئی کئی ہزار کروڑ روپے کی مانگ کر رہے ہیں۔ اب عدالت کے فیصلے کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ وفاق اس پیسوں میں کئی گنا اضافہ کر دے گی۔ وفاق سے یہ بھی امید کی جاتی ہے کہ بھاجپا اور غیر بھاجپا صوبوں میں کوئی فرق نہیں کرے گی۔ کسی جگہ سوکھا پڑا ہے یا نہیں‘ امید ہے کہ یہ طے کرنے کے ساٹھ سال پرانے قاعدوں کو بھی سرکار بدلے گی۔
اس برس جو سوکھا پڑا ہے‘ وہ 1966-67ء میں پڑے سوکھے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ لگ بھگ دس کروڑ بھوکے پیاسے دیہاتی لوگ شہروں میں گھس آنے کے لیے مجبور ہوں گے۔ اگر قحط میں مبتلا لوگوں کی جلد از جلد مدد نہ کی گئی‘ تو ہزاروں لوگ موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ ملک کے 265 اضلاع اور ڈیڑھ لاکھ دیہات میں سوکھا پڑا ہے۔ سال بھر میں دو ہزار کسان خود کشی کر چکے ہیں۔ صنعت سے جڑی ہوئی تنظیموں کے مطابق اس سوکھے سے ملک کو لگ بھگ چھ لاکھ پچاس ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہو گا۔ لوگوں کو راحت پہنچانے کے لیے کم از کم ایک لاکھ کروڑ روپیہ ہر ماہ خرچ کرنا ہو گا۔ یہ تھوڑا افسوس ناک ہے کہ ہماری سپریم کورٹ کو اس وفاقی سرکار کو مار لگانی پڑی ہے‘ جسے زلزلے کے وقت نیپال کی فی الفور مددکرنے کے لیے ساری دنیا کی تعریف ملی تھی۔ اگر مودی سرکار نیپال کے لیے اتنا کر سکتی ہے تو بھارت کے لیے کیا نہیں کرے گی؟ یوگندر یادو اور ڈاکٹر آنند کمار کی تنظیم 'سوراج ابھیان‘ کو مبارک کہ انہوں نے سوکھے کی درخواست لگائی اور ملک کی آنکھ گیلی کر دی۔ سرکار تو جو کرے سو کرے گی‘ بھارت کے باقی سو کروڑ لوگ کیوں نہیں آتے؟
ہتک عزت کی سخت سزا
سپریم کورٹ نے ہتک عز ت کے معاملے میں کئی لیڈروں کی درخواست رد کر دی اور ان لیڈروں کو نچلی عدالتوں میں پیشی کے لیے بلایا ہے۔ ان لیڈروں پر الزام ہے کہ انہوں نے کچھ لوگوں پر بے سر پیر کی تہمتیں لگائیں‘ لہٰذا انہیں جیل بھیجا جائے۔ ڈیڑہ سو سال پرانے ہتک عزت قانون کے مطابق ان لیڈروں کو دو برس کی سزا ہو سکتی ہے۔ درخواست میں ڈیمانڈ کی گئی ہے کہ ہتک عزت ثابت ہونے پر صرف جرمانہ کیا جائے‘ سزا نہ دی جائے‘ ہتک عزت کو گناہ نہ مانا جائے۔ یہ درخواست گزار کون ہیں؟ ایسے لوگ ہیں‘ جو آئے دن ایک دوسرے کی ہتک عزت کرتے رہتے ہیں۔ راہول گاندھی نے‘ اروند کجری وال نے اور سبرامنیم سوامی نے۔ یہ لیڈر حضرات اپنے نام کے آگے 'جناب‘ لگوانے کے لیے بیتاب رہتے ہیں‘ لیکن یہ ایک دوسرے کے خلاف ایسے ایسے الزام لگاتے ہیں کہ عزت کے لائق نہیں رہ جاتے۔ عدالت نے نہ ان لیڈروں کو دو ماہ کی چھوٹ دی ہے‘ اور اپنے معاملے اونچی عدالتوں میں لے جانے کے لیے کہا ہے۔
جہاں تک لیڈروں کا سوال ہے‘ کسی کی بھی ہتک عزت کر دینا ان کی عادت ہے‘ دائو‘ پینترا‘ چال ہے۔ اسے وہ جرم کی قطار سے نہ ہٹوائیں تو کون ہٹوائے گا؟ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے بھارت کے کچھ صحافی بھی بوکھلائے ہوئے ہیں۔ یہ وہ ہیں‘ جنہوں نے کبھی کسی کی ہتک عزت نہیں کہ ہو گی اور نہ ہی کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن وہ اس فیصلے کو آدمی کی خود مختاری کے خلاف مانتے ہیں۔ صحافیوں کی پریشانی درست ہے لیکن ان سے میں پوچھتا ہوں کہ اگر وہ اپنے صحافت کے فرض کو صحیح طریقے سے نبھا رہے ہیں تو انہیں خوف کیسا‘ کس کا؟ کوئی بات بنا ثبوت کے نہ لکھیں۔ اگر ثبوت کے ساتھ بات کے لیے بھی آپ کو سزا دی جائے گی‘ تو آپ سقراط بن جائیں گے۔ سزا دینے سے پہلے ہر عدالت آپ کو ثبوت فراہم کرنے کا موقع دیتی ہے۔
اگر آزادی کسی بھی آدمی کا آزادی بنیادی حق ہے‘ تو اپنی عزت کی حفاظت بھی سب کا بنیادی حق ہے۔ آزادی کے عظیم مفکر جان سٹیورٹ مل نے کہا ہے کہ آپ کے مُکے کی آزادی وہیں ختم ہو جاتی ہے‘ جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے۔ کسی کی عزت لوٹ لینا یا لُٹا دینا‘ اس کے قتل سے سنگین گناہ ہے۔ قتل ہونے پر آدمی ایک بار مرتا ہے‘ اور بے عزتی ہونے پر وہ جب تک زندہ رہتا ہے‘ تب تک بار بار مرتا ہے۔ اسی لیے میں مانتا ہوں کہ ہتک عزت کی سزا دو برس ہی نہیں‘ کم ازکم دس برس تک ہونی چاہیے۔ اگر ہتک عز ت پر سخت سزا کا قانون ہو جائے تو ملک کی سیاست میں خاصا سدھار ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں